یوجینکس موومنٹ کیا ہے اور ہم اس سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟

ڈاکٹرلبنٰی مرزا

یوجینکس یونانی الفاظ کا مجموعہ ہے جس کے معنی ہیں ویل بورن یا بہتر نسل۔ یوجینکس وہ سائنس ہے جو انسانی نسل کو بہتر بنانے کے لیے چنے ہوئے اعلیٰ نسل کے افراد کے مابین ہی جنسی تعلقات اور بچے پیدا کرنے کی صلاحیت برقرار رکھنے پر زور دیتی ہے اور دماغی، جسمانی یا سماجی طور پر کمزور افراد کے تولیدی حقوق سلب کرنے پر زور ڈالتی ہے۔ اس مہم کا ابتدائی بنیادی مقصد عمدہ انسانی نسل کی افزائش کے ذریعے موروثی بیماریوں سے نجات حاصل کرنا تھا۔ سننے میں ‌ بظاہر معصوم اور ٹھیک ہی لگتا ہے لیکن اس مہم کا دنیا اور اس کے انسانوں ‌ پر کیا اثر پڑا، آج ہم اس پر بات کریں ‌ گے۔

بیسویں صدی کے نصف حصے تک یوجینکس موومنٹ امریکہ میں ‌ کافی مقبول تھی۔ ہٹلراس فلاسفی پر عمل درآمد سے ایک بہترین آرین نسل کو دنیا میں ‌ پھیلانے کے لیے لاکھوں ‌ بے گناہ انسانوں کے قتل کا ذمہ دار بنا۔ آج کے ماڈرن زمانے میں ‌ یوجینکس کی سائنس معلومات میں ‌ اضافے، ٹیکنالوجی میں ترقی اور میڈیکل اخلاقیات کے باعث کافی بہتر ہوئی ہے اور اس سے بہت ساری جینیاتی اور موروثی بیماریوں ‌ سے انسانوں ‌ کو نجات ملی ہے لیکن اب بھی یہ سائنس کا ایک متنازع میدان ہے جس پربحث جاری و ساری ہے۔ چینی ڈاکٹر کے جڑواں بچیوں ‌ پر کیے گئے تجربے پر بھی یہ بحث کھڑی ہوئی تھی جس پر میں ‌ نے اس سے پہلے بھی مضمون لکھا تھا۔

ریکارڈ کی ہوئی تاریخ‌ دیکھیں ‌ تو اندازہ ہوتا ہے کہ قدیم فلسفی افلاطون وہ پہلے انسان تھے جنہوں ‌ نے یوجینکس کا فلسفہ دنیا کے سامنے رکھا لیکن حالیہ تاریخ‌ میں ‌ اس کو سامنے لانے کا سہرا برطانوی اسکالر سر فرانسس گالٹن کے سر جاتا ہے جنہوں ‌ نے اس نظریے کا ذکر اپنی 1883 کی کتاب میں ‌ کیا۔ جس کا نام
Inquiries into Human Faculty and Its Developmen
ہے۔ گالٹن چارلس ڈارون کے کزن تھے جنہوں ‌ نے دنیا کو برطانوی الیٹ کلاس کو دنیا میں پھیلا کر انسانیت کو بہتر بنانے کی تجویز پیش کی۔ ان کا منصوبہ برطانیہ میں ‌ تو زیادہ کامیاب نہیں ہوسکا لیکن امریکہ میں ‌ اسے مقبولیت حاصل ہوگئی۔ جلد ہی یوجینکس موومنٹ کی بنیاد پر قانون سازی شروع ہوگئی۔ 1896 میں ‌، امریکی ریاست کنیکٹیکٹ میں ‌ ان لوگوں ‌ کا شادی کرنا غیر قانونی قراد دے دیا گیا جن کو مرگی کی بیماری تھی یا وہ ”فیبل مائنڈڈ“ یعنی کہ کمزور ذہن کے تھے۔

یہاں ‌ دھیان رہے کہ آئی کیو کا ٹیسٹ ایک اوپری درمیانے طبقے کے تعلیم یافتہ سفید فام آدمیوں کا بنایا ہوا تھا جو کہ انسانوں ‌ کی ذہانت ناپنے کے بجائے اصل میں ‌ اس بات کا ٹیسٹ ہوتا ہے کہ جو ہمیں ‌ آتا ہے کیا وہ تمہیں ‌ بھی آتا ہے؟ 1903 میں ‌ امریکن بریڈر اسوسی ایشن بنائی گئی جو یوجینکس کے میدان میں ‌ تحقیق کرے۔

جان ہاروی کیلاگ جن کو کیلاگ سیریل کی وجہ سے شہرت حاصل ہے، انہوں ‌ نے بقاعدہ ایک ریس بیٹرمنٹ فاؤنڈیشن بنائی اور انسانوں ‌ کے شجروں ‌ کا اندراج شروع کیا۔ اس فاؤنڈیشن نے یوجینکس پر قومی کانفرنسیں بلائیں اور یہ نتائج اخذ کیے کہ مہاجرین، اقلیتوں اور غریبوں ‌ کو بچے پیدا نہیں کرنے چاہئیں۔ ان آدمیوں ‌ پر بنی ڈاکیومینٹری دیکھیں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جس بھی تعلیم کے دائرے کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی اس کے گرد بھی کافی سارے لوگ جمع ہوکر اپنے معاشرے کے لیے انتہائی احمقانہ فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جس سے انسانیت کو دھچکا لگتا ہے۔ آج کے امریکہ میں ‌ دائیں بازو کی جماعتوں ‌ کے اخبارات اور ٹی وی چینل بھی اسی دائرے سے تعلق رکھتے ہیں۔

ہم اس بات پر غور کریں ‌ گے کہ یوجینکس کی تحریک کے کون سے خیالات قابل قبول ہوسکتے ہیں۔ ان میں ‌ سے ایک یہ ہے کہ بہن بھائی یا کزن آپس میں ‌ ازدواجی تعلقات استوار نہ کریں کیونکہ اس سے پیدا ہونے والے بچوں ‌ میں ‌ موروثی بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک خاتون کو دیکھا جن کو لیکوڈسٹروفی کی بیماری تھی۔ لیکوڈسٹروفی کے زیادہ تر مریض بچپن میں ‌ ہی مر جاتے ہیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ میں ‌ نے اس بیماری کا کوئی بالغ مریض اینڈوکرنالوجی کلینک میں دیکھا ہو۔ لیکوڈسٹروفی ان بیماریوں ‌ میں ‌ شامل ہے جن کا خطرہ کزنز کے بچوں ‌ میں ‌ زیادہ ہوجاتا ہے۔

کافی ایک ہی طرح‌ سے نسل درنسل زندگی گزارتے آرہے ہیں اور خراب نتائج سامنے ہونے کے باوجود ایک نیا راستہ لینے سے کتراتے ہیں۔ سکھر میں ‌ ایک کلاس فیلو کی اپنے کزن سے شادی ہوئی تھی۔ ان کے چار میں ‌ سے تین بچوں ‌ کو لیکوڈسٹروفی کی بیماری تھی۔ بچے کو نو مہینے پیٹ میں ‌ رکھنا، پھر اس کو پیدا کرنا اور پھر ایک دو سال تک پال کر مرتے دیکھنے میں ‌ سے کچھ بھی خوشی یا سکون کا باعث نہیں ‌ بن سکتا۔

ہمارے چانڈکا میڈیکل کالج میں ‌ بھی ایسے ڈاکٹر کزن آپس میں ‌ شادی کررہے تھے جن کے خاندان میں ‌ تھیلیسیما کی بیماری تھی۔ وہ خود ڈاکٹر ہونے کے ناتے یہ جانتے بھی تھے کہ یہ بیماری کس طرح‌ جینیاتی طریقے سے اگلی نسل میں ‌ منتقل ہوتی ہے لیکن پھر بھی انہوں ‌ نے اپنے لیے، اپنے بچوں ‌ اور اپنے ملک کے لیے یہ فیصلہ کیا کہ جانتے ہوئے بھی ایسے بچوں ‌ کو دنیا میں ‌ لایا جائے۔ تھیلیسیما کے شکار بچوں ‌ کو باقاعدہ خون چڑھاتے رہنے کی ضرورت ہوتی ہے جس کی وجہ سے ان کا جگر اور اسپلین بڑے ہوجاتے ہیں اور ان میں ‌ سے زیادہ تر بچے زندگی کی دوسری دہائی تک چل بستے ہیں۔

ایسے افراد جن کو سنجیدہ دماغی یا جسمانی بیماریاں ‌ ہوں اور وہ اپنی اولاد کو پالنے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں تو لواحقین ان کی بہتری کے لیے یہ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ ان کی نس بندی کریں۔ اس میدان میں ‌ ایک ڈاؤن سنڈروم کی لڑکی کا کیس مشہور ہوا تھا جس میں ‌ اس کے باپ نے یہ اپیل کی تھی کہ اس کی بیٹی کی نس بندی کرنے سے نہ روکا جائے کیونکہ وہ اس کا اور اس کے بچوں ‌ کا جن میں ‌ ڈاؤن سنڈروم کا خطرہ پچاس فیصد تک ہوتا ہے خیال نہیں رکھ پائیں گے۔

یہاں تک تو یوجینکس کا فلسفہ ٹھیک ہی لگتا ہے۔ اب ہم یہ دیکھیں ‌ گے کہ امریکہ کی تاریخ میں ‌ یوجینکس کے فلسفے کو استعمال کرکے کس طرح‌ نسلی اور طبقاتی تعصب سے لے کر ذاتی چپلقش میں ‌ انسانی حقوق کی پامالی اور حدود میں ‌ دراندازی کی گئی۔

بیسویں ‌ صدی کی شروعات میں 1909 سے لے کر 1979 تک صرف کیلوفورنیا میں ‌ دماغی امراض کے علاج کے ہسپتالوں میں ‌ معاشرے کو ان بیماریوں ‌ سے بچانے کے لیے تقریباً بیس ہزار مریضوں ‌ کی نس بندی کی گئی۔ حالانکہ ان میں کافی بیماریوں کے موروثی ہونے کے ٹھوس ثبوت مہیا نہیں تھے۔ کافی نس بندیاں اقلیتوں میں ‌ اور ایسے گروہوں ‌ میں ‌ کی گئیں ‌ جن کو حکومت میں موجود افراد کسی بھی وجہ سے پسند نہیں ‌ کرتے تھے۔ دیگر نسلوں ‌ میں ‌ نس بندیاں ‌ کی گئیں ‌ تاکہ اعلیٰ سفید فام نسل آگے بڑھائی جاسکے۔


یہاں ‌ تک کہ 1927 میں ‌ امریکی سپریم کورٹ نے بھی یہ فیصلہ دے دیا کہ دماغی طور پر کمزور افراد کی زبردستی کی نس بندی امریکی قانون کی خلاف ورزی نہیں کرتی۔ 1942 میں ‌ یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا تھا لیکن تب تک ہزاروں ‌ افرد کی جبری نس بندی ہوچکی تھی۔ ٹرمپ کے الفاظ نئے نہیں ہیں۔ یہ تعصب کئی سو سال سے چلتا آرہا ہے اور ان ”وائٹ سپراماسسٹ“ افراد کے خیالات نسل در نسل سے یہی ہیں۔

اردو پڑھنے والے افراد کے لیے اس سے ملتی جلتی ایک مثال داعش اور القاعدہ وغیرہ جیسی مذہبی شدت پسند تنظیموں کے دہشت گردوں کی دی جاسکتی ہے جن کے خیال میں ‌ مسلمان ہونا کوئی انوکھی، بقایا انسانیت سے بلند تر یا بہترین بات ہے اور خود سے مختلف نظریہ رکھنے والے مسلم و غیر مسلم انسانوں کے خلاف دہشت گردی کرنا جائز ہے۔ اس طرح‌ کی سوچ رکھنے والے انسان نہ صرف خود کو بقایا دنیا کے انسانوں ‌ سے بر تر سمجھتے ہیں بلکہ طاقت ہاتھ میں ‌ آنے پر برے سے برا قدم اٹھانے میں ‌ ہچکچاہٹ نہیں ‌ دکھاتے ہیں۔ ٹرمپ کی بنائی ہوئی سپریم کورٹ دوبارہ سے اس طرح‌ کے دقیانوسی اور نسل پرست فیصلے کرنے کی پوری طاقت رکھے گی۔

1930 میں ‌ پورٹو ریکو کے گورنر نے پورٹو ریکو کی خواتین کی نس بندیاں کروائیں تاکہ ان کے ساتھ بچے پیدا کرکے سفید فام نسل پر دھبا نہ لگے۔ 2014 میں ‌ سعودی عرب کی حکومت نے اپنے شہریوں ‌ پر پابندی لگائی کہ پاکستانی، بنگلہ دیشی اور دو مزید ممالک کی خواتین کے ساتھ شادیاں نہ کریں۔ اس طرح‌ وہ اپنی اعلیٰ سعودی نسل کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ان طاقت ور آدمیوں کے ان منفی اقدام کے پیچھے کسی طرح‌ کی سائنس موجود نہیں ہے صرف نفرت ہے۔

1976 میں ‌ گورنمنٹ اکاؤنٹیبلٹی آفس کی تفتیش سے معلوم ہوا کہ 25 سے 50 فیصد ریڈ انڈین افراد کی 1970 سے 1976 کے درمیان نس بندی کی گئی۔ یہ دیکھ کر حیرانی نہیں ہونی چاہیے کہ امریکہ میں ‌ پڑھائی جانے والی ٹیکسٹ بکس میں ‌ یہ بیان نہیں کیا گیا ہے کہ یورپی افراد نے امریکہ کے حقیقی شہریوں ریڈ انڈینز کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ ان کتابوں میں ‌ ان 95 ملین مقامی افراد کے مٹ جانے کی کوئی کہانی موجود نہیں ہے جو ہم سے پہلے یہاں رہتے تھے۔ ہر ملک کی حکومت تاریخ‌ میں ‌ گزرے ہوئے کچھ لوگوں ‌ کو حقیقت سے بڑا ہیرو بنا کر پیش کرتی ہے اور تاریخ کی پردہ پوشی کرتی ہے تاکہ مخصوص ذہن ترتیب دیے جاسکیں۔ آج انٹرنیٹ سے ساری دنیا آپس میں ‌ منسلک ہے۔ سب کو تاریخ کا تنقیدی مطالعہ کرنے اور تاریخ‌ کو دہرانے سے روکنے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ہٹلر یوجینکس موومنٹ سے کافی متاثر تھا۔ اس نے اس برتر نسل آرین کا ذکر اپنی 1934 کی کتاب مین کیمپف میں ‌ بھی کیا۔ ہٹلر نے اپنی کتاب میں ‌ یہودیوں اور خانہ بدوشوں ‌ کو کم تر نسل قرار دیا جن کا صفایا دنیا کے مستقبل کے لیے لازمی قرار دیا۔ اس کا اعتقاد تھا کہ جرمن افراد کو اپنا خون خالص رکھنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے وہ کچھ بھی کرگزرنے کو تیار تھے جس کا نتیجہ ہولوکاسٹ کی صورت میں ‌ ہمارے سامنے ہے۔ اس راستے پر کوئی بھی قوم جاسکتی ہے اور پہلے سے گئی بھی ہیں۔ ان میں ‌ سے کچھ کو ہم خود بھی ہیرو سمجھتے ہیں حالانکہ بے گناہ انسانوں کا خون بہانے میں ‌ کوئی ہیروازم موجود نہیں ہے۔

دنیا کی تاریخ‌ میں ‌ انسانوں نے خود پر اور دوسرے انسانوں ‌ پر عجیب وغریب تجربے کیے ہیں۔ اس تاریخ‌ کو پڑھ کر یہ سمجھ میں ‌ آتا ہے کہ جہاں ‌ بھی انسانوں کے پاس طاقت اور ادھوری معلومات ہوں، وہ نئی معلومات کی روشنی میں ‌ اپنے خیالات بدلنے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں اور خود کو باقی انسانوں ‌ سے بہتر سمجھتے ہوں ‌ تو اس تعصب کے ساتھ وہ دنیا میں ‌ کتنی تباہی پھیلا سکتے ہیں۔ ایسا کرنے سے خود ان پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

اسی لیے کسی بھی ملک کے عوام میں ‌ سماجی اور قانونی برابری کے علاوہ تعلیم و شعور اور اپنے حقوق کی آگاہی نہایت اہم ہے۔ جہاں ‌ سب لوگ ایک ہی طرح‌ سوچتے ہوں ‌ اور نئے خیالات کو سامنے نہ لایا جائے تو اس معاشرے کی نشونما رک جاتی ہے۔ امید ہے کہ اس مضمون کو پڑھ کر قارئین کو یہ بھی سمجھنے میں ‌ مدد ملے گی کہ کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے تکثیریت کی کیا اہمیت ہے۔