زندگی میں انسان انسانوں کی تلاش میں رہتا ہے، مگر جب مل جائیں تو چھوڑنا مقدر ہے۔ حالات بنائے نہیں تھے بن گئے تھے، بنا دیے گئے تھے۔ میں تو ان سے ملنا چاہتی تھی۔ مگر ادھر تو ؛ ان کو تو فرصت کا لمحہ بھر نہیں ملا۔ خیر جن کو ملنا ہوتا ہے وہ مل جاتے ہیں۔ واشنگٹن ڈیلس ایرپورٹ سے اللصبح میری فلائٹ تھی۔ کراچی، لاہور، ساہیوال اور کہاں کہاں سے بلاوے آگئے تھے۔ کانفرنسیں، لیکچرز اور مشاعرے تو نبھانے تھے مگر اصل وجہ تسمیہ تو اس کو معلوم تھی۔
وہ کہاں کہاں سے لوگ ملا دیتا ہے۔ ڈاکٹر عبداللہ کا تعلق انڈیا سے ہے مگر جنگ ہماری زبان کو زندہ رکھنے کی کرتے ہیں۔ ہم بولنا پسند نہیں کرتے اور وہ اس کو پیٹ کروڑی کی طرح سینے سے لگا کر دنیا میں اس کے جشن سجا کر اپنائیت کا ثبوت دے رہے ہیں۔ تب ہی تو وہ اور ان کے ساتھی گزشتہ 44 برسوں سے امریکہ کے شہر شہر میں علی گڑھ ایلومینائی کے تحت مشاعروں کا سلسلہ منعقد کرتے ہیں۔ میری لینڈ، ورجینیا اور واشنگٹن یعنی DMV میں ہونے والے ان کے دو مشاعرے تو ضرور ہوتے ہیں ایک قیام پاک و بھارت کے یوم کے حوالے سے اگست کے وسط میں قوی سمیلن مشاعرہ اور دوسرا موسم سرما کے آغاز میں جب چیری بلاسم کے درختوں کے خوب صورت رنگوں کے پیرہن پہنے ہوتے ہیں۔
اب ذکر ان کا جو صدر محفل کے ساتھ ساتھ محفل جاں بھی بنے اور مشاعرہ لوٹ کر لے گئے ”خوشبیر سنگھ شاد“ بھارت سے تشریف لائے اور اپنی حساس اور انسان دوست طبیعت کی وجہ سے چند گھنٹوں میں ہی لوگ ان کے گن گانے لگے۔ کراچی میں اس ہی سال عالمی مشاعرے کے دوران ان سے میری پہلی ملاقات ہوئی۔ بس پھر تو وہ جس جس نگری گھومے ہمیں یاد کرتے رہے۔
اور اہل علم ودانش کو ایک باوقار طور پر معاشرے میں مقام دلوایا۔ شہر لکھنؤ میں اس کشور پریس سے وہ کون سا موضوع تھا جو چھپنے سے محروم رہا۔ آج جب عالمگیریت کی فضا میں اردو زبان سے متعلق جو معاشرے، تہذیبیں اور علوم ڈوبتے نظر آرہے تھے، سنجیو صراف ان کو ریختہ کی چادر میں ڈال کر اس گلوبل ولیج میں پہنچا رہے ہیں۔
آج کی اس بدلتی دنیا میں اپنی ثقافت، تہذیب اور زبان کو ایک عالمی منظر نامے پر لانے کے لئے ویب اور نیٹ کی مدد سے داغ دہلوی کے ان الفاظ ”سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے“ کو سنجیو صراف نے سچ کر دکھایا۔ ای کتابیں، جشن ریختہ اور اردو کے حوالے سے فن اور فنکار کا نام زندہ رکھنے کا بہت بڑا بیڑا اس نرم لحجے اور مضبوط ارادوں سے طرز کہن کی مانند اردو زبان جس کا سفر ہندی، ہندوی، دکنی، ریختہ، اور ہندوستانی سے ہوتا ہوا آگے بڑھ کر اردو بنا!
بھرپور تالیوں میں ہمارے ساتھ بیٹھے سنجیو جب اسٹیج پر آئے تو ان کی آنکھیں تشکر سے بھر آئیں اورمنہ سے صرف چند لفظ محبت کے ہی نکلے۔ مزے کی بات یہ تھی کہ انہوں نے اکثر ریختہ کی فیملی کے ممبرز کو پہچان لیا۔ تب ہی تو مجھے بھی ملتے بولے ”بینا جی آپ ہمارے لئے بھیجتی رہا کریں۔ “ بوستان خیال اور فسانہء آزاد سے لے کر آج تک کے ادب کے فن پاروں کو دنیا کے سامنے لانے والے کو سب لوگوں نے ہال میں کھڑے ہو کر خراج تحسین پیش کیا۔ ان کی بیٹی جو نیو یارک میں زیرتعلیم ہے وہ بھی ان کا اس میں بھر پور ساتھ دے رہی ہیں۔
تقریب کے اختتام کے بعد ڈنر اور رات کے سائے گہرے ہو رہے تھے مگر میں نے تو وہیں سے پاکستان کی پرواز کے لئے وہیں سے ایرپورٹ جانا تھا۔ تقریباً چودہ گھنٹے فضا میں رہنے کے بعد دبئی انٹرنیشنل ائرپورٹ پر جہازلینڈ ہو گیا مگر میں تو محب اردو کے حصار میں تھی۔ بارہ گھنٹے کے لئے ائرپورٹ پر ہی ائرلائن نے ہوٹل دیا۔ چند گھنٹے آرام کے بعد سوچا کہ اب ایرپورٹ پر گھوما جائے، اب تو ساری دنیا ایک ہی جیسی دکھنے لگی ہے، وہی ڈیزانرز شاپس بس شکلیں انسانوں کی کچھ بدلی بدلی لگتی ہیں۔
ابھی کہیں آگے بڑھتی تو بیچ بازار میں لگی دوکان جو ”میک“ میک اپ برانڈ ہے میں موجود نوجوان دو حسیناؤں نے مجھے گھیر لیا اور فری میک آپ ٹرائی کرنے کی آفر کرنے لگیں۔ ان ہی میں ایک جاپانی شکل و صورت والی لڑکی کی بار بار مسکراہٹ نے تو مجھے اس قدر اپنے دائرہ محبت میں لے لیا کہ آفر کو رد نہ کر پائی۔ بس اب تو میں نے اپنے آپ کو اس جاپانی لڑکی کے سپرد کر دیا۔ اس سے پہلے وہ کوئی پروڈکٹ بیچتی میں نے اس سے بات چیت شروع کر دی۔
اب وہ میرے چہرے پر کیا رنگ و روغن کرتی اس نے تو میرے دل کو ہلا کر رکھ دیا کہ آج کی ترقی یافتہ عورت کس طرح اپنی آزادی کی بولی لگا کر کام کر رہی ہے۔ اس سوال کا جواب آج کی عورت کے پاس نہیں ؛
اب وقت سیکورٹی کلیئرنس کا آن پڑا اور پاکستان جانے والے تمام مسافر ایک لاوئج میں اکٹھے ہو چکے تھے۔ ایک بہت بڑا ٹولہ جس میں ہر عمر کے لوگ شامل تھے وہ شوروغل کرتا ہوا آن دھمکا۔ یہ سب لوگ عمرہ کی سعادت کر کے واپس آئے تھے۔ گاؤں کے اس قافلے میں بچے بڑے، لڑکی اور لڑکیاں تو شامل تھیں مگر ایک خاتون جن کی عمر اسی برس کے لگ بھگ تھی وہ سر پر ایک بھاری بھرکم گٹھڑی اٹھا کر ادھر سے ادھر گھوم رہیں تھیں۔ میں نے سوچا دیکھو یہ ان کی نانی یا دادی ہیں اور ان نوجوانوں میں سے کوئی بھی ان کی مدد نہیں کر رہا۔
میں نے بڑھ کر کہا ”اماں جی تسی اے سر توں لا دو تے ایتھے آکے بے جاؤ“ وہ بیٹھنے پر راضی ہو گئیں مگر سر کی گٹھڑی کو اتارنے کو راضی نہ تھیں۔ وہ بولیں ”پت اے سارے کپڑے لتے آب زم زم وچ پاک کر کے لے کہ آندے نیں، اے سچے سودے نوں اوچا ہی رکھنا اے“۔ میرا ذہن سنجیو سے کلپنا اور پھر اس اماں جی کے سچے سودوں کا بھاؤ کیا لگاتا! بس بورڈنگ شروع ہو چکی تھی اور میرے آگے تیقن سے سرشار ”میک گرل“ سر پر گٹھڑی اٹھائے جہاز میں داخل ہو رہی تھی۔