یہ دنیا عورتوں کی ہے، ایک مظلوم مرد کی بپتا

ماہ وش عدیل کرمانی
میں آج صبح اٹھا تو جسم درد سے ٹوٹ رہا تھا، شدت سے خواہش اٹھی کہ آج آفس نہ جاؤں لیکن کیسے نہ جاتا آفس میرے ابا جان کا تو تھا نہیں، غیروں کا تھا اور یہاں تو ابھی اپنوں کی خدمت کرنی تھی تو باہر والوں کی بے حسی پر کیا روتا۔ اپنی قسمت کو کوستا بستر سے نکلا، انڈے ابلنے رکھے اور نہانے دھونے باتھ روم میں گھس گیا۔ واپس آ کر بچوں کو اٹھایا، گو کہ ہر باپ کی طرح میں بھی اپنے بچوں سے بہت پیار کرتا ہوں لیکن یہی بچے جب رات کو سونے سے پہلے میری پِدّی نکلواتے اور صبح اٹھنے میں کسلمندی کا بھرپور مظاہرہ کرتے تو کبھی کبھی مجھے بے تحاشا غصہ آتا ہے لیکن یہ سوچ کر کہ باقی گھر والے کہیں گے کہ اپنے پیدا کردہ ہی نہیں سنبھالے جا رہے، میں زبردستی کی مسکراہٹ لیے بچوں کو دلار کرتا واش روم لے جاتا ہوں۔
بڑی بیٹی تو اب پانچ سال کی ہوگئی ہے لیکن چھوٹا بیٹا تین سال کا ہے اور حال ہی میں اسے اسکول میں داخل کروایا ہے جس کے بعد تو مجھے ایسے ایسے طعنے سننے کو ملے ہیں کہ مجھے خود سے شرمندگی ہورہی ہے۔ آخر کیا ضرورت ہے اتنی جلدی اسے اسکول بھیجنے کی؟ ابھی سے پی۔ ایچ۔ ڈی کرلے گا یہ؟ بس اپنی جان چھڑوانے کے بہانے ہیں سارے۔ ورنہ کون سے بزنس چلانے ہیں اس نے بڑے ہو کر؟ تمہاری طرح گھر ہی تو دیکھنا ہے وغیرہ وغیرہ۔
خیر اس طرح کی باتوں کی تو اب عادت ڈالنی ہوگی ورنہ اس بے درد معاشرے میں مرد کا جینا کتنا مشکل ہے یہ تو سب ہی جانتے ہیں۔
بچوں کو اسکول کے لیے تیار کیا، ناشتہ کروایا۔ ابھی جلدی جلدی ان کا لنچ باکس بیگ میں ٹھونس ہی رہا تھا کہ وین دروازے پر آن کھڑی ہوئی۔ بچوں کو روانہ کیا جلدی سے واپس آ کر بیگم کو اٹھایا ان کا بھی خوب ہے اگر ایک دو بار کندھا ہلانے پر ان کی آنکھ نہ کھلے اور اٹھنے میں دیر ہو جائے تو بھی نزلہ مجھ پر ہی گرتا ہے کہ میری وجہ سے محترمہ کو آفس جانے میں دیر ہوگئی۔ اور اگر ذرا زور سے کندھا پکڑ کر اٹھانا چاہو تو ویسے ہی ملکہ کا موڈ خراب ہو جاتا ہے کہ یہ کیا طریقہ ہے نیند سے جگانے کا، نِرا جانوروں والا سلوک۔ اب بتاؤ بندہ کہاں جائے؟
جلدی جلدی بیگم کا اور اپنا ناشتہ بنایا ٹیبل پر رکھا ہی تھا کہ ابو کی آواز آئی ”بیٹا کھچڑی بنا دو پیٹ میں درد ہے“
سامنے بیٹھی بیگم تو اپنی دنیا میں مگن موبائل اسکرین پر نظریں جمائے اپنی ای میل چیک کرنے میں مصروف تھیں۔ حالانکہ ابّا ان کے سگے تھے مجھ پر سسر کی خدمت فرض بھی نہیں تھی۔ لیکن یہی ریت تھی جس میں ہم مرد صدیوں سے پستے آئے ہیں اور نہ جانے کب تک ایسے ہی پستے رہیں گے۔ ہاں پِستے سے یاد آیا ابھی سسر صاحب کو بادام پستے کا سفوف بھی دودھ میں ڈال کر دینا ہے بس ذرا یہ ٹھنڈی چائے زہر مار کر لوں، حرام ہے جو شادی کے بعد کبھی سکون سے گرم چائے کے بھاپ اڑاتے کپ سے چسکیاں لینے والی عیاشی نصیب ہوئی ہو۔ گھر، بیگم، بچے اور سسر۔ ان سب میں اپنی زندگی کا کاروانِ سخت جان آگے بڑھاتے ہوئے غیر متشکر زندگی گزارنا کوئی آسان کام نہیں۔
ویسے تو میری بیگم کو زمانے کے داؤ پیچ خوب سمجھ آتے ہیں لیکن آج تک اسے یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ جس طرح آفس میں اس کی محنت کے بدلے پروموشن نہ ملنے پر اس کا کام سے دل اچاٹ ہو جاتا ہے اسی طرح میرا بھی ان بورنگ گھریلو ذمہ داریوں سے، خاطر خواہ ستائش نہ ملنے پر، دل جمعی سے کام کرنے میں کوئی انٹرسٹ نہیں ہے۔ لیکن وہی بات کہ یہ سب چونچلے کون سوچتا ہے ہم مردوں کے لئے؟ میں نوکری کرتا ہوں تو بیگم سمیت سسرال والوں کی طرف سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ہم پر احسان نہیں کرتے۔
لیکن یہ میرا نہیں اور بہت سے آدمیوں کا مسئلہ ہے ابھی کل ہی تو میرا آفس کولیگ اپنی ساس اور سالیوں کا رونا رو رہا تھا کہ ہر تنخواہ سے ان کے لیے بھی ہر ماہ تحفہ لینا پڑتا ہے ورنہ وہ اس کی نوکری پر آنا بند کر دیں گی۔ پھر جب ہم کہتے ہیں کہ یہ دنیا عورتوں کی ہے اور ہمیں ہمارے حقوق پورے نہیں ملتے تو سماج کا ناگن ڈانس یعنی تلملانا عروج پر ہوتا ہے۔
لیکن وہ وقت اب دور نہیں جب ہم مردوں کو بھی اس معاشرے میں وہی مقام ملے گا جس کے ہم حقدار ہیں۔ آج ”مردانہ مارچ“ کے موقع پر ہم ایک مردوں کی این جی او ”ساڈا حق ایتھے رکھ“ کے اشتراک سے ایک بہت بڑا پروگرام رکھ رہے جس کی خاص بات اس تحریک میں عورت برادری سے کچھ خاص سوشل ویلفیئر ورکرز کی شمولیت ہوگی جس میں وہ آدمیوں کے تحفظات پر بات کریں گی۔ ہمیں تو اس طرح کی حوصلہ افزائی سے کافی امید ہوگئی ہے۔ آپ بھی ضرور شرکت کریں اور معاشرے میں اپنے حق کے لئے آواز بلند کرنے میں ہمارے ساتھ قدم بڑھائیں۔