تحریر: نگار بلوچ
اسلام میں انسانیت کا کیا مقام ہےاور علما کرام انسانیت کے توہین پر کیوں خاموش ہیں؟ اگر اانسان اور انسانیت کے حولے سے دیکھا جائے تو انسان اللہ پاک کے بے شمار بنائےگئے مخلوقات میں سے ایک مخلوق کا نام ہے اور دوسری طرف اگر انسانیت کو دیکھا جا ئے تو ایک انسان کا دوسرے انسان کے لیئے محبت و ہمدردی کے جذبات اور دوسرے انسان کے لیے خیر خواہی کی طلب ہی انسانیت کہلاتا ہے۔ جبکہ ان کے مقابلے میں دوسرے مخلوقات اس شعور سے عاری ہیں، اگر ہم ایک بھیڑیئے کی مثال لیں تو وہ ایک خطرناک جانور ہے، جس کو صرف اور صرف اپنے خوراک سے تعلق ہوتا ہے، اسے کبھی بھی دوسرے بھیڑیئے کی فکر نہیں ہوتی، اگر اس کے لیئے سارے بھیڑیئے مربھی جائیں، اس کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے، واحد یہی انسانیت ہے جو کہ انسان اور دوسرے مخلوقات میں واضح فرق پیدا کرتی ہے، اللہ پاک نے انسان کو اشرف مخلوقات کا شرف اسی انسانیت کی بنا پر بخشا ہے۔
اگر کوئی انسان انسانیت سے عاری ہو، انسان کے دکھ و درد کو نہ سمجھے اور درندگی پر آمادہ ہو معصوموں پر ظلم وہ زیادتی کرئے، عورتوں پر ظلم وجبر کرے، عورتوں کی عزت کو پامال کرے تو ایسا شخص انسان ہونے کی باوجود درندوں کے صف میں کھڑا ہوگا اسکا شمار انسانوں میں نہیں درندوں میں ہوگا۔
ہر مذہب انسانیت کا فروع دیتا ہے، ہر انسان کے دکھ و درد میں شامل ہونے کا تعلیم دیتا ہے، سب سے بڑھ کر مذہب اسلام کے اصل معنی ہی امن و سلامتی ہے، قرآن پاک کا ایک ایک لفظ انسانیت کا درس دیتا ہے، یوں سمجھو اگر قرآن پاک کو ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو وہ لفظ انسانیت ہے۔ لیکن افسوس پاکستان جیسے ملک سے انسانیت ختم ہوچکی ہے، یہ مذہب کے نام پر انسانیت کو شرمسار کر رہا ہے، انسانیت جسے سن کر شرمندہ ہو جائے۔
ایک طرف پاکستان نے اسلام کے نام پر بلوچستان پر قبضہ کر لیا، تو دوسری طرف غیر اسلامی طریقہ اپنا کر بلوچستان کے عوام پر جبر و تشدد، خون ریزی، ناحق ظلم و زیادتی، کمزورں اور مسکین بلوچوں پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ جہاں بلوچستاں کے عوام کو بلوچستان کے معدینات سے محروم کیا جا رہا ہے، تو دوسری طرف بلوچ عوام پر پاکستانی فورسز کی ظلم و تشدد اپنے پورے شباب پر ہےاور ظلم و ذیادتی کے تمام حدیں پار کر چکے ہیں اور پاکستاں جیسے ظالم کو کوئی روکنے والا بھی نہیں، پاکستان وہ خونخوار جانور بن چکا ہے، جسے اپنے ظلم و بربریت کے علاوہ کسی چیز کی پرواہ نہیں۔
اس دور کوجدید و ترقی یافتہ دور کہا جاتا ہے، جہاں پرایک بات کو دوسرے تک پہنچانے میں ایک منٹ بھی نہیں لگتا، وہاں پوری دنیا بلوچوں پر ہو رہے ظلم سے خود کو انجان بنائےہوئےہیں، حقیقت یہ کہ سب بلوچوں کا تماشہ دیکھ رہے ہیں کہ کیسے ان لوگوں کو ایک ظالم ریاست ظلم کے آگ میں جلا رہا ہے، کیسے ان کے نوجوانوں کو اغواء کرکے ان پر ظلم کے حدیں پار کیئے جا رہے ہیں، کیسے ان کے گھروں کی عزت کو پامال کیا جا رہا ہے، کیسے ان کے عورتوں اور بچوں کو سڑکوں پر بیٹھ کر رونے پر مجبور کیا جاتا ہے، کیسے انکے بھائی، شوہر، باپ بیٹے کو قید خانوں میں بند کرکے اذیتیں دے کر ان کو شہید کرکے بوریوں میں بند کرکے، ویرانوں میں پھنک دیا جاتا ہے۔ کیسے ان کو اجتماعی قبروں میں چونا ڈال کر دفن کیا جا رہا ہے، کیسے یہ ظالم ریاست بلوچوں کے لاشوں پر بھی تیزاب ڈال کر اپنے ظلم کی نشانی چھوڑ تے ہیں تاکہ ان کے گھر والے انکو پہچان بھی نا سکیں، اور ان کو ان کی ہی زمیں پر لا وارث قرار دے کر اپنے فرعونیت اور یزیدیت کے وحشی قصوں کو دفن کر سکیں۔
جہاں پر پوری دنیا تماشائی بن کر تماشہ دیکھ رہے ہیں، تو وہاں تماشائیوں کی پہلی صف میں مذہب کے ٹھیکیدار کھڑے ہیں، یہی وہی ٹھکیدار ہیں جنہیں آپؐ نے اجتماع امت کا نام دیا، جو کبھی غلط نہیں ہو سکتے، پر آج اس اجتماع کو حکومت کی لالچ، دنیا طلبی کی شوق اور موت کے خوف نے حق بات کہنے سے روک دیا ہے، ظلم کو صحیح کا نام دینے پر مجبور کر دیا ہے اور ظالم کے سامنے سجدہ ریز ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔
آج تک بلوچستان میں جتنے بھی تحریک چلے ہیں، سب نے اسلام کے دائرے میں رہ کر بلوچ عوام کی مدد کی ہے اور سب سے بڑھ کر کوئی بھی تحریک اسلام کے نام پرنہیں چلی ہے۔ لیکن آج بات مذہب پر اس لیے آئی ہے کہ جب ایک ریاست پر زبردستی اسلام کے نام پرقبضہ کیا جاتا ہے تو پھر اس کے عوام پر حکومت فرعونیت والےکیوں کیئے جاتے ہیں، پھر کیوں علماء اس ظلم وہ جبر پر اپنے منہ پر پٹی باندھے بیٹھے ہیں، کیا اسلام صرف نماز، روزہ، حج اور ذکوۃ کا درس دیتا ہے؟ کیا اسلام میں انسانیت کے لیےکوئی جگہ نہیں؟ بلکہ اصل میں اسلام نام ہی انسانیت کا، بھائی چارے کا، امن اور سلامتی کا ہے۔
آج کیسے اسلام خاموش ہے، اس ظلم جبر پر جو ایک ظالم ریاست ایک قوم پر کھلم کھلا کر رہا ہے، جسے دنیا کےہر مذہب نے چھوٹ دے رکھی ہے، دنیا کی خاموشی تو سمجھ آتی ہے، پر اسلام کی خاموشی سمجھ نہیں آتی کہ اسلام وہ مذہب ہے جو پورے عالم اسلام کے لیئے امن کا پیغام لایا ہے، تو آج بلوچ عوام کے لیئے کیوں خاموش ہیں؟ کیا اسلام کے قانون بلوچ عوام کے لیئے الگ؟ کیا اسلام کی اور اسلام کے ٹھیکیداروں کی نظر میں جو بلوچ عوام کے ساتھ ہو رہا ہے صیحح ہیں؟ یا پھر علماء کرام اسلام کے نام پر خیرات مانگتے مانگتے اسلام کی تعلیمات کو بھول گئے ہیں۔
قرآن پاک میں اللہ تعاہی کا ارشاد ہے کہ
ولاتقتلوا النفس التی حرم اللہ الا بالحق۔۔۔۔ (سورہ بنی اسراہیل)
ترجمہ۔۔۔ اور جن کی قتل کو اللہ پاک نے حرام قرار دیا ہے تم اس کو بغیر حق کے قتل مت کرو۔
اس آیات سے واضح ہوتا ہے کہ ایک انسان کو نا حق قتل کرنے کامطلب پورے انسانیت کو قتل کرنے کےبرابر ہے، تو اسلام کیسے بلوچستان میں بلوچ عوام کی نا حق نسل کشی پر خاموش ہے؟
ادشاد باری تعالیٰ ہے ۔۔
ان اللہ یا مرو با لعدل والاحسان وایتا ذی القربی۔
(سورہ ابراھیم)
ترجمہ۔بے شک اللہ تعالیٰ عدل و احسان کا حکم دیتا ہے اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا حکم دیتا ہیں۔۔
جہان اسلام میں ایک امیر آدمی کے لیے یہ جائز نہیں کہ اگر اس کے شہر میں ایک غریب بندہ بھوک سے مر رہا ہو، وہ دوسرے شہرمیں اپنا ذکوٰۃ کسی اور کودیں، تو یہاں اسلام کیسے کہہ سکتا ہے کہ بلوچستان کے معدنیات بلوچستان کے غریب عوام کا حق ہے، وہاں پر بلوچ عوام کو ان کے تمام حقوق سے محروم کر کے پنجابیوں کو دوں۔
اسلام عام حالات تو کیا جنگ جیسے حالات میں بھی انسانی حقوق کے پامالی کو پسند نہیں کرتا۔ جیسے کہ اگر جہاد میں ایک کافر مارا جائے تو اس کے لاش کے ساتھ مثنہ کرنا جائز نہیں یعنی اس کے لاش کی بے حرمتی کرنا جائز نہیں وہاں پر اسلام کیسے کہہ سکتا ہے کہ اپنے نفرت کی آگ کو بجھانے کے لیئے ایک بلوچ کے لاش پر بھی تیزاب ڈال دو تاکہ اس کے لاش کو لا وارث قرار دے سکو۔
اسلام مظلوم کی دادرسی کرنے کا حکم دیتا ہے بلکہ آپؐ نے خود ایک مظلوم قوم کی حمایت کرتے ہوئے، مکہ مکرمہ کو فتح کیا پر اسلام کیسے بلوچوں پر کیئے گے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو شدت پسند کا نام دے سکتا ہے۔
ایک عورت کے مقام میں اللہ تعالیٰ کا ادشاد ہے
والذین یوذون المومینن والمومنات بغیر مااکتسبوا فقد احتملوا بھتان و اثما مبینا –(سورہ الاحزاب)
ترجمہ۔۔ اور وہ لوگ جو مومن مرد و عورت کو بلا عذر ایذا پہنچائیں تو وہ جھوٹ اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھاتے ہیں (ایذا میں عورتوں کو ستانا ,ان کی طرف غلط نگاہ سے دیکھنا , ان پر تہمت لگانا ان کی عزت و آبرو کو پامال کرنا سب شامل ہیں)
اسلام میں ایک پاک دامن عورت کا مقام کعبہ سے کم نہیں، اسلام عورت کی عزت و احترام کا درس دیتا ہے، بلکہ ایک جنگ میں بھی کسی عورت اور بچے پر ہاتھ اٹھانا جائز نہیں چاہے وہ کافر کی بھی کیوں نہیں، تو یہاں پر اسلام کیسے بلوچ عورت کو اغواء کا حکم اور اس کے عزت کو پامال کرکے اسکو ندی نالوں میں پھیکنے کا حکم دیتا ہے۔
اصل میں جب ایک ریاست مذہب کے نام بنتا ہے، تو اس ریاست میں مذہب کو ایک ایسا مقام حاصل ہوتا ہے کہ حکومت وقت کو بھی مذھب کے سامنے جھکنا پڑتا ہے بلکہ جب مذہب پر بات آتی ہے تو پورا ریاست ایک آواز بن کر اس چیز کی مخالفت کرتا ہے اور ان مخالفت والوں میں سب سے آگے علما دین ہوتے ہیں پر آج پاکستان بلوچستان میں مذھب اسلام اور اسلام کی تعلیمات کی توہین کر رہا ہے، پر اس بات سےکسی علما کو فرق نہیں پڑرہا ہے، کیونکہ بلوچستان میں بلوچوں پر ظلم کرنے میں جتنا حکومت پاکستان آگےہے، اس سے کہیں زیادہ اس ظلم میں علما کرام بھی شامل ہیں، اپنی خاموشی کی وجہ سے، کیونکہ جب فلسطین کی مسلمان کا نام لیا جاتا ہیں تو یہ علما کرام چیخ چیخ کر جہاد کا حکم دیتے ہیں بلکہ خود اپنے مدارس میں اپنے تلامذہ کو اس چیز کا پورا درس دیتے ہیں تب ان کو پورے انسانیت پر ظلم یاد آتا ہے لیکن جب یہی ظلم بلوچستان کے مسلمانوں پر ہو رہا ہو تو کسی کو کچھ فرق ہی نہیں پڑتا۔
آج اپنے بلوچ بہن بھائیوں کے درد و تکلیف دیکھ کر بس ایک خیال آتا ہے کہ کیا انسان ایسا بھی کر سکتا ہے؟ اس طرح ظلم و جبر کرنے پر اس کو ذرہ برابر ترس نہیں آتا، کیا ان کو ان معصوم بچوں کی چیخ پکار سنائی نہیں دیتی، جو سردی میں بیٹھ کر انصاف کے لیے رور رہے ہیں، جو اپنوں کی آزادی کے لیئے اپنے گھر بار کو چھوڑ کر التجا کر رہے ہیں۔ کیا انسان کی انسانیت ختم ہو گئی ہے، کیا انسان درندہ بن چکا ہے؟ کیا اس ترقی یافتہ زمانے میں انسانیت ختم ہو چکا ہے؟ انسانیت کو آواز دو کہاں ہے۔
مجھے یہ کامل یقین ہیں جناب رسولؐ کے اس قول پر کہ اللہ اور مظلوم کے آہ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہے، اس بات کا یقین ہے بلوچستان کے ان تمام مظلوم ماوں کی آہ اور صدائیں رائیگاں نہیں جائینگی۔ میرے نبی کا ہر قول سچا ہے، ان ظالموں کی بھی پکڑ ہوگی انشااللہ
کیونکہ ظلم ختم ہونے والی چیز ہے، ایک نا ایک دن ضرور ختم ہوگا تب ان ظالموں کا حشر فرعون اور یزید سے بھی برا ہوگا۔
دی نلوچستان پوسٹ