پشتون تحفظ مومنٹ (پی ٹی ایم) کی جانب سے اپنے رہنما ابراہیم ارمان لونی کی ہلاکت کے خلاف منگل کو پاکستان اور کئی دیگر ممالک میں احتجاج کیا جا رہا ہے۔
ابراہیم ارمان رواں ماہ کے آغاز میں لورالائی میں پولیس کی جانب سے گرفتاری کی کوشش کے دوران مبینہ تشدد کے نتیجے میں ہلاک ہو گئے تھے۔
ان کی ہلاکت کے خلاف ان احتجاجی مظاہروں کی کال پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین نے دے رکھی ہے جس کے تحت منگل کو دنیا کے 32 شہروں میں احتجاج کیا جا رہا ہے۔
منظور پشتین نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ ابراہیم ارمان لونی کے قتل کے خلاف منعقد اس احتجاج میں بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوں گے۔ یہ احتجاجی مظاہرے مختلف شہروں میں اپنے مقامی اوقات کے مطابق ہو رہے ہیں جو دن کے مختلف اوقات میں جاری رہیں گے۔
احتجاجی مظاہرے شروع
نامہ نگار عزیز اللہ خان کے مطابق پی ٹی ایم کی جانب سے نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان کے علاوہ امریکہ کے شہر واشنگٹن اور نیو یارک، جاپان، جرمنی اور سویڈن کے شہروں میں بھی احتجاجی مظاہروں کی کال دی گئی ہے۔
نامہ نگار کے مطابق پشاور میں شعبہ چوک کے مقام پر اس احتجاجی مظاہرے کا آغاز ہوا۔ ان کے مطابق پشاور میں مظاہرین کی تعداد کم تھی تاہم وہ پرامن انداز میں نعرے بازی کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔
دوسری جانب بی بی سی کے نامہ نگار نیئر عباس کے مطابق اسلام آباد پریس کلب کے باہر پی ٹی ایم کے احتجاجی مظاہرے میں شریک ہونے کے لیے آنے والے افراد کو پولیس کی جانب سے گرفتار کیا گیا ہے۔
ایسی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہے کہ ان احتجاجی مظاہروں کے دوران اسلام آباد پریس کلب کے باہر ہی پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین کے چند قریبی ساتھیوں کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق حراست میں لیے جانے والوں میں عبداللہ ننگیال، ادریس محسود اور گلالئی اسمعیل شامل ہیں۔
پی ٹی ایم کے رہنما منظور پشتین، اراکین قومی اسمبلی علی وزیر اور محسن داوڑ بھی ان احتجاجی مظاہروں میں شرکت کر رہے ہیں۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ محسن داوڑ شمالی وزیرستان اور علی وزیر بنوں مظاہروں میں شریک ہوئے۔
ادھر کوئٹہ سے ہمارے نامہ نگار محمد کاظم نے بتایا ہے کہ پی ٹی ایم کی کال پر ابراہیم ارمان لونی کے آبائی شہر قلعہ سیف اللہ سمیت بلوچستان کے مختلف شہروں چمن، پشین، قلعہ سیف اللہ، لورالائی، ژوب، زیارت اور مسلم باغ میں احتجاجی مظاہرے ہوئے جن میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
اس موقع پر ارمان لونی کی بہن وڑانگہ لونی نے مظاہرے کے شرکا سے خطاب کیا۔
اپنے خطاب میں وڑانگہ لونی نے کہا کہ ’گذشتہ 70سال سے پشتونوں کی سرزمین پر ابراہیم ارمان کی طرح ہزاروں نوجوان مارے گئے ہیں۔‘
وڑانگہ لونی کا کہنا تھا کہ ’ہمیں یہ سوچنا چایے کہ یہ کیوں ہو رہا ہے اور ہمیں اس کے خاتمے لیے منظم ہونا پڑے گا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جو لوگ پشتونوں کو مار رہے ہیں ان کو ہم نے پہچان لیا ہے۔ اب لوگوں کو ان کے نام بتائیں گے۔‘
ایسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ کسی ایک مسئلے پر اتنے زیادہ شہروں میں ایک ہی دن میں احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا گیا ہو۔
پشتون تحفظ مومنٹ کے زیر انتظام اس سے پہلے اسلام آباد، کراچی اور دیگر شہروں میں دھرنے دیے گئے تھے اور یہ تمام دھرنے اور احتجاجی مظاہرے پرامن رہے تھے۔ پی ٹی ایم کے جلسوں میں بھی بڑی تعداد میں لوگ شرکت کرتے رہے ہیں۔
’وہ ہم سب لوگوں کا دوست تھا‘
ادھر ابراہیم ارمان لونی کی بہن وڑانگہ لونی کا کہنا ہے کہ ان کے بھائی کی زندگی میں شاید ان کے ارمان (خواہشات ) پورے نہیں ہوئے تاہم ان کی موت کے بعد پشتون جس طرح ان کے لیے کھڑے ہوئے ہیں اس سے ان کے ارمان ضرور پورے ہو گئے۔
بی بی سی اردو کے محمد کاظم سے بات کرتے ہوئے وڑانگہ لونی کا کہنا تھا کہ ایک بہن کی حیثیت سے ارمان لونی کا دنیا سے چلے جانا ایک تکلیف دہ بات ہے کیونکہ وہ ان کے لیے امید کی کرن تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ان سے یہ امید تھی کہ وہ مظلوم پشتونوں کے لیے کچھ نہ کچھ کریں گے لیکن جو کام کے بندے ہوتے ہیں ریاست ان کو اٹھا لیتی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہمیں یہ پتہ ہو نہ ہو لیکن ریاست کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ کون کام کا آدمی ہے اس لیے ان کو وہ پہلے ہی اٹھا لیتی ہے۔‘
وڑانگہ لونی کا یہ بھی کہنا ہے کہ ارمان صرف ان کا ہی بھائی نہیں بلکہ پوری پشتون قوم کا بھائی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پوری پشتون قوم ان کے لیے کھڑی ہوئی۔
’ان کے مارے جانے کا غم نہیں کیونکہ ارمان نے پشتون قوم کے لیے قربانی دی۔‘
وڑانگہ لونی نے بتایا کہ وہ اگرچہ ان کے بڑے بھائی تھے لیکن یوں محسوس نہیں ہوتا تھا کہ ارمان ان کے بھائی تھے بلکہ وہ گھر میں سب کے دوست تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’نہ صرف بہن بھائیوں بلکہ اپنی بیوی کے ساتھ بھی ان کا دوستانہ رویہ تھا۔ ہم بلاجھجک اپنے تمام معاملات پر ان کے ساتھ بات کرتے تھے۔‘
انھوں نے کہا کہ 'قبائلی معاشرے میں یہ ہوتا ہے کہ بڑے کے سامنے نہیں بولنا یا اس طرح نہیں بیٹھنا ہے لیکن ارمان ایسا نہیں تھا بلکہ وہ نرم دل اور لبرل سوچ کا مالک تھا۔ وہ ہم سب لوگوں کا دوست تھا۔‘
’ارمان لونی شروع سے ہی ایک سیاسی کارکن‘
ارمان لونی کی بہن نے بتایا کہ ان کے بھائی شروع سے ہی ایک سیاسی کارکن تھے۔ ’پشتون قوم جس طرح اندھیروں میں رہ رہی ہے وہ چاہتے تھے کہ پشتون قوم ان اندھیروں سے نکلے اور ترقی کرے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے کارکن اور پشتون تحفظ موومنٹ کے کور کمیٹی کے رکن بھی تھے۔
وڑانگہ لونی نے کہا کہ ارمان لونی کی پشتون تحفظ موومنٹ سے امیدیں وابستہ تھیں کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں وہ ریاست سے اپنے حقوق حاصل کر سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ دن رات اس کے لیے کام کر رہے تھے۔