بدقسمتی سے یا خوش قسمتی سے ہمارے مُلک میں سعودی حکومت اور مکہ اور مدینہ کو ایک ہی نظر سے ایک ہی زاویے سے دیکھا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص سعودی حکومت پر کوئی تنقید کرے تو کُچھ حضرات لٹھ لے کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور اس حکومتی تنقید کو دونوں متبرک شہروں (مکہ اور مدینہ) پر تنقید سُمجھ کر کفر کے فتوے تک جاری فرما دیتے ہیں اسی طرح اگر کوئی شخص مکہ اور مدینہ کے معاملے میں جذباتی پن دکھائے جو کہ ایک مسلمان ہونے کے ناطے اس کے لئے ضروری ہوتا ہے تو لبرل قسم کے حضرات اس کو سعودی حکومت کا چمچہ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔
حالانکہ سعودی حکومت اور مکہ اور مدینہ دو الگ الگ معاملے ہیں۔ سعودی حکومت نے ہمیشہ پاکستان کی بُہت زیادہ مالی امداد کی ہمارا ساتھ دیا بُہت سارے ہماری بھائی سعودی عرب میں محنت مزدوری کرکے ملک اور اپنے خاندان کے لئے زرمبادلہ کما رہے ہیں۔ ان ساری سہولیات کے بدلے ہم جو مملکت سعودی کی خدمت کرتے ہیں وہ کُچھ کم نہیں ہے۔ پہلی بات تو آپ کم از کم یہ بات تو ذہن سے نکال دیں کہ ہمارا اور سعودیہ کا تعلق دو برادر اسلامی مملکت کا ہے ہر گز نہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ ہم غلام ہیں اور وہ آقا اگر یہ تھوڑا سخت لقب ہے تو جیسے استاد محترم وسعت اللہ خان فرماتے ہیں کہ وہ چوھدری صاحب ملک صاحب سردار صاحب ہیں اور ہم بخشو۔ ہمارے ملک بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص ہر زمیندار ملک چوھدری سردار ؤڈیرہ سرمایہ دار کے پاس ایک بخشو ضرور ہوتا ہے۔ ڈیرے میں سویا ہوا بخشو سب سے پہلے اُٹھتا ہے اور سب سے آخر میں جا کے اس کے ذمہ کے کام ختم ہوتے ہیں۔ بخشو نے مالک کے کام تو سارے کرنے ہوتے ہیں ساتھ میں ساتھ والے ڈیرے کی خبریں کہ کون مالک کی اچھائیاں کرتا ہے اور کون بُرائیاں کرتا ہے۔
جب مالک شام کو تازہ حقہ پیتا ہے بخشو سارا دن کی روداد سُناتا ہے اور کبھی کبھی مالک خوش ہوکے کہ دے بخشو تو بڑا وفادار ہے تو اس وقت بخشو کو ایک چیز کی بڑی یاد آتی ہے کہ کاش میری دم ہوتی تو ہلا دیتا۔ اگر آپ بخشو کو بھولا سمجھتے ہیں تو یقین جانو آپ بڑے بھولے ہو۔ بھولا کو اپنی اہمیت کا پتہ ہے کہ مُجھ سا خدمت گزار مالک کو نہیں ملنا اس لئے وہ کبھی کبھی اپنی اوقات سے بڑھ کے بھی باتیں کرتا ہے اور مالک بھی اس کو ناراض کرنا افورڈ نہیں کرسکتا اس لئے کہ بخشو جیسا ملنا بڑا مشکل ہے۔
بخشو یار تو اپنے گھر سے اپنے لڑکے لے آ ساتھ والے چھوٹے چودھدری کی کُٹ لگانی ہے۔ مسئلہ ای کوئی نہیں جناب۔ بخشو تیرے پاس یہ چاقو بڑا زبردست ہے۔ ایسا چاقو تو پورے چک میں پانچ چھ بڑے ملکوں یا چودھریوں کے پاس ہے یا تیرے پاس ہے۔ کدھر سے لایا۔ ؟ چودھری صاحب میں نے خود بنایا ہے۔ بخشو یار تو اس طرح کر یہ چاقو مُجھے دے دے میں نا تُجھے دس بوری گندم دے دوں گا۔ چودھری جی یہ میں نہیں دے سکتا کیونکہ میری ساتھ والے چک کے بخشو سے لڑائی ہے اور اس کے پاس بھی بڑی ظالم چُھری ہے۔
ورنہ میں نے چاقو رکھنا ہی نہیں تھا۔ لیکن آپ مطمن رہیں کسی نے بھی چودھری جی آپ کی طرف بُری نگاہ سے دیکھا۔ چاقو سے آنکھیں نکال دوں گا۔ بخشو مُجھے تم سے اس طرح وفاداری کی اُمید ہے۔ یہ دو بوریاں گندم اُٹھا اور عیش کر۔ چودھدری صاحب میری ضرورت زیادہ ہے کوئی نہیں تو یہ لے جا بعد میں پھر دے دوں گا۔ چودھری صاحب بھاگ لگے رہن۔ اب آتے ہیں اصل مُدعے پر۔ سعودی ولی عہد تشریف لائے چشم ماروشن دل ماشاد۔ امدادی پیکج دیا اس کے لئے شُکریہ۔
اگر خاکم بدہن یمنی مسلمانوں کو مارنے اور ایران کو ڈنڈا دینے کے لئے ہمیں پھر سے بخشو بنایا جارہا ہے۔ تو کہہ دیجیے کہ سب سے وڈے چودھری کے بخشو بن کے جو افغان مسلے کو لے ابھی تک ہمارے کُھنے سیکے جارہے ہیں۔ مزید بخشو بننے کی ہماری ہمت نہیں۔ سیدھے لفظوں میں بول دیں۔ یا رفیقا اے نئی کوئی چنگا طریقہ۔ ساڈے ولوں ناں اے۔