انسان کی تہذیب و معاشرت اس کی زبان سے گہرا تعلق رکھتی ہے۔ جیسے جیسے انسان تہذیب سے آشنا ہوتا گیا زبانوں کا ارتقاء عمل میں آتا گیا۔ زمانہِ قدیم میں لوگ قبائل کی شکل میں رہتے تھے ان کی زبانیں بھی مخصوص تھیں جن میں وقت کے ساتھ ساتھ اختلاط رونما ہوتا گیا اور نئی زبانیں بنتی گئیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے
بعض روایات کے مطابق بنی اسرائیل کے بارہ قبائل میں سے ایک گمشدہ قبیلہ سفر کرتا ہوا موجودہ افغانستان اور خیبر پختونخواہ کے علاقوں میں آکے آباد ہوا۔ یہ پشتو زبان بولتے تھے۔ ان میں سے کچھ پٹھان خاندان دہلی کی طرف ہجرت کر گئے دہلی پہ حکمران ہوئے اور وہاں آباد ہو گئے اب جن علاقوں میں یہ آباد ہوئے ان علاقوں کی زبانیں ان کی اپنی زبانیں بنتی چلی گئی اور یہ پنجابی اور اردو بولنے لگے تقسیم ِہندوستان کے بعد ان میں سے کئی خاندان پاکستان ہجرت کر گئے۔ ان کی مادری زبانیں دو ہو گئیں۔ آباء واجد اد کی زبان پشتو اور والدین کی زبان پنجابی /اردو۔
آج پاکستان میں کئی علاقائی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ جو کہ پسماندہ علاقوں میں اسکولوں میں بھی رائج ہیں۔ بول چال کی عام زبان اردو ہے۔ یہ انٹر تک لازمی مضمون کی حیثیت سے نصابی زبان ہے۔ اردو زبان کا ادب پیدا تو ہورہا ہے لیکن شاعروں ادیبوں کا کوئی پرُسان ِحال نہیں ہے۔ یہ کتابیں لکھتے ہیں چھپواتے ہیں اور پھر تحفتاً بانٹتے ہیں۔ e۔ books کی صورت میں بھی کتابیں پڑھی جاتی ہیں۔ کتب بینی کا رجحان تیزی سے کم ہورہا ہے۔ تعلیمی میدان میں ایسے انگلش میڈیم اسکولوں کا رجحان بڑھ رہا ہے جہاں اسکول میں انگریزی بولی جاتی ہے گھر پہ والدین بھی انگریزی بولتے ہیں۔ ان اسکولوں کے طالب علم اردو زبان سے تیزی سے نابلد ہوتے جارہے ہیں۔
مادری زبانوں کا عالمی دن 21 فروری کو منایا جاتا ہے۔
کسی بھی زبان کی ترویج کے لیے اس زبان میں بول چال لازمی ہے۔ کتابیں چھاپنے سے مادری زبانوں کو فروغ ملنا مشکل ہے ہاں اس زبان کے ادب میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ بچہ وہی زبان بولے گا جس میں اس کے والدین اس سے مخاطب ہوں گے۔
مادری زبانوں کی ترویج کے لیے انڈس فورم لوک ورثہ کے اشتراک سے ما دری زبانوں کا میلہ ہر سال اسلام آباد شکر پڑیاں میں سجاتا ہے جس میں مادری اور علاقائی زبانوں میں لکھی گئی کتب کے لکھاریوں کو مدعو کیا جاتا ہے۔ مادری زبان کی اہمیت کو اجاگر کیا جاتا ہے اس سال بھی 16 / 17 فروری کو یہ میلہ سجایا گیا جو کہ بہت اچھی بات ہے۔ اردو زبان کے ادب اور مادری زبانوں کی ترویج کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہماری ثقافت ہماری پہچان ہے اور ہماری آنے والی نسلوں کی امین بھی ہے۔ نئی نسل کا ان سرگرمیوں کا حصہ بنانا ازحد ضروری ہے۔ اسی میں ہماری زبان کی بقا ہے۔