وزیر اعلیٰ جام کمال کی حویلی سے متصل اسکول جہاں 1000 بچیاں خوف میں زندہ ہیں

عبدالرشید الگ

اس جدید دور میں بھی قدیم عمارتیں مضبوط ہوتی ہیں مگر خوفناک بھی ہوتی ہیں۔ البتہ ایسی عمارتیں زلزلے سے متاثر ہوئی ہو وہاں پر ایک دن کا قیام مجبوری میں بھی مشکل ہوتا ہے۔ مگر مسلسل ہر دن 5 سے 6 گھنٹے وہاں پر قیام کیسے ممکن ہے۔ ایک ایسی عمارت میں درسگاہ قائم ہے جہاں اس وقت ایک ہزار سے زائد پھول کھل رہے ہیں بیشک آنے والے وقت میں ان کے پھل کے ضامن مالی جو چالیس سے زائد ہیں۔ آصفہ بھی اُن پھولوں میں سے ایک ہے جو بابا کی پری ہے، ماں کی راج دلاری ہے، اور گھر کی رانی ہے، وہ گزشتہ تین ماہ سے کہہ رہی ہے میں زبردستی مرنا نہیں چاہتی۔

میرا مقصد کوئی خیالی قصہ بتانا نہیں۔ میں وزیراعلی بلوچستان محترم جناب جام کمال خان کے آبائی شہر بیلہ میں واحد کثیر تعداد والے گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول بیلہ کی بات کررہا ہوں۔ اسکول کی عمارت دیگر شہر کے سینکڑوں اسکولوں کے سمیت گزشتہ سال ہونے والے زلزلے میں مکمل ناکارہ ہو چکی ہے۔ عمارت ڈبل اسٹوری ہے جس میں ایک ہزار سے زائد بچیاں پڑھ رہی ہیں مگر خوفناک زلزلے کے بعد اب پڑھنے کے ساتھ ساتھ ہر روز مر رہی ہیں۔

عمارت کا فاصلہ موجودہ وزیراعلی بلوچستان کی حویلی سے چند قدموں کا ہے۔ اگر اسکول کا نظارہ کرنا ہو تو موجودہ وزیراعلی بلوچستان کی حویلی کی چھت سے اسکول ہذا میں جھانک کر کیا جاسکتا ہے۔ جگہ تنگ ہونے کے ساتھ ساتھ ڈبل اسٹوری بلڈنگ اور گزشتہ سال ہونے والے زلزلے کے بعد پیدا ہونے والی ہزاروں چیخ وپکار میں سے میں محض ایک پکار کی بات کر رہا ہوں جو ہر صبح میں سنتا ہوں ”بابا میں زبردستی مرنا نہیں چاہتی“

جب شہر کے واحد حاکم سمیت سارے شہر کے لوگ اور والدین کو پتا ہو کہ متعلقہ عمارت زلزلے کے بعد مکمل متاثر ہوچکی ہے۔ جس کی ازسرنو تعمیر ہی واحد حل ہے۔ اور شہر کا والی ریاست کا والی کئی پشتوں سے خاندانی حکمران اور گزشتہ حکومت میں وفاقی وزیر ہونے کے بعد موجودہ حکومت میں وزیراعلی بلوچستان ہو اور تعلیمی درسگاہ کا یہ حال ہو تو افسوس کرنا واجب ہوتا ہے۔

زلزلے کے بعد اسکول کی شرح غیر حاضری 50 فیصد ہے۔ اس وقت بچیاں اسکول میں کیمسٹری، بیالوجی، ریاضی کم زلزلے پر زیادہ فوکس رکھتی ہیں۔ بیشک خوف میں کھانا اچھا نہیں لگتا پڑھنا تو بڑی بات ہے۔ ممکن ہے رواں سال جماعت نہم اور دہم کے امتحان میں رزلٹ میں زلزلے کے خوف کی شکل واضح نظر آجائے۔

زلزلے کے دوسرے دن سے لے کر آج تک سول سوسائیٹی نے ہر ممکن کوشش کی سرکار کے کمداروں، جمعداروں، اداکاروں سے لے کر والی ریاست تک متاثرہ عمارت کی از سر نو تعمیر کا مطالبہ پہنچایا۔ مگر جس شہر میں سچ بولنا گناہ عظیم ہو وہاں کسی مسئلے پر بات کرنا غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ اور اس معاملے کا نتیجہ سول سوسائیٹی اور والدین کی صورت میں یہی نکلا۔

آصفہ عجیب وغریب باتیں کرتی ہے۔ پیٹ درد نہیں ہوتا پھر بھی بہانہ کرکے اسکول سے اکثر غیر حاضر رہتی ہے۔ کہتی ہے ہماری کلاس میں زلزلے سے پڑھنے والی دراڑیں جہاں ہیں وہی پر میرا میز رکھا ہے۔ ہر دن یہ لگتا ہے اب کے بار آنے والا زلزلہ ممکن ہے اس کلاس سے بھاگ کرجان بچانے کا موقع نہیں دے گا۔ کیونکہ موت ایک بار دستک دیتی ہے دوسری بار بغیر بتائے آتی ہے۔ میں نہیں سمجھتا یہ صرف آصفہ کا مائنڈ سٹ بن گیا ہے بلکہ دیگر ہزاروں لڑکیوں کے گمان میں یہی ہوگا جو متاثرہ اسکول میں زیرتعلیم ہیں۔

زلزلے کے بعد اسکول کی بچیوں نے اور والدین نے احتجاج کیا جس کے بعد عارضی طور پر اسکول کو ڈگری کالج بیلہ میں جاری رکھنے کا کہا گیا۔ مگر چند ماہ بعد دوبارہ متعلقہ بلڈنگ میں جانے کا حکم ہوا اس دوران غیرمصدقہ ذرائع سے معلوم ہوا کے متعلقہ ضلع کی سب سے بڑی اندسٹری ڈی جی سیمنٹ لمیٹڈ نے اسکول کے لئے دو کمرے بنانے کی پیشکش کی جو آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں تھا، پی ایس ڈی پی میں اسکول کے لئے کمرے رکھے گئے مگر تاحال یہ معاملہ ہوجائے گا ہونے والا ہے اس پر رکا ہوا ہے۔

جبکہ رواں ہفتہ سانحہ بیلہ جس میں مسافر کوچ میں آگ لگنے کے باعث 26 کے لگ بھگ لوگ جل گئے کئی گھر اُجھڑ گئے جس کا ذکر میں تفصیلی طور پر اپنے گزشتہ بلاگ ”لوگ بچتے بچتے مر گئے“ میں کرچکا ہوں۔ البتہ اس سانحے میں موجودہ وزیراعلی بلوچستان کے حلقہ انتخاب میں ناقص ریسکیو سسٹم، کلی سے کم پریشر والی فائر بریگیڈ اور قبض کی صورت میں پاخانہ آنے کے وقت کے عین مطابق آگ بجھانے میں تاخیر، اور سول ہسپتال میں بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کا حقیقی چہرہ نمایاں کیا تھا۔

اب کئی ایسا نہ ہو کہہ آصفہ کی بات سچ ثابت ہوجائے اور حفاظتی انتظامات نہ ہونے کے باعث قدرتی آفات کے نتیجے میں۔ ہوسکتا ہے کیونکہ گرتی ہوئی عمارت کو دکا کافی ہے زلزلہ تو اپنی ایک الگ حیثیت رکھتا ہے۔ اور اس معاملے کو سنجیدگی سے نہ لینا جانی نقصان کا سبب بن سکتا ہے جس کا ہونے سے پہلے اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔


میں آصفہ اور دیگر متعلقہ متاثرہ اسکول میں زیر تعلیم بچیوں اور ٹیچرز سمیت یہ کہنا مناسب سمجھونگا اگر اس مسئلے کو سنجیدہ نہ لیا گیا۔ اور عمارت ازسرنو تعمیر نہ کی گئی تو خدانخواستہ عمارت کے گرنے سے کوئی جانی نقصان ہوا تو ہونے والے جانی نقصان کی تمام تر ذمہ داری قانونی، شریعی، ریاست پر عائد ہوگی اور بے شک ریاست کے والی آپ ہیں بیشک۔

علاوہ ازیں یہ بھی سچ ہے اگر ان بچیوں میں کسی منسٹر، ایم پی اے، ایم این اے، یا وزیراعلی بلوچستان سمیت کسی امیرترین شخص کے اپنے بچے زیر تعلیم ہوتے تو آج یہ عمارت ازسرنو تعمیر ہوتی۔ مگر متعلقہ اسکول میں زیر تعلیم بچیاں مڈل کلاس فمیلیز سے سہی مگر ان کے بھی والدین ہیں اور ان کا شمار بھی اشرف المخلوقات میں ہوتا ہے اور ان کے والدین بھی کئی امیدیں اپنی بچیوں سے باندھ کر بیٹھے ہیں باپ اپنا پیٹ کاٹ کر پڑھا رہا ہے اور یہ بچیاں بھی 9 ماہ کسی ماں کی شکم میں رہی ہیں۔

جی ہاں زلزلے آتے رہیں گے لیکن ان کے جھٹکوں سے کوئی نہیں مرتا۔ اموات عمارتوں کے گرجانے اور ملبے تلے دب جانے سے ہوتی ہیں۔ اگر عمارتیں بلڈنگ کوڈ کے مطابق تعمیر ہوں تو وہ زلزلے کے جھٹکوں کو کسی حد تک سہا لیں گی اور ہم جانی و مالی نقصان سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ مگر جب بلڈنگ ( عمارت) عمر کھوچکی ہو اور دو بار زلزلے کی لپیٹ میں آچکی ہو وہاں مزید خاص کر بچوں کی صورت میں مذید زلزلے کا انتظار بغیر کسی حفاظتی انتظامات کے اور سانحہ ہوجانے کے بعد دکھاوئے کے ریاست کے اظہار افسوس سے بہتر ہے۔

حاکم وقت سے گزارش ہے کہہ اگر ان بچیوں کی خاطر نہ سہی اپنے بچوں کی دراز عمر کی خاطر بطور صدقہ ہی متعلقہ جگہ کو از سرنو تعمیر کیا جائے جب بات اسکول کی ہو تو نصابی سرگرمیاں ساز گار ماحول میں ممکن ہے خوف اور خطرے میں جینا مشکل ہے پڑھنا کیسے ممکن ہے۔

آصفہ اتوار کے آنے کا انتظار کرتی ہے مگر اگلی صبح پھر وہی کہتی ہوئی اسکول جاتی ہے ”بابا میں زبردستی مرنا نہیں چاہتی“