اس نے مجھے سر سے پاؤں تک مشکوک نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا، ”جی آپ کو کس سے ملنا ہے؟ “
میں گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج خانیوال میں پروفیسر ناصر سپرا سے ملنے آیا تھا۔ وہ نہ صرف مذکورہ کیپمس کے انچارج ہیں بلکہ نہایت عمدہ شاعر بھی ہیں۔ میں جب بھی خانیوال جاؤں اسی تعلق سے ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ اس سے پہلے کہ میں اس شخص کو جواب دیتا جو مجھے نائب قاصد معلوم ہو رہا تھا کہ اچانک پروفیسر صاحب کی آواز سنائی دی۔ ”آ جائیں جبران صاحب۔ “
چناچہ چند لمحوں بعد ہم کالج کے خوبصورت لان میں بیٹھے تھے۔ انگلش، اردو اور میتھ ڈپارٹمنٹ کے تین پروفیسر جو شاعری کا شغف بھی رکھتے تھے ہمارے ہمراہ تھے۔ پروفیسر سپرا نے فوراً خانیوال کا خاص سوہن حلوہ اور چائے منگائی اور شاعری کی محفل جم گئی۔ اتنے میں وہی ملازم آیا اور بے تکلفی سے سوہن حلوے کا ایک ٹکڑا منہ میں رکھتے ہوئے ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ اسی دوران میں نے ایک جملہ کسا تو فضا میں قہقہے گونج اٹھے مگر سب سے زوردار آواز ملازم کی تھی۔
پروفیسرز کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات ابھر آئے۔ ”صادق تم ذرا اس پیپر کی فوٹو کاپی کرا لاؤ۔ “ پروفیسر سپرا نے فائل سے ایک پیج نکالتے ہوئے یوں کہا جیسے اچانک یہ بات یاد آئی ہو۔
”سر ابھی لانا ضروری ہے کیا؟ اتنا مزہ آ رہا تھا آپ کی باتیں سنتے ہوئے۔ “ صادق نے مجبوری کے عالم میں اٹھتے ہوئے کہا۔ ”بہت ضروری ہے جاؤ۔ “ پروفیسر سپرا نے فوراً زور دے کر کہا۔ اور وہ شاید منہ بناتے ہوئے چلا گیا۔
”جبران صاحب دیکھئیے ذرا سر نے اس ملازم کو بہت سر چڑھا رکھا ہے۔ یہ جب چاہے ہمارے درمیان آ بیٹھتا ہے۔ اور پھر ہماری باتوں میں دخل بھی دیتا ہے جسے ہم تو دخل در معقولات ہی سمجھتے ہیں لیکن سر اسے کچھ کہتے ہی نہیں ہیں۔ “ انگلش کے پروفیسر صاحب نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
بالکل درست کہا، ہماری آپس کی سو باتیں ہوتی ہیں جو ہم نہیں چاہتے کہ اس کے سامنے کریں۔ یہاں لان میں یہ کرسیاں پروفیسرز کے لئے رکھی ہوئی ہیں۔ اس ملازم کی کرسی آفس کے ساتھ ہے لیکن یہ جب دل چاہتا ہے یہاں آ کر بیٹھ جاتا ہے۔ اردو کے پروفیسر صاحب نے فوراً تائید کی۔ میں تو خیر کیا جواب دیتا لیکن پروفیسر سپرا نے بھی بڑی خاموشی سے یہ باتیں سنیں پھر یوں گویا ہوئے۔
دراصل بات یہ ہے کہ ایک دن میں نے صادق سے اس حوالے سے بات کی تھی۔ میں نے اسے کہا کہ دیکھو تم جس طرح پروفیسرز کے درمیان ان کی مخصوص نشستوں پر بیٹھتے ہو یہ مناسب نہیں ہے۔ تمہیں یہ سوچنا چاہیے کہ اس طرح پروفیسرز کمفرٹیبل محسوس نہیں کرتے۔ اس پر اس نے مجھے جواب کچھ یوں دیا تھا۔
”جناب آپ کی بات اپنی جگہ ہے لیکن میں حیران ہوں کہ میں ان کرسیوں پر کیوں نہیں بیٹھ سکتا۔ دیکھیں جس فضا میں آپ لوگ سانس لیتے ہیں اسی فضا میں، میں سانس لیتا ہوں، جو کھانا آپ لوگ کھاتے ہیں اسی طرح کا کھانا میں کھاتا ہوں، جس ملک کے آپ باشندے ہیں وہی میرا ملک بھی ہے۔ جس طرح آپ لوگوں کے ہاتھ پاؤں، ناک، کان آنکھیں وغیرہ ہیں اسی طرح میری بھی ہیں۔ آپ بھی انسان ہیں اور میں بھی انسان ہوں پھر میں یہاں کیوں نہیں بیٹھ سکتا۔ “
ذرا صبر کیجئیے ابھی آپ کے سامنے بات ہو گی۔ پروفیسر سپرا بھی سسپنس پیدا کرنے پر تلے تھے۔ اچھا پہلے شاعری تو ہو جائے۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ چناں چہ شاعری کا سلسلہ جہاں سے ٹوٹا تھا پھر شروع ہو گیا۔ اتنے میں صادق فوٹو اسٹیٹ لے آیا۔ پروفیسر سپرا نے کاغذ پکڑا اور بولے۔
”صادق آج میرے دوست بڑی مدت بعد ملے ہیں، میں ان کے ساتھ ذرا مصروف ہوں، تم ایسا کرو کہ بی ایس سی کی میتھ کی کلاس لے لو۔ “
صادق جو کرسی پر بیٹھنے کے لئے پر تول رہا تھا چونک کر کھڑے کا کھڑا رہ گیا۔ ”کیا مطلب سر؟ میں کلاس لے لوں؟ “
”ہاں ہاں تم کلاس لے لو میں تھرڈ چیپٹر پڑھا رہا ہوں۔ اسی کی مشقیں کرا دو کیوں کہ سلیبس وقت پر ختم کرانا بھی ضروری ہے۔ اس لئے میری جگہ تم چلے جاؤ۔ “ پروفیسر سپرا نے کہا۔
لیکن سر میں آپ کی جگہ کیسے جا سکتا ہوں، میں میتھ کی کلاس کیسے پڑھاؤں گا۔ صادق نے عاجزی سے کہا۔
”کیوں تم بھی اسی فضا میں سانس لیتے ہو جس میں، میں سانس لیتا ہوں، وہی کھانا کھاتے ہو جو میں کھاتا ہوں، میری طرح آنکھ، کان ناک، دماغ رکھتے ہو تو پھر میری طرح کلاس بھی پڑھا دو، ذرا جلدی جاؤ پیریڈ شروع ہو گیا ہے۔ “ پروفیسر سپرا نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔