فرمنگٹن یونیورسٹی کیس: روشن مستقبل کا سہانا خواب انڈین طلبا کو لے ڈوبا

امریکی امیگریشنتصویر کے کاپی رائٹ
GETTY IMAGES
Image captionامریکہ منتقل ہونا بہت سے انڈین طلبا کا خواب ہے

’میرے والدین پیشے سے کسان ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ میں امریکہ سے کیوں واپس آیا ہوں۔ اگر انھیں سچ معلوم ہو گیا تو ممکن ہے کہ وہ اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیں۔ وہ سوچ رہے ہیں کہ میں چھٹیاں گزارنے آیا ہوں‘۔

بی بی سی تیلگو کی دیپتی بھٹینی سے بات کرتے ہوئے یہ کہنا تھا ویریش کا (جن کا نام شناخت ظاہر نہ کرنے کی وجہ سے تبدیل کیا گیا ہے) جو ان طالبعلموں میں سے ایک ہیں جنھوں نے امریکہ کی اس جعلی یونیورسٹی میں داخلہ لیا جو امریکہ کے محکمۂ ہوم لینڈ کی جانب سے غیرقانونی امیگریشن کو بےنقاب کرنے کے لیے بنائی گئی تھی۔

یونیورسٹی آف فرمنگٹن کو جو کہ اشتہار کے مطابق امریکی ریاست مشیگن میں ہے، ہوم لینڈ ڈپارٹمنٹ کا ایک خفیہ ایجنٹ امیگریشن فراڈ کو بےنقاب کرنے کے لیے چلا رہا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

امریکہ میں انڈین طلبا کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ

امریکہ میں سب سے زیادہ پڑھے لکھے کون؟

امریکی حکام کے مطابق اس یونیورسٹی میں داخلہ لینے والوں کو اس بات کا علم تھا کہ یہ غیرقانونی ہے۔

امریکی امیگریشن اور کسٹم کی جانب سے مہیا کردہ اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ ہفتے چھ سو میں سے تقریباً 130 کو یونیورسٹی آف فرمنگٹن سے حراست میں لیا گیا جن میں سے 129 انڈین تھے۔

تاہم انڈین حکام کا دعویٰ ہے کہ یہ طلبا دھوکہ دہی کا شکار ہوئے ہیں۔

امریکی امیگریشن
Image captionامریکی حکومت کی جانب سے اب فرمنگٹن یونیورسٹی کی ویب سائٹ کو بند کر دیا گیا ہے

سنیچر کو انڈیا کی وزارتِ خارجہ نے دہلی میں امریکی سفارتخانے میں اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کرایا، جس کا مقصد گرفتاریوں پر اظہار تشویش اورحراست میں لیے گئے طلبہ تک قونصلر رسائی کا حصول ہے۔

ویریش ان طلبا میں سے ہیں جنھیں گرفتار نہیں کیا گیا۔ وہ چار فروری کو انڈیا واپس آگئے۔ اب وہ حیدرآباد میں ہیں جہاں سے انہوں نے بذریعہ فون بی بی سی تیلگو سے بات کی، وہ اپنی شناخت ظاہر کرنے کے لیے تیار نہیں۔

تیلنگانہ کے جنوبی ضلع میں رہنے والے 30 سالہ ویرش اپنے خاندان میں امریکہ جانے والے پہلے شخص ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے والدین سے جھوٹ بولا ہے کیونکہ وہ ان کو یہ سچ بتانے کی ہمت نہیں رکھتے کہ وہ کن حالات میں گھر واپس آئے ہیں۔

ان کے مطابق ’لیکن سچ یہ ہے کہ مجھ پر دس لاکھ روپے قرض ہے. یہ قرض میں نے اپنی ماسٹر ڈگری کے لیے لیا تھا اور اب نہ ماسٹرز کی ڈگری ہے اور مستقبل بھی غیریقینی ہے۔ ویریش کا کہنا ہے کہ میں درست سمت میں سوچ نہیں پا رہا کیونکہ مجھے آئندہ چھ ماہ میں قرض واپس کرنا ہے‘۔

ویریش نے 2013 میں حیدرآباد کے کالج سے انجیئنرنگ کی ڈگری حاصل کی تھی۔ دسمبر 2014 میں وہ کیلیفورنیا کی نارتھ ویسٹرن پولی ٹیکنک یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے امریکہ گئے۔

’میں امریکہ سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنا چاہتا تھا۔ میں اکلوتا بیٹا تھا۔ میرا تعلق ایک زرعی خاندان سے ہے۔ میں اپنے والدین کی دیکھ بھال کرنا چاہتا تھا۔ ہماری پاس زمین یا گھر نہیں ہے‘۔

ان کا کہنا ہے کہ ’میں کچھ عرصہ امریکہ میں رہ کر اچھا کمانا چاہتا تھا تاکہ اپنے والدین کے لیے انڈیا میں گھر بنا سکوں‘۔

سنہ 2016 میں نارتھ ویسٹرن پولی ٹیکنک یونیورسٹی نے سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی پروگرام کا اجازت نامہ کھو دیا۔ ویرش اپنی ماسٹرز ڈگری مکمل کرنے کے لیے کسی دوسرے کالج میں داخلے کی کوشش کر رے تھے۔ 

’میں بطور ایک کنٹریکٹر کام کر رہا تھا۔ مجھے ماہانہ تقریبا چار ہزار امریکی ڈالر ملتے تھے۔ میرے ماہانہ اخراجات تقریباً 1500 امریکی ڈالر تھے۔ مجھے میرے ایک دوست کے ذریعے یونیورسٹی آف فرمنگٹن کے بارے میں پتہ چلا جس نے پھر میرا داخلہ کروایا۔ میں نے اس لیے اس یونیورسٹی میں داخلہ لیا کیونکہ میرے پاس کوئی اور آپشن موجود نہیں تھا‘۔ 

ویریش نے بتایا کہ ملازمت جاری رکھنے اور ماسٹر کی ڈگری مکمل کرنے کے لئے انہیں کالج میں داخلہ لینا ضروری تھا۔ ان کے مطابق انھوں نے کلاسوں کے بارے میں بھی پوچھنے کے لیے کالج والوں سے رابطہ بھی کیا لیکن انھیں کوئی جواب نہیں ملا۔

امریکی امیگریشن
Image captionفرمنگٹن یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر پڑھائی کرتے طلبا کی سٹاک تصاویر استعمال کی جاتی تھیں

اسی دوران 2017 میں انھوں نے ایچ ون ویزے کی بھی درخواست دے دی۔ لاٹری سسٹم کے ذریعے ان کا انتخاب کیا گیا لیکن ان کی درخواست مزید دستاویزات کی وجہ سے التوا کا شکار رہی۔ 29 جنوری 2019 کو آن لائن چیک کرنے پر پتہ چلا کہ کہ انھیں ایچ ون ویزا نہیں دیا گیا۔ ویریش 30 جنوری کو گھر پر ہی تھے جب انھیں گرفتاریوں کی خبر ملی۔

ویریش کہتے ہیں کہ ’مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کس بات پر یقین کیا جائے۔ بہت زیادہ خوف تھا۔ ہمیں ایک دن بعد معلومات ملنا شروع ہوئیں۔ میں برباد ہو چکا تھا کیونکہ مجھے علم نہیں تھا کہ میرے مستقبل کا کیا بنے گا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ انھیں انڈیا واپسی کی ٹکٹ خریدنے کے لیے اپنے دوست سے پیسے ادھار لینا پڑے۔ 

’میں یکم فروری کے لیے انڈیا واپسی کی ٹکٹ لینا چاہتا تھا لیکن وہ سب فروخت ہو چکی تھیں۔ کیونکہ میں آخری وقت میں ٹکٹ بک کر رہا تھا جس کی وجہ سے قیمتیں زیادہ تھیں۔ لیکن آخر کار مجھے ٹکٹ مل گئی اور میں بہت ساری بے یقینی کے ساتھ گھر واپس آ گیا۔‘

ویریش نے اعلیٰ تعلیم کے لیے 15 لاکھ روپے قرض لیا تھا۔ انھوں نے نارتھ ویسٹرن پولی ٹیکنک یونیورسٹی (این پی یو) میں تقریباً 30 ہزار امریکی ڈالر جبکہ فرمنگٹن یونیورسٹی میں 20 ہزار امریکی ڈالر فیس بھری۔ 

’میں نے کسی طرح نو لاکھ روپے کا قرض ادا بھی کر دیا جبکہ چھ لاکھ روپے قرض اور اس پر چار لاکھ سود ابھی بھی باقی ہے۔ مجھے قرض کی باقی یہ رقم آئندہ چھ ماہ میں واپس کرنی ہے۔ مجھے نہیں پتہ کہ مجھے اب کیا کرنا چائیے۔ میں نوکری تلاش کر رہا ہوں اور امید کر رہا ہوں کہ میں جلد کامیاب ہو جاؤں گا‘۔

یہ بہت سی تیلگو فلموں کی کہانی ہے جہاں پر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے کم از کم اپنے ایک بچے کو ضرورامریکہ بھیجنا چاہتے ہیں۔ 

حیدرآبار کی سدھا رانی جن کا بیٹا اور بیٹی امریکہ میں ہیں کہتی ہیں کہ اپنے بچوں کو باہر بھیجنا سماجی رتبے کا معاملہ ہے۔ ’ہمیں بچوں کی تعلیم کے لیے قرض لینا پڑتے ہیں۔ تاہم یہ ان کے بہتر مستقبل کے لیے ہے‘۔

امریکہ کا یہ خواب صرف سماجی رتبہ ہی نہیں بلکہ ایک بہتر مستقبل بھی ہے۔ سدھا نے کہا کہ ’اس سے بہتر رشتے تلاش کرنے میں بھی مدد ملتی ہے‘۔

امریکی امیگریشنتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image caption2011 میں حیدرآباد کے طلبا نے کیلی فورنیا کی ٹرائی ویلی یونیورسٹی بند ہونے پر احتجاج کیا تھا

یہ ویریش کے امریکہ جلد از جلد واپس جانے کی شدید خواہش کی وضاحت بھی کرتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اپنا گھر بنانے کا خواب پورا کرنے اور اپنے والدین کی دیکھ بھال کے قابل بننے کے لیے میں کچھ برسوں کے لیے امریکہ جانا چاہتا ہوں۔ میں وہاں بسنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔‘ 

ویریش کا کہنا ہے کہ وہ آئندہ برس امریکہ جانے کے لیے معلومات حاصل کر رہے ہیں۔

امریکی تلنگانہ ایسوسی ایشن کے ڈائریکٹر وینکت منتینا نے جو کہ امریکہ میں زیر حراست طلبا کی مدد کر رہے ہیں، ڈیٹرائٹ سے بی بی سی تیلگو سے فون پر بات کی۔ انھوں نے بتایا کہ ایسوسی ایشن نے گرفتار طلبہ کی قانونی مشاورت کے لیے وکلا کی خدمات حاصل کی ہیں۔

ان کے مطابق زیرِ حراست طلبہ میں سے زیادہ تر تیلگو بولتے ہیں جن کا تعلق جنوبی ریاست تلنگانہ اور آندھراپردیش سے ہے۔

انھوں نے وضاحت کی کہ زیادہ تر طلبہ نے اسے سی پی ٹی ٹریننگ ڈے ون حاصل کرنے کے لیے اس یونیورسٹی میں داخلے کو ایک طریقے کے طور پر استعمال کیا۔ سی پی ٹی ٹریننگ ڈے ون طلبا کو کچھ کالجز میں داخلے کے پہلے روز سے ہی کام کرنے کی اجازت دیتی ہے۔

وینکت منتینا نے واضح کیا کہ تاہم نو اگست 2018 کے میمو میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ ایک ہی لیول کی ڈگری میں داخلہ لینے سے ڈے ون سی پی ٹی کے لیے کوالیفائی نہیں کیا جا سکتا جس کا مطلب ہے کہ اگر ایک طالب علم ماسٹرز کی دوسری ڈگری می داخلہ لیتا ہے تو وہ ڈی ون سی پی ٹی کا اہل نہیں ہو سکتا جو کہ اس کیس میں تقریباً 99 فیصد طلبا نے کیا۔ 

امریکی امیگریشنتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionحیدرآباد کا چلکر مندر ویزے کے لئے منتیں مانگنے کے لئے مشہور ہے

اس کے بعد امریکی کسٹمز کی جانب سے انھیں ملک چھوڑنے کے لیے تقریباً 180 دن دیے جاتے ہیں اور ملک نہ چھوڑنے کی صورت میں ان کے امریکہ دوبارہ داخلے پر تین سال کی پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔

منتینا نے بتایا کہ 600 میں سے تقریباً 180 طلبہ کو حراست میں لیا گیا ہے۔ ان میں سے آٹھ کے علاوہ باقی سب کو امیگریشن فراڈ کے الزامات کا سامنا ہے تاہم آٹھ کو بھرتیوں کے الزام میں فوجداری مقدمات کا بھی سامنا ہے۔ ان آٹھ افراد نے مشیگن کی وفاقی عدالت میں صحتِ جرم سے انکار کیا ہے۔ 

ان میں لوئیول میں رہنے والے 35 سالہ پھانی دیپ کرناتی کو جن کے پاس ایچ ون بی ویزہ ہے، پیر کو دس ہزار امریکی ڈالر کے مچلکے جمع کرانے پر رہا کر دیا گیا ہے۔

باقی سات نے مشیگن کی اس عدالت میں جج کے روبرو حراست جاری رکھنے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے جہاں انھیں پھانی دیپ کرناتی کے ساتھ پیش کیا گیا تھا۔

وینکت کے مطابق امیگریشن فراڈ کا سامنا کرنے والے طلبہ اٹارنی یا کسی قانون دان کی مدد حاصل کرتے ہوئے متعلقہ جج کو ضمانتی مچلکے یا اپنی مرضی سے واپس جانے کی درخواست دائر کر سکتے ہیں جس کے بعد ان کے کیس کو پانچ، دس، پندرہ یا بیس دنوں میں سنا جا سکتا ہے۔ 

’ایک بہت اچھا موقع مل سکتا ہے اگر ان کی ضمانتی مچلکوں کی درخواست اور اپنی مرضی سے واپس جانے کی درخواست ایک ہی دن سنی جائے اور ممکن ہے کہ ان لوگوں کو دونوں سزائیں ایک ہی دن مل جائیں اور وہ آزاد ہو جائیں‘۔