عفیفہ ورک
وہ ایک دن خطرناک لفظ ہے کیونکہ وہ ایک دن کبھی آتا ہی نہیں۔ اسی طرح کاش بھی ایک کربناک لفظ ہے جس کے ناتواں وجود کے ساتھ جانے انجانے میں امید لوگوں کے ذہنوں میں، اور دلوں میں اپنے قدم جمانے لگتی ہے۔ یک طرفہ محبتوں میں امید لاحاصل انتظار کی وہ سولی ہے جس پر چاہنے والا خود اپنی مرضی سے تا دم مرگ جھولتا رہتا ہے۔ تڑپ تڑپ کر بے آواز مرتا رہتا ہے۔ وہی امید جو سرسید احمد خان کے نزدیک یقین کی اکلوتی خوبصورت بیٹی ہے۔ جس کے ساتھ خدائی روشنی رہتی ہے۔ جو لوگوں کو مصیبت کے وقتوں میں تسلی دیتی ہے، آڑے وقتوں میں جینے کا حوصلہ دیتی ہے۔ جس کی بدولت دور دراز کی خوشیاں نہایت قریب لگتی ہیں۔ زندگی کی مشکل سے مشکل گھاٹیاں لوگ ہنستے مسکراتے طے کرتے ہیں۔ انسان کی ساری خوبیاں اور نیکیاں جس کے تابع ہوتی ہیں ۔ جی ہاں! وہی امید انسان کو سسک سسک کر جینے کی طرف بھی لے جاتی ہے۔
دماغ سے سوچنے والوں کا ماننا ہے کہ محبت خوابوں میں رہنے کا نام ہے۔ ہمارے جغرافیائی اور معاشرتی اطوار پر غور کریں تو عموماً محبتیں تب تک ہی دلفریب و دلکش ہوتی ہیں جب وہ انسیت کے اوائل ادوار سے گزر رہی ہوتی ہیں۔ جیسے جیسے محبتیں پرانی ہونے لگتی ہیں معاشرے کی طرف سے فرکشن (Friction) صاف دکھنے لگتی ہے۔ یہ ایسا دور ہوتا ہے جب شروع شروع میں چاند تارے توڑ کر لانے کے وعدے کرنے والے اکثر تعلق توڑنے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے لگتے ہیں۔ لیکن اگر محبت ہو ہی یکطرفہ؟ تو ایسی محبت کے کرب اور اذیت کو ماپنے کے لیے کس پیمانے کا استعمال کیا جائے؟ کس ترازو میں تولا جائے؟
انسانی فطرت کا تقاضا ہے سب حقیقی دنیا کے ساتھ ساتھ تصوراتی دنیا بھی لے کر چلتے ہیں۔ یکطرفہ محبتوں میں یہی امید جو آڑے وقتوں میں لوگوں کو جینے کا حوصلہ دیتی ہے عاشقوں کو جانے انجانے میں خواب دیکھنے کی جرات بھی فراہم کرتی ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا ہے، انسیت کے جذبات اور تناور ہوتے ہیں تو اس امید کے دم پر بنے ہوئے خواب انسانی سوچ پر اس قدر حاوی ہو جاتے ہیں کہ فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ حقیقی دنیا کون سی ہے اور فسانہ کیا ہے۔
یکطرفہ محبتوں میں امید سب سے زیادہ جن کو لڑواتی ہے وہ دل اور دماغ ہیں۔ حالات و واقعات کا مشاہدہ کرتے ہوئے دماغ کبھی الٹے قدموں پلٹنے پر مجبور کرنے لگے تو امید دل کا ہاتھ تھام کر اسے خود سے بسائے خواھشات کے گلستان میں لے جاتی ہے۔ یہ اذیت بالکل ایسے ہی ہے کہ کوئی شخص پنڈولم کی سوئی سے سر کے بل باندھا لٹک رہا ہو۔ یوں تو مسلسل سر کے بل لٹکے رہنا ہی کچھ کم تکلیف کا باعث نہیں مگر سونے پہ سہاگا یہ سمجھیے پنڈولم کے ایک طرف نقطہ انتہا پر دل رہتا ہے تو دوسری طرف کے نقطہ انتہا پر دماغ۔ حالات کو بھانپتے دماغ اگر الٹا لٹکے وجود کو پوری طاقت سے کھنچ کر ناں والے نقطہ انتہا کی جانب لے کر جاتا ہے تو امید سہانے خوابوں کا جھانسہ دیکر ہاں والے نقطہ انتہا کی جانب برابر کھنچتی رہتی ہے۔ نتیجتاً انسان وقت کے پنڈولم کی سوئی سے عمودی رخ بندھا ادھر ادھر جھولتا رہتا ہے۔
یکطرفہ محبتوں کی اکثر موت امید کے خاتمے پر ہی ہوتی ہے۔ یوں سمجھیے پنڈولم سے لٹکے شخص کےزخمی ہو چکے پاؤں کی رسیاں کاٹ دی گئی ہوں اور وہ سر کے بل زمین پر آن گرے۔ انفرادی کیسیز میں پنڈولم کی اونچائی اور مسلسل گھومتے رہنے کی مدت اور رفتار میں فرق ہو سکتا ہے مگر یہ طے ہے کہ ہر یکطرفہ محبت کا انجام سر کے بل گرنے پر ہی ہوتا ہے۔ امید کے بنائے گلستان پل بھر میں قبرستان کی شکل اختیار کر لیں تو یہ کہنے میں کیا عار ہے کہ یکطرفہ محبتوں میں امید ہی تو ہے جو ہر برائی، زیادتی، فساد اور اذیت کی جڑ ہے۔