ٹرمپ انتظامیہ نے ٹیکنالوجی کے شعبے میں کام کرنے والے ہنر مند افراد کے لیے اپنے ویزا پروگرام ایچ ون بی میں کچھ ایسی تبدیلیاں کی ہیں جس سے امریکی یونیورسٹیوں سے ماسٹر ڈگری رکھنے والے غیر ملکیوں کے ویزا کا حصول قدرے آسان ہو جائے گا۔
امریکہ میں ہنرمند افراد کی بڑھتی ہوئی مانگ کے باوجود سلیکون ویلی کی جانب سے امریکی حکومت کے اس فیصلے کی صرف محتاط انداز میں پذیرائی کی گئی ہے۔
امریکہ میں ہوم لینڈ سیکیورٹی کی جانب سے جنوری کے مہینے میں شائع کردہ حتمی قواعد کے مطابق اب سے ایچ ون بی ویزا پروگرام میں ان غیر ملکی شہریوں کو ترجیح دی جائے گی جنھوں نے امریکی یونیورسٹیوں سے ماسٹر ڈگری حاصل کی ہو۔
ایچ ون بی ویزا پروگرام کے ذریعے تقریباً 85 ہزار غیر ملکی افراد کو ہر سال ویزا ملتا ہے۔
30 جنوری کو ویزا پالیسی میں تبدیلی کا اعلان کرتے ہوئے امریکی سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز کی ڈائریکٹر فرینسیس سیسنا کا کہنا تھا کہ ’نئِے قوانین کے تحت امریکہ سے ماسٹرز یا اس سے اعلیٰ سطح کی ڈگریاں حاصل کرنے والے غیر ملکی افراد کو ملازم رکھنے کی خواہش مند امریکی کمپنیوں کے لیے ان افراد کے لیے ایچ ون بی لاٹری کے تحت ویزا حاصل کرنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔‘
یہ تبدیلیاں ان حالت میں کی گئیں ہیں جب ٹیکنالوجی کمپنیاں اپنے ہاں اہم آسامیوں کو بھرنے کے لیے ہنرمند اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو زیادہ امیگریشن دینے پر زور دے رہیں تھیں اور یہ شکایت بھی سامنے آ رہی تھی کہ بڑی بڑی کمپنیاں اس پروگرام کا ناجائزہ فائدہ اٹھاتے ہوئے بیرونی ممالک میں لوگوں کو ملازمتیں دے رہی ہیں جس سے امریکی ملازمین میں بے روزگاری بڑھ رہی تھی اور اجرتیں بھی کم رکھنے میں مدد مل رہی تھی۔
وقت کی ضرورت؟
دو دہائیوں سے اس ویزا پروگرام کے معاشرے اور معیشت پر اثرات کا تجزیہ کرنے والی ہارورڈ یونیورسٹی میں سیاسیات کی ماہر ران حرا کا کہنا تھا کہ چند بڑی کمپنیوں اور آؤٹ سورسنگ فرمز نے اس پروگرام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے امریکہ میں اجرتوں کو کم رکھنے اور بعض صورتوں میں امریکی شہریوں کو ملازمتوں سے محروم رکھنے کے لیے بھی استعمال کیا ہے۔
حرا کا کہنا تھا کہ افرادی قوت کی جن شعبوں میں سب سے زیادہ ضرورت تھی ان میں ویزا نہیں دیا گیا اور جن کو ایچ ون بی ویزا ملنا چاہیے تھا وہ کسی 'آوٹ سورس' کرنے والے کی وجہ کہیں اور کام کر رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ تازہ اصلاحات سے بہتر افرادی قوت کے حصول میں مدد ملے گی لیکن اس سے ابھی بھی بہترین اور ذہین ترین افراد کو منتخب نہیں کر پائیں گے اس کو اور بہتر بنایا جا سکتا تھا۔
درست سمت میں قدم
امیگریشن میں اصلاحات کے حامی گروہ ایف ڈبلیو ڈی کے ٹوڈ شلز کا ان تبدیلیوں کے بارے میں کہنا تھا کہ مجموعی طور پر یہ درست سمت میں مثبت قدم ہے۔
ایف ڈبلیو ڈی کو فیس بک کے بانی مارک ذکربرگ اور مائکروسوفٹ کے بانی بل گیٹس کی بھی حمایت حاصل ہے۔
کئی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کی ایسوسی ایشن کے نمائندے ایڈ بلیک نے کہا کہ ہے کہ اس پروگرام کو جس انداز میں چلایا جانا چاہیے تھا اس انداز میں چلایا نہیں گیا۔
بلیک نے مزید کہا کہ انھیں امید ہے کہ نئی اعلان کردہ تبدیلیوں سے کارکردگی بہتر ہو گی لیکن اس کے نتائج کے بارے میں کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہو گا۔
ایج ون بی ویزا کا پروگرام سنہ انیس سو نوے کی دہائی سے نافذ العمل ہے اور اس کا اطلاق مختلف شعبوں کے ہنر مند افراد کے لیے ہوتا رہا ہے جن میں نرسوں سے لے کر ماہر باورچیوں کے لیے بھی ہوتا ہے لیکن حالیہ برسوں میں اس کے تحت ویزا حاصل کرنے والوں میں دو تہائی کا تعلق کمپیوٹر سے متعلق نوکریوں میں تھا جن میں سے تین چوتھائی صرف انڈیا سے تعلق رکھتے تھے۔
یہ ویزا رکھنے والے چھ سال تک امریکہ میں قیام کر سکتے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق اس وقت ایسے لوگوں کی تعداد پانچ لاکھ کے قریب ہے۔
حرا نے کہا کہ یہ نظام انتہائی مایوس کن تھا کیونکہ بڑی آوٹ سورسنگ کمپنیوں اور سلیکون ویلی کی چند بڑی کمپنیوں نے اجرتوں کو کم رکھنے کے لیے ہزاروں لوگوں کی درخواستوں سے نظام کو بھر دیا تھا۔
امریکی محمکۂ لیبر کو موصول ہونے والی ایک شکایت میں کہا گیا کہ اوریکل جیسی کمپنی نے امریکی شہروں کے ساتھ تفریق کرتے ہوئے ایچ ون بی ویزا کے تحت بہت سے لوگوں کو ملازمتیں دیں اور جن کو انھیں کم اجرتیں ادا کرنی پڑیں۔
نئے قانون کے تحت ایچ ون بی ویزا کی دو لاٹریوں کا نظام بدل دیا گیا ہے اور اب پہلے پینسٹھ ہزار افراد کو درخواست دہندگان میں سے منتخب کیا جائے گا اور اس کے بعد بیس ہزار افراد کا چناؤ اعلی ڈگریوں کے حامل افراد میں سے کیا جائے گا۔
حکام کو توقع ہے کہ یوں اعلی ڈگریوں کے حامل افراد کی تعداد میں پانچ ہزار یا سولہ فیصد کا اضافہ ہو گا۔
حرا کا کہنا ہے کہ اس سے ویزا حاصل کرنے والوں کا تناسب بدل جائے گا اور اس میں اعلی ہنرمند اور زیادہ آمدن والے افراد کی تعداد بڑھ جائے گی۔
’مناسب سمجھوتہ‘
ہارورڈ یونیورسٹی میں فیوچر آف ورک کی کاوش کے سربراہ ویلیم کیر نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ایچ ون بی میں تبدیلیوں کے باعث اعلی ہنر مند کارکنوں کو ترجیح دی جائے گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ’ایک ایسا نظام جس میں بڑی اصلاحات کی گنجائش ہے وہاں یہ ایک معمولی تبدیلی ہے مگر اس کے باوجود میں اس کا حامی ہوں۔‘
'انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ انوویشن فاؤنڈیشن' اس شعبے پر تحقیق کرنے والا ایک 'تھنک ٹینک' ہے۔ اس کے صدر رابرٹ ایٹکنسن نے کہا کہ ان تبدیلیوں کو ٹرمپ انتظامیہ کی تقاریر کے تناظر میں دیکھنا چاہیے، جن میں وہ غیر ملکیوں کو روکنے اور زیادہ امریکیوں کو نوکریاں دینے کی بات کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ 'لوگ اس پروگرام کو بند کرنے اور کمپنیوں کے لیے ان (ویزا رکھنے والوں) کا استعمال مشکل کرنے کی باتیں کر رہے تھے تو اس سے بتر بھی ہو سکتا تھا۔'
رابرٹ ایکٹکنسن نے کہا کہ اصلاحات ایک 'مناسب سمجھوتہ' ہے۔
انھوں نے کہا یہ تبدیلی 'ان غیر ملکی شہریوں کے لیے ایک اچھا پیغام ہے جو امریکی یونیورسٹیاں چھوڑ رہےتھے اور ٹرمپ کیا کرے گا اس حوالے سے غیریقینی کا شکار تھے۔'