ریڈ برڈز، دکھ کا منظر نامہ

آمنہ مفتی

ہماری امی جو ناول پڑھا کرتی تھیں ان میں اکثر ہیرو یا ہیروئین کو دق کا مرض ہوتا تھا۔ موصوف یا موصوفہ، شروع شروع تو اس بیماری کے ہاتھوں بہت پریشان ہوتے تھے لیکن پھر جیسے اس مرض سے سمجھوتہ سا کر لیتے تھے۔ تب شروع ہوتا تھا ناول کا رومانس۔ سینی ٹوریم کی لمبی ویران راہداریوں میں پچھمی ہوا سے سفید حریری پردے لہراتے تھے۔ کارنس پہ رکھی بی بی مریم کی شبیہہ کے نیچے، لمبی لمبی کافوری شمعوں کی لو تھرتھراتی تھی اور بال روم کے گرینڈ پیانو پہ، دق زدہ ہیرو، دائمی بخار کی نیم ہذیانی کیفیت میں ایسے حزنیہ گیت گاتا تھا کہ کلیجہ منہ کو آتا تھا۔

ان ناولوں کا انجام ہمیشہ المیہ ہوتا تھا۔ دق کے مرض سے تب کون بچتا تھا؟ سنتے تھے کہ یہ مرض جوانوں کو ہی لاحق ہوتا تھا۔ جب لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع کیا تو آہستہ آہستہ اندازہ ہوا کہ ناول نگاری، خالہ جی کا واڑا نہیں یہ تو دق کا موذی مرض ہے۔ جوانوں کی جان کو لگتا ہے اور دائمی بخار کی صورت ہڈیوں میں سرائیت کرجاتا ہے۔ ناول لکھنے والا، اس مرض کے ساتھ ہی جیتا ہے اور اس کا انجام کبھی طربیہ نہیں ہوتا۔

محمد حنیف، ہمارے ہم عصر ہیں۔ پہلا ناول لکھنے کے بعد ان کے تائب ہو نے کے بہت ساز گار حالات تھے۔ ناول بہت معروف ہوا، بورا بھر کے رائلٹی ملی۔ اب اگر سیانے ہوتے تو پرنٹنگ پریس کھولتے، زیادہ سیانے ہوتے تو ڈیفینس یا بحریہ ٹاؤن میں پلاٹ لے کر پراپرٹی کا بزنس کرتے۔ ادبی محفلوں میں جاتے، باقی وقت، دفتر کی جھولنے والی کرسی پہ، منہ پہ اخبار ڈالے دن میں خواب دیکھا کرتے، چاہے نہ بھی دیکھتے، فقط اونگھتے رہتے۔ سیانے ہوتے تو دوسرا ناول کبھی نہ لکھتے۔

دوسرا ناول لکھنے کے بعد بھی وقت تھا، ادبی میلوں میں سپیچیں دیتے اور ٹی وی پہ تجزیہ نگاری کرتے۔ باقی وقت ٹوئٹر اور فیس بک پہ دانشوری بگھارتے۔ تیسرا ناول نہ لکھتے لیکن مشیت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ناول نگاری کا مرض، دق کے دائمی بخار کی صورت ہڈیوں میں اتر چکا تھا اور اب لکھنے اور لکھتے رہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔

ریڈ برڈز، لکھا جاتا رہا۔ چھہ سال کی تنہائی، تکلیف۔ ایک پورے عہد کا اکلاپا اور ایک زمانے کے لاپتہ لوگوں کا نوحہ۔ ناول کا لوکیل، تنہائی ہے۔ جدید انسان کی ازلی و ابدی تنہائی۔ صحرا، جہاں ریت ہے، جہاں بکر وال ہیں اور ان کی جنگلی تہذیب اور اس تہذیب سے خائف، اسے تباہ کرنے کے درپے ایک امریکی پائلٹ جو کہانی شروع ہونے سے پہلے مر چکا تھا۔

میجر ایلی کا جنگی جہاز ایک صحرا میں گرتا ہے اور وہ اپنے جیسے انسانوں کی تلاش میں نکلتا ہے۔ مگر اس صحرا میں اس جیسے انسان نہیں۔ وہاں وہ انسان ہیں جن سے شہروں میں رہنے کا حق چھین لیا گیا ہے۔ جن کی معیشت، جنگ کے بعد کی معیشت ہے۔ جس کی بنیاد، چوری اور بے ایمانی پہ رکھی گئی ہے۔

جہاں، ماں اور باپ کے پاس اپنی اولاد کو دینے کے لئے تربیت، محبت اور نظریات نہیں۔ بلکہ، سمجھوتے اور انتقام ہیں۔ اس کیمپ میں رہنے والے ایک خالی ہینگر کے طلسم میں جی رہے ہیں۔ جہاں اب کوئی ذی روح نہیں رہتا لیکن سب کو محسوس ہوتا ہے کہ وہاں کچھ لوگ رہتے ہیں۔

مومو، جو ناول میں ایک سوالیہ نشان کی طرح بانہیں پھیلائے کھڑا ہے۔ اپنی جگہ ایک علامت ہے۔ ینگ مسلم مائنڈ کی علامت۔ وہ نسل جو کیمپوں میں پیدا ہوئی، جس نے شہر اور تہذیبیں نہیں دیکھیں۔ ایک ظالم مگر مظلوم نسل۔ جس کے پاس سوائے انتقام اور بقا کے، کوئی جذبہ باقی نہیں۔ انتقام، اپنے کھوئے ہووں کی جستجو اور پھر سے بس جانے کی خواہش۔ اس خواہش میں اس کے ساتھ اس کا کتا بھی شریک ہے۔

کتوں کی زندگی، چونکہ انسانوں کی نسبت زیادہ آسان ہوتی ہے اس لئے، ”مٹ“ کیمپ کے سب لوگوں سے زیادہ شانت ہے۔ میجر ایلی مردہ ہے، اس بات کا پتا بھی مٹ ہی کو چلتا ہے۔ یہ راہب صفت کتا، اصحابِ کہف کے کتے کی طرح ان لوگوں کے ساتھ ہے جو اپنے وقت کے دقیانوس سے چھپ کر اس کیمپ میں سو رہے ہیں۔

ناول میں ایک دق زدہ اداسی ہے۔ ہر شے ادھوری ہے۔ کھانے میں نمک نہیں، کنبوں میں افراد پورے نہیں، کیمپ کے گرد دیوار نہیں، ہینگر میں جہاز نہیں اور افق پہ لال پرندے ہیں۔ مر جانے والوں کی روحیں۔ وہ سب جو، کمیونزم اور کیپٹل ازم کی اس جنگ میں بے وجہ مارے گئے اور مسلسل مارے جا رہے ہیں۔ مگر کیا یہ واقعی کوئی جنگ ہے بھی یا وہم ہے؟ مر جانے کے بعد، سب لال پرندے کیوں بن جاتے ہیں؟ کیا یہ پرندے انقلاب کے نقیب ہیں؟ کیا پھر کوئی انقلاب آ نے کو ہے؟

میں ناول کی کہانی بیان نہیں کروں گی۔ بیان کر بھی نہیں سکتی۔ جس نے پڑھنا ہے اپنی ذمہ داری پہ پڑھے اور یہ سوچ کے پڑھے کہ ضروری نہیں ہر طنز لکھنے والا مزاح بھی لکھ رہا ہو۔ بعض اوقات، طنز لکھنے والا، حزن لکھ جاتا ہے۔ ایک ایسی اداسی جو اندر تک کاٹتی چلی جاتی ہے۔ مر جانے والوں کی اداسی، پیچھے رہ جانے والوں کی اداسی۔ مر کے بھی چین نہ پانے والوں کی اداسی۔

ناول کی ’مدر ڈئیر‘ یعنی امی جان، لال بالوں والی ایک ماں۔ بالکل ویسی ماں، جیسی آپ کی اور میری ماں ہوتی ہے اور جیسی مائیں کچھ عرصے تک ہم بھی بن جائیں گے۔ اپنی روایات میں قید، سمجھدار عورتیں، جو جان بوجھ کے احمق اور کمزور بنی رہتی ہیں۔ جن کے کلیجے پہ ہر وقت نمک کے بنے ایک خنجر کی نوک چبھتی رہتی ہے۔ کبھی بھی خود کو اچھی ماں نہیں سمجھتیں۔ اپنے خواب اگلی نسل کو دینے کا احساسِ جرم انہیں ہر وقت کھائے جاتا ہے۔ بھول ہی جاتی ہیں کہ وہ عورت ہیں۔ بس اتنا یاد رہتا ہے کہ وہ کسی کی بیوی ہیں اور سر ڈھانکتے ڈھانکتے بدن ڈھانکنا بھول جاتی ہیں۔

ناول کی گل بدن، کیمپوں اور این جی او ز کی دنیا کی عورت ہے۔ تنہا، اکیلی، خودمختار، نیلاہٹ مائل سیاہ بال اور اوپری ہونٹ پہ ایک تل۔ ایک ان تھک عورت جو اکیلے چھٹیاں منانے، اجنبی ملکوں میں جاتی ہے، آرگینک نشہ کرتی ہے، دور دراز کیمپوں میں ینگ مسلم مائنڈ پڑھنے جاتی اور ینگ مسلم مائنڈ اس کے ساتھ سونے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ دنیا بدل کے بھی کچھ نہیں بدلی۔ جذبے تو وہی ازلی اور ابدی جذبے ہیں۔

ناول کے آخر تک، زندہ اور مردہ کی تفریق مٹ جاتی ہے۔ ناول تاریخ کا ایک ایسا باب بن جاتا ہے جو کوتاہ بین انسانوں کو کچھ سکھانا چاہتا ہے مگر وہ مصر ہیں کہ اس ناول میں سے کچھ تفریح کشید کر لیں۔

تفریح کشید کرنے والوں کے لئے تفریح بھی ہے مگر یہ کہانی ان لال پرندوں کی کہانی ہے جو جنگ کی سیاہ دیوی کے بطن سے پیدا ہوتے ہیں اور جگہ جگہ گھونسلے بنا کے ایسے انڈے دیتے ہیں جن سے لال پرندے ہی نکلتے ہیں امن کی سبز پری نہیں۔