ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
بہت بچپن کی یاد ہے کہ گھرمیں جب شادی بیاہ کی بات ہوتی، آپا ٹھنک کر اماں سے فرمائش کرتیں، اماں پلیز میری شادی اہل زبان میں کیجیے گا، پنجابیوں میں ہر گز نہیں۔ اماں وجہ پوچھتیں تو آپا کہتیں، پنجابی آدمی بہت گالیاں بکتے ہیں، اماں فورا کہتیں، لو کیا کبھی تم نے اپنے پنجابی ابا اور ماموں کو ایسا کہتے سنا، آپا کا جواب نفی میں ہوتا کہتیں، پر اماں میں نے بہت لوگوں کو ایسا کرتے دیکھا ہے اور مجھے گالیاں سننا بہت برا لگتا ہے۔ ہماری دھان پان، نستعلیق سی آپا اردو ادب کی شیدائی، آرٹ و کلچر ان کا اوڑھنا بچھونا، بول چال میں آپ جناب اور آئیے بیٹھیے۔
بد قسمتی سے شادی ایک ایسے پنجابی مرد سے ہو گئی جو گالی دینا مرد کی شان سمجھتے تھے اور جو عورت کو واقعی پاوں کی جوتی اور ناقص العقل سمجھتے تھے اپنی تمام تعلیم کے باوجود، تعلیم نے ان کا کچھ نہ بگاڑا تھا۔
آپا ایک روایتی عورت ٹھہریں اور ہر طرح کے استحصال کے باوجود زندگی کے دن گزارتی رہیں اور پھر درد اتنا بڑھا کہ ذہن کی کھڑکیاں ہی بند کر کے ایک اپنی دنیا بسا لی جہاں ادب پہلا قرینہ تھا محبت کے قرینوں میں۔
ہمارے ابا دیہات کے پنجابی آدمی تھے اور تحمل کی اعلی مثال۔ غصہ آتا تو بجائے چیخنے چلانے کے خاموش ہو جاتے، اماں ابا میں کوئی اختلاف ہو جاتا تو بچوں کو ان کی خاموشی سے خبر ہوتی کہ کہیں کچھ گڑ بڑ ہے، کچھ ہی دن کے بعد دونوں ہنسنا بولنا شروع کر دیتے، ہم نے کبھی ان کو لڑتے نہ دیکھا۔
شادی کے بعد کسی گفتگو کے درمیاں جب ہم سے سوال ہوا کہ آپ کے اماں ابا کیسے لڑتے تھے اور ہم نے مندرجہ بالا بات دوہرائی، تو ہمارے جیٹھ بولے ”ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا۔ آخر پنجابی آدمی تھے نا۔“
ہم نے اماں اور ابا کو ایک دوسرے کی خواہشات کا احترام کرتے دیکھا، ابا سوشل معاملات میں صفر اور اماں چیمپین، ابا نے اماں کو اپنی سہلیوں کے ساتھ گھومنے پھرنے سے کبھی نہ روکا اور اماں کے لئے ابا کا حقہ کبھی مسئلہ نہ بنا۔ مالی معاملات کلی طور پہ اماں کے سپرد، ابا اپنی پوری تنخواہ اماں کے حوالے کر کے فارغ ہو جاتے اور اپنا جیب خرچ بھی انھی سے مانگتے۔
ساس نند کا ٹنٹا بھی نہ تھا، ہمارے ابا ہر بات اپنی اماں، بہن اور بیوی کے سامنے کرتے سو کسی کو بھی کوئی غلط بیانی کرنے کی جرات نہ ہوتی۔ حق گوئی اس قدر مرغوب کہ پانچ سال تک اولاد نہ ہونے پہ جب ہمارے دادا نے دوسری شادی کا ذکر چھیڑا تو ابا نے یہ کہہ کہ سب کو چپ کروا دیا کہ مجھے لکھ کے دیا جائے کہ دوسری بیوی سے اولاد ہو جائے گی۔
ماں باپ اور بہن بھاؤں کے حقوق اپنی جگہ مگر بیوی کے حقوق بھی مقدم ٹھہرے۔
فیمینسٹ اس قدر کہ دادا اور خاندان کی مخالفت کے باوجود اپنی جوان بیوہ بہن کے لئے رشتہ ڈھونڈا اور اپنے گھر سے سرپرست بن کے رخصت کیا اور وقت کی آنکھوں نے دیکھا کہ ہماری پھوپھو نے بہت خوش وخرم زندگی گزاری اور ساری عمر اپنے بھائی کی مشکوررہیں کہ انھوں نے ایک بر وقت فیصلہ کر کے انہیں دوبارہ زندگی گزارنے کا موقع دیا۔
آزادی کے اس قدر قائل کہ گھر میں کسی کتاب، کسی رسالے پر کوئی پابندی نہ تھی، اردو ڈائجسٹ، سیارہ ڈائجسٹ ماہانہ آتے اور گھر کا ہر فرد انہیں پڑھنے کے لئے آزاد، ابن صفی کے ناول وہ دفتر کی لائبریری سے لے کر آتے تو ان سے پہلے ہم پڑھتے۔ سکول میں جب میں بتاتی کہ میرے ابا ہمیں خود ناول لاکر دیتے ہیں تو وہ لڑلیاں جو کتابوں میں یا باتھ روم میں چھپاکر پڑھتیں وہ ہمیں کسی اورسیارے کی مخلوق سمجھتیں۔
ریڈیو ہمارے گھر ہر شام باقاعدگی سے بجتا، ابا پانچ وقت کے نمازی اور ہر نماز کا درمیانی وقفہ ریڈیو دل بہلاتا۔ ہم کوئی بھی کام کر رہے ہوتے، بیک گراونڈ میں نور جہاں، اقبال بانو، مہدی حسن، فریدہ خانم، استاد امانت علی کی مدھ بھری آوازکانوں میں رس گھول رہی ہوتی۔
ہم نے اپنے بچپن میں ریڈیو جانا شروع کیا، غیر نصابی سرگرمیاں اوڑھنا بچھونا ٹھہریں، اس شوق میں ٹی وی تک جا پہنچے، خاندان میں ابا کے مذہبی ہونا اور لڑکیوں کو اتنی آزادی دینا انتہائی معیوب ٹھہرا مگر انہوں نے کسی کو اس سے زیادہ نہ بڑھنے دیا۔
شادیاں ہوئیں تو معاشرے کے مروجہ رواج، جہاں تمہاری ڈولی جا رہی ہے، وہاں سے جنازہ نکلے کہ بر عکس کہا کہ یہ گھر ہمیشہ تمہارا ہے، ہم ہمیشہ تمہارے ہیں، اگر نباہ مشکل ہو جائے تو واپس لوٹ آنا، اسلام میں طلاق کی کوئی ممانعت نہیں۔
آج سوچنے بیٹھتی ہوں، پنجاب کے ایک پسماندہ گاؤں کا پروردہ، ابتدائی تعلیم گاؤں سے حاصل کرنے والا، ایسا کیسے ہوا کہ زبان و کردار دونوں انتہائی مصفی ٹھہرے۔ ہماری بہن نے جو نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ”پنجابی آدمی جس کا ہر جملہ پین دی، ماں دی سے شروع ہوتا ہے کہ عورت بھی، زمین اور مال مویشی کی طرح ملکیت ہے سو مالک جیسا چاہے سلوک کرے“ وہی اس کا مقدر ٹھہرا اور ہماری اماں نہایت شان سے ایک اعلی ظرف پنجابی کے ساتھ زندگی گزار گئیں۔