چونکہ میرا ایڈورٹائزنگ فیلڈ سے تعلق ہے تو مجھے اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہے کہ کونڈم کے حوالہ سے کمرشل بنانا اور اس کی مارکیٹنگ کتنی مشکل ہے۔ اپنے کلچر اور مختلف علاقوں کے لوگوں کی ذہنی استعداد کو مدنظر رکھتے ہوے اس پروڈکٹ پر کام کرنا واقعی اتنا آسان نہیں ہے۔ اس سے بڑھ کر مشکل بات کنزیومر کا اس کو آسانی سے خریدنا بھی ہے۔ اور یہی میرا آج کا موضوع ہے۔
تو صاحبو ، برتھ کنٹرول کے حوالہ سے مختلف آرا کا ہونا ایک الگ بات ہے۔ اس کے حلال و حرام پر بحث چلتی رہتی ہے۔ اگر موجودہ صورت حال کو دیکھا جائے تو تین سال کے وقفہ پر شاید ہی اب کوئی دو راے ہو کیونکہ حکومت کی طرف سے بھی علما کرام کے ساتھ مل کے اس پر آگاہی مہم بھی چلائی جاتی ہے۔ جس کے اشتہارات آپ لوگوں نے بھی دیکھے ہوں گے۔
مگر بات یہ ہے کہ ہم لوگ برتھ کنٹرول بارے میں جتنے مرضی آگاہی سیمینار کر لیں یا اشتہارات دے دیں ہم تب تک بھرپور فائدہ نہیں اٹھا سکتے جب تک اس میں شامل پروڈکٹس کی فروخت کو بھی اس قدر اچھے طریقہ سے سامنے لایا جائے کہ عام لوگوں اس کو بلاججھک خرید سکیں۔ برتھ کنٹرول کے حوالہ سے کونڈم ایک بےضرر اور سستا طریقہ ہے مگر ہماری سوسائٹی کے عام فرد کے لئے اس کو خریدنا ابھی تک آسان نہیں ہے۔ میسر تو ہر جگہ آسانی سے ہے مگر اس کو عام استعمال کی پروڈکٹ سمجھ کر خریدنا اب بھی شرمندگی کا باعث ہے۔
آسانی کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اسے دکان دار کے کیش کاؤنٹر کے پاس ہی رکھا جائے بلکہ یہ ایسی جگہ ہو جہاں کنزیومر کے لئے اس کو دیکھنے، انتخاب کرنے اور اٹھانے میں کوئی ججھک نہ ہو۔ ریسرچ سے یہ پتا چلتا ہے کہ صرف اس ایک پروڈکٹ کو خریدنے کے لئے فرد کو بہت انتظار کرنا پڑتا ہے۔ پہلے تو شرم کے مارے دکان دار سے پوچھا نہیں جاتا۔ پھر وہ اس انتظار میں ہوتا ہے کہ کیش کاؤنٹر پر کوئی اور گاھک نہ ہو وغیرہ وغیرہ۔ کیونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ کونڈم لینے والے کو بڑی دلچسپی و غور سے دیکھا جاتا ہے کہ پتا نہیں اس نے کون سی کوئی ایسی غیر اخلاقی پروڈکٹ خرید لی ہے۔
فروخت میں آسانی کے لئے ایڈورٹائزنگ و مارکیٹنگ کرنے والوں کو ہمیشہ مناسب آن فیلڈ ریسرچ پر زور دینا چاہیے کہ ہم اس پروڈکٹ کو اپنی سوسائٹی میں کیسے سوبر طریقہ سے پروموٹ کر سکتے ہیں؟ عام فرد کو کیا مشکل ہوتی ہے؟ دکان میں کس جگہ رکھنا مناسب ہے؟ تاکہ اس ضرورت کی پروڈکٹ کو کوئی فرد دکان سے لیتے وقت خود کو کمفرٹیبل محسوس کرے۔ جہاں لوگ ٹی وی پر اسکے کمرشل کو دیکھ کر شرمندگی محسوس کریں، وہاں کیسے ہم کہہ سکتے کہ اس کو دکان سے جا کر خریدنا آسان ہو گا؟ ہمیں صرف اعلی مینٹل اپروچ والے ہی کو نہیں دیکھنا بلکہ عام گلی محلے والے مڈل کلاس یا کسی گاؤں و قصبہ کے کنزیومر کو بھی ذہن میں رکھنا ہے۔ دکان داروں کی بھی تربیت ہو کہ اس کو کہاں رکھنا مناسب ہے، رنگ دار لفافہ میں دینا ہے، اس کو نارمل نگاہ سے ہی دیکھنا ہے وغیرہ وغیرہ۔
حرف آخر: اہم بات یہ کہ مجھے اس پروڈکٹ پر بنائے جانے فضول اشتہارات اور ان میں استعمال ہونے والے الفاظ پر خود بھی بہت اعتراض ہے جن میں اپنے کلچر کو سمجھتے ہوئے بہت بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ اگر اس میں تبدیلی نہیں لائیں گے اور اپنی سوسائٹی کے حساب سے “پرجوش کی بجاے پرہوش” والے سادہ و سوبر اشتہارات نہیں بنائیں گے تب تک یقین کریں کونڈم خریدنے والے کو غور سے ہی دیکھا جائے گا جیسے وہ خریدنے کے بعد انسان نہیں بلکہ حیوان لگتا ہے۔