بیسویں صدی کے اواخر میں جنم لینے والی نوجوان نسل وہ نسل ہے جس نے معاشرے کی اقدار، روایات اور بطور مجموعی تہذیب کو بدلتے دیکھا ہے۔ اس نسل نے ٹیکنالوجی اور جدت کو اپنی آنکھوں سے انسان کی معاشرتی زندگی کا ستیاناس کرتے دیکھا ہے۔ اسی نسل سے تعلق ہونے کے ناطے میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوں جو اس تبدیلی سے گزرے اور خوبصورت مشرقی روایات کا جنازہ اٹھتے دیکھا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ بچپن کے اوائل میں جب گاؤں میں کوئی فوت ہوتا تو پورا گاؤں اس غم میں شریک ہوتا تھا، ایک ہفتے تک کسی گھر میں ٹی وی، ریڈیو اور ٹیپ نہیں چلتی تھی۔
مرنے والے کے پسماندگان کا کھانا گاؤں کے دوسرے گھروں سے آتا تھا اور ان کے گھر کے کام ہمسائے کرتے تھے۔ فوتگی ہونے پر پورے گاؤں میں اس ہفتے ہونے والی شادیاں یا تو ملتوی کردی جاتی تھیں یا پھر انتہائی سادگی سے بغیر کسی شور و غل اور ناچ گانے کے انجام پاتی تھیں۔ لوگ ایک دوسرے کے لیے پیار، ایثار اور احساس کے جذبات رکھتے تھے۔ بغض اور نفاق کا دور تک پتہ نہ تھا۔ لوگ سادہ لوح اور پر خلوص تھے۔ اظہر فراغ کے بقول
دیواریں چھوٹی ہوتی تھیں لیکن پردہ ہوتا تھا
تالے کی ایجاد سے پہلے صرف بھروسا ہوتا تھا
چھوٹی چھوٹی چیزوں پہ خوشی کی انتہا نہ ہوتی تھی۔ سکولوں میں بچے ٹاٹ پہ بیٹھ کر پڑھتے تھے اور ہر بچہ اپنا ٹاٹ گھر سے لے کر جاتا تھا۔ جس دن نیا ٹاٹ ملتا تھا خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے۔ بارش ہوتی تو وہی ٹاٹ چھتری کا کام دیتا تھا اور بارش سے بھیگنے سے بچاؤ کے کام آتا تھا۔ مائیں اپنے بچوں کو دوپہر کا کھانا ایک خاص قسم کے کپڑے میں باندھ کے دیتی تھیں جسے ”پونا“ کہا جاتا تھا۔ کھانے میں ماں کے ہاتھ کے بنی دیسی گھی کے پراٹھے اور ساتھ گڑ یا اچار ہوتا تھا جو سکول میں تفریح کے وقت دوستوں کے ساتھ مل بانٹ کے کھایا جاتا تھا۔
جس دن کوئی دوست ساتھ کھانا نہ لایا ہوتا تھا سارے دوست اس کے ساتھ کھانا شیئر کرتے تھے۔ تفریح کے وقت میں کھانا کھانے کے بعد لکڑی کی تختی کو ایک خاص قسم کی مٹی کے ٹکڑے سے ”پوچ“ کے کچی پنسل سے لائنیں اور ”پُورنے“ ڈال کے پھر کالی روشنائی میں قلم ڈبو ڈبو کے لکھا جاتا تھا۔ املاء کی مشق کا رواج عام تھا اور خوشخطی پہ بھرپور توجہ دی جاتی تھی۔ استاد کو صحیح معنوں میں روحانی باپ سمجھا جاتا تھا۔ سپارہ پڑھنے کا رواج عام تھا۔
لوگ ایک دوسرے کی خوشیوں میں بڑھ چڑھ کے شریک ہوتے تھے۔ گاؤں کے کسی گھر میں شادی ہوتی تو کئی ہفتے پہلے ہی پورے گاؤں کی رونقیں دوبالا ہو جاتی تھیں۔ شادی والے گھر ہر روز شام کو گاؤں کے نوجوان لڑکے لڑکیاں اکٹھے ہو کر خوب ہلا گلا کرتے تھے۔ لڑکیاں گھریلو برتنوں کو طبلہ بنا کر لوک گیت گاتیں اور لڑکے ڈھول کی تھاپ پر جھومر ڈالا کرتے تھے۔ ہر تہوار پوری شان سے منایا جاتا تھا۔ خوبصورت رسوم و رواج خوشیوں کو دوبالا کردیتے تھے۔ عطاءالحق قاسمی اسی زمانے کو یوں بیان کرتے ہیں
سب چھتیں ساتھ ہوتی تھیں
ایک چھت کا گمان ہوتا تھا
ہر کوئی میزبان ہوتا تھا
پھر دیکھتے ہی دیکھتے جدت اور ٹیکنالوجی کے نام پہ وہ طوفانِ ہوشربا آیا جو ان تمام روایات و رسوم کو بہا کر لے گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے مکان پکے اور لوگ کچے ہوتے گئے۔ ایثار اور محبت کی جگہ خودغرضی اور حسد نے لے لی۔ ٹاٹ کلاس روم کی جگہ ملٹی میڈیا نے لی اور ساری چاشنی جاتی رہی، تختی اور قلم کی جگہ نوٹ بک اور بال پوائنٹ نے لے لی اور خوشخطی مفقود ہوگئی۔ استاد کو ایک اجرتی مزدور سمجھا جانے لگا۔ دوپہر کا کھانا لنچ بن گیا، ”پونے“ کی جگہ لنچ باکس نے لے لی اور مل بانٹ کر کھانا معیوب سمجھا جانے لگا۔
تفریح کا نام بریک ہوگیا اور سپارے کی جگہ ٹیوشن پڑھی جانے لگی۔ شادیاں میرج ہالوں میں ہونے لگیں اور ساری رسوم و رواج دھیرے دھیرے ختم ہو گئیں۔ ہم دور بیٹھے لوگوں سے قریب ہو گئے اور ساتھ رہنے والوں سے کوسوں دور چلے گئے۔ موبائل اور انٹرنیٹ نے خوبصورت رشتوں کا قتل کرنا شروع کردیا اور ایک میکانیت بھری دوڑ شروع ہوگئی جس کا نتیجہ معاشرتی اقدار و روایات کے خاتمے کی صورت میں نکلا۔
آج افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تمام تر مادی ترقی کے باوجود ہم اصلی خوشی سے دور ہوگئے۔ پیسے اور طاقت کے لالچ نے نفرت اور نفاق کو عام کردیا ہے۔ ہم محض مشین بن کر رہ گئے ہیں اور یہ لمحہ فکریہ ہے۔ اگر اصلی خوشی حاصل نہ ہو تو یہ ساری ترقی اور جدت و سہولت کسی کام کی نئی ہے۔ خدا کرے ہم اسی خوبصورت دور میں لوٹ جائیں۔
یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی