وسعت اللہ خان
تین مئی کو عالمی یومِ صحافت پاکستان میں بھی منایا گیا۔ صحافی انجمنوں نے اپنے تئیں کچھ اجتماعات کیے اور سرکار نے پاکستان کے سب سے پرانے انگریزی اخبار اور اس کے ذیلی ٹی وی چینل کے لئے اپنے اشتہارات روک کر یومِ صحافت منایا۔
نیز وزیرِ اعظم عمران خان نے یومِ صحافت پر ’ان کے لیے جو جھوٹی خبریں پھیلاتے ہیں‘ سورہِ بقرہ کی یہ آیت ٹویٹ کی ’اور سچ کو جھوٹ میں نہ ملاؤ اور نہ ہی اس سچ کو چھپاؤ جو تم جانتے ہو۔‘
اس پر مجھے 2013 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے 35 پنکچر یاد آ رہے ہیں جن کا عدالتی کمیشن کو کوئی ثبوت نہیں ملا اور عمران خان نے بعد میں اعتراف کیا کہ لوگوں نے بتایا تھا کہ 35 پنکچر لگے ہیں تو میں نے بھی کہہ دیا۔
یہ محض حُسنِ اتفاق ہے کہ صدر ٹرمپ، وزیرِ اعظم نریندر مودی اور وزیرِ اعظم عمران خان نے اب تک شاید ہی کوئی کھلی پریس کانفرنس کی ہو۔
صرف ان صحافیوں کو بالمشافہ انٹرویوز دیے یا بند کمرے کی پریس بریفنگز میں مدعو کیا جن کے بارے میں پیشگی اطمینان کر لیا گیا کہ ’شر پسند‘ نہیں اور صرف وہی سوالات کریں گے جو مثبت ڈیٹرجنٹ سے دھلے ہوئے ہوں۔
میرے کچھ صحافی دوست کہتے ہیں کہ یہ درست ہے کہ اس وقت آزادیِ صحافت کے بین الاقوامی انڈیکس میں بھارت اور پاکستان یکساں پائیدان پر ہیں مگر میڈیا کے بارے میں ٹرمپ، مودی اور عمران خان کے رویوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا زیادتی ہے۔ کیونکہ ٹرمپ اور مودی جیسے کیسے بھی سہی اپنے فیصلے بظاہر خود کرتے ہیں۔ جبکہ خان صاحب کو غالباً یہ لگژری حاصل نہیں۔
ان مُٹھی بھر صحافیوں کے بقول خان صاحب کی انتظامیہ نظری طور پر ایک منتخب جمہوری آئینی حکومت سہی مگر عملاً ایک ریگولیٹری اتھارٹی دکھائی دیتی ہے۔
اس تناظر میں ان کا اختیاراتی موازنہ گورنر سٹیٹ بینک یا پیمرا، اوگرا کے چیرمین سے تو بنتا ہے۔ اس سے زیادہ کی توقع خود خان صاحب سے زیادتی ہے۔
عجب اعتبار و بے اعتباری کے درمیان ہے زندگی
میں قریب ہوں کسی اور کے مجھے جانتا کوئی اور ہے
اس سے کہیں بہتر تو آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل کی پریس کانفرنس ہوتی ہے۔
جنرل صاحب بن داس عسکری، خارجہ، داخلہ امور نیز سیاست اور میڈیا کے معیار سمیت ہر موضوع پر اپنا دل کھول کے رکھ دیتے ہیں۔
کوئی صحافی کچھ بھی پوچھ سکتا ہے اگر پوچھنے کا سلیقہ سیکھا ہوا ہو۔ براہِ راست ٹیلی کاسٹ ہونے کے سبب کوئی یہ انگلی بھی نہیں اٹھا سکتا کہ اندر کچھ اور ہے باہر کچھ اور۔
ماننا پڑے گا کہ آج کے پاکستان میں جس طرح ڈی جی صاحب سوالات کے بیل کو سینگوں سے پکڑتے ہیں شاید ہی کوئی سیاستداں یہ صلاحیت استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
بقول ڈی جی صاحب ’لوگ کہتے ہیں کہ میڈیا کو شاید فوج یا آئی ایس پی آر کنٹرول کرتا ہے۔ کیا کوئی ایک اینکر بھی کہہ سکتا ہے کہ یہ بات کرنے سے منع کیا گیا اور وہ بات کرنے کو کہا گیا۔‘
عالمی یومِ صحافت سے صرف چار دن پہلے ڈی جی صاحب نے جو کھلی ڈلی پریس کانفرنس کی اس میں انھوں نے سیدھی سیدھی بات کی کہ اگر 1971 میں ہمارا میڈیا آج کے میڈیا جیسا ہوتا تو شاید مشرقی پاکستان علیحدہ نہ ہوتا۔
’اگر آپ 1971 میں ہوتے تو ہمیں بتاتے کہ پاک فوج یہ غلطی کر رہی ہے۔ سیاستدان وہ غلطیاں کر رہے ہیں۔ انڈیا یہ گیم کر رہا ہے۔ ہم خود کو درست کرتے۔ آج پھر یہ موقع ہے۔ پلیز ہمارے کان اور آنکھیں بنیے، ہماری رہنمائی کیجیے۔‘
میں شاید ڈی جی صاحب کے درد کو سمجھ سکتا ہوں۔ 1971 میں سیکرٹری اطلاعات روئداد خان کے دفتر سے جاری ڈیلی ہینڈ آؤٹ ہی شائع ہو سکتا تھا جس کے مطابق مشرقی پاکستان میں سب اچھا تھا۔
الگ سے کوئی خبر شائع نہیں ہو سکتی تھی۔ آج کسی روئداد خان کی ضرورت نہیں۔ صحافی یا اس کا ادارہ خود فیصلہ کرتا ہے کہ کیا نہیں چھاپنا یا بتانا۔
1971 میں تمام بیرونی صحافیوں کو مشرقی پاکستان سے نکالنے کے بعد 25 مارچ کو آپریشن سرچ لائٹ شروع ہوا۔ چند روز بعد مغربی پاکستان سے آٹھ صحافیوں کو چشم دید مطالعاتی دورے پر سرکار نے اپنے خرچے پر مشرقی پاکستان بھیجا۔ ان میں سے سات نے واپس آ کر رپورٹ کیا کہ وہاں تو محبت کا زمزمہ بہہ رہا ہے۔ بس چند مُٹھی بھر شرپسند ہیں جو یا تو بھاگ نکلے ہیں یا ان کا قلع قمع ہو گیا ہے۔
ان میں سے ایک صحافی انتھونی میسکرن ہاس (اسٹٹنٹ ایڈیٹر مارننگ نیوز) نے مکمل چپ سادھ لی۔ وہ پہلے اپنی بیوی اور پانچ بچوں سمیت برطانیہ منتقل ہوا۔ اس کے بعد 13 جون 1971 کو اخبار سنڈے ٹائمز کے فرنٹ پیچ پر ’جینوسائڈ‘ کی سرخی سے انتھونی کی رپورٹ شائع ہوئی۔ یوں دنیا کو پتہ چلا کہ مشرقی پاکستان میں بنگالیوں نے غیر بنگالیوں کے ساتھ کیا کیا اور ریاست نے بنگالیوں کے ساتھ کیا کیا۔ انتھونی کا 1986 میں لندن میں ہی انتقال ہوا۔
بنگلہ دیش بننے کے 31 برس بعد 17 اگست 2002 کو صدر جنرل پرویز مشرف نے ڈھاکہ سے 35 کلو میٹر پرے سوار کے مقام پر یادگارِ شہدا (جاتیا سمرتی سوہدا) پر پھول چڑھانے کے بعد مہمانوں کی تاثراتی کتاب میں لکھا ’آپ کے پاکستانی بہن بھائی 1971 کے واقعات کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں ۔اس بدقسمت دور میں کی گئی زیادتیاں افسوسناک ہیں۔‘
یہ بتائیے کہ 1971 کے پاکستانی صحافی انتھونی میسکرن ہاس کو آج بھی غدار اور بیرونی ایجنٹ ہی لکھنا ہے یا اسے وہ آنکھ لکھنا ہے جو تاریکی میں دیکھ پائی اور وہ کان کہنا ہے جو آتے قدموں کی چاپ قلمبند کر پایا؟