میرے کلینک میں نجانے کتنی ایسی مائیں آتی ہیں جن کے جوان بچے ذہنی مریض ہیں۔ یہ مائیں اپنے بچوں کا علاج اور تیمارداری کرتے کرتے خود بیمار ہو گئی ہیں۔ ان میں سے بعض اپنے آپ کو موردِ الزام بھی ٹھہراتی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ان کے بچے ان کی غلط تربیت سے ذہنی مریض بنے ہیں۔
میں ایسی ماؤں کا علاج کرتے ہوئے انہیں بتاتا ہوں کہ بعض ذہنی بیماریاں موروثی ہوتی ہیں جن میں تربیت سے زیادہ ان کی جینز کا تعلق ہوتا ہے۔ میں ان کی نفسیاتی مدد کرتے ہوئے یہ بھی بتاتا ہوں کہ اگر ان کی تربیت ناقص ہوتی تو ان کے سب بچے بیمار ہوتے۔ اگر ایک بچی بیمار ہے اور باقی بچے صحتمند ہیں تو اس کا یہ مطلب ہے کہ اس بچے کی جینز پیدائشی طور پر کمزور یا بیمار تھیں۔
میں ایسی ماؤں کو یہ بھی بتاتا ہوں کہ بعض جسمانی بیماریوں میں بھی موروثی اثرات ہوتے ہیں۔ اگر کسی بچے کو ذیابیطس کی بیماری ہے یا کسی نوجوان کا بلڈ پریشر بڑھ گیا ہے تو ان کی ماں دوسروں کو اپنے بچے کی بیماری کا بتاتے ہوئے ندامت محسوس نہیں کرتیں لیکن اپنی بیٹی یا بیٹے کی ذہنی بیماری کا ذکر کرتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتی ہیں کیونکہ انہیں فکر ہوتی ہے کہ ’لوگ کیا کہیں گے‘ ۔
میں ایسی ماؤں کی ہمت افزائی کرتا ہوں اور انہیں سمجھاتا ہوں کہ جب تک وہ خود صحتمند نہیں ہوں گی وہ اپنے بچوں کا بھی صحیح خیال نہیں رکھ سکیں گی۔ میں ان کی یاد دہانی کراتا ہوں کہ جب وہ ہوائی جہاز میں سفر کرتی ہیں تو ایر ہوسٹس جہاز کی پرواز کی تیاری کرتے ہوئے ماؤں سے کہتی ہے کہ اگر ہوائی جہاز میں ہوا کا دباؤ کم ہو جائے اور چھت سے ماسک گرے تو ماؤں کو پہلے ایک ماسک اپنی منہ پر اور پھر دوسرا ماسک اپنے بچے کے منہ پر لگانا چاہیے۔ بعض دفعہ ماؤں نے پہلے چھوٹے بچے کے منہ پر ماسک لگانے کی کوشش کی تو وہ خود بھی بے ہوش ہو گئیں۔
میری ایک مریضہ جن کا فرضی نام صابرہ ہے “ہم سب” پر میرے کالم باقاعدگی سے پڑھتی ہیں۔ ایک دن مجھے کہنے لگیں کہ میں آپ کے کالموں سے بہت کچھ سیکھتی ہوں خاص طور پر وہ کالم جس میں آپ کے کسی مریض کی کہانی ہوتی ہے۔ پھر کہنے لگیں کہ اگر میں اپنی کہانی لکھ کر لاؤں تو کیا آپ میرے بارے میں بھی کالم لکھیں گے تا کہ میری کہانی سے بہت سی اور مائیں بھی کچھ سیکھیں۔ میں انہیں امید دلانا چاہتی ہوں کہ وہ اس دنیا میں اکیلی نہیں ہیں اور سائیکو تھیریپی سے وہ بھی اپنا کامیاب علاج کروا سکتی ہیں اور گرین زون کے فلسفے پر عمل کر کے ایک صحتمند‘ پرسکون اور خوشحال زندگی گزار سکتی ہیں۔
چنانچہ آج صابرہ اپنی کہانی لکھ کر لائیں اور مجھے سنائی۔ میں ان کی امانت آپ تک پہنچا رہا ہوں۔ لکھتی ہیں :
دو سال پہلے جب میں نے ڈاکٹر سہیل سے علاج کروانا شروع کیا تو میں بہت پریشان تھی۔ میں نے سب سے آنا جانا ملنا جلنا چھوڑ دیا تھا۔ میں کسی سے بھی بات چیت نہیں کرتی تھی۔ کچھ بھی کرنے کو انرجی نہیں ہوتی تھی۔ بچوں کے لیے کھانا پکانا بھی ایک سردرد محسوس ہوتا تھا۔
مجھے ہر ہفتے ڈاکٹر سہیل سے اپائنٹمنٹ لینے کا انتظار رہتا تھا۔ اور جب اپائنٹمنٹ آتی تھی تو یوں لگتا تھا کہ وہ ایک گھنٹے کی اپائنٹمنٹ پانچ منٹ میں گزر گئی ہے۔ میرا جی چاہتا تھا کہ میں بولتی جاؤں اور وہ سنتے جائیں اور وہ گھنٹہ کبھی بھی ختم نہ ہو۔ ایک اپائنٹمنٹ کے بعد میں اگلی اپائنٹمنٹ کا انتظار شروع کر دیتی۔ میں کسی سے بات چیت نہیں کرتی تھی لیکن ان کی کتابیں بڑے شوق سے پڑھتی تھی۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بعض دفعہ میں ان کے سامنے پورا گھنٹہ روتی رہتی اور وہ خاموشی سے میری باتیں سنتے رہتے۔ وہ تھیریپی کے دوران جو مثالیں دیتے وہ بہت زبردست ہوتی تھیں۔ آہستہ آہستہ میری منفی سوچ مثبت سوچ میں بدلنے لگی۔
میں اپنی بیٹی کی عادات و اطوار سے بہت پریشان رہتی۔ ان دنوں میری بیٹی حد سے زیادہ شراب پیتی۔ نشہ کرتی۔ اور مردوں کے ساتھ تعلقات قائم کرتی۔ میں اس کی ان حرکتوں کی وجہ سے شرمندہ رہتی۔ میں نے ڈاکٹر سہیل سے یہ سیکھا کہ ہمیں دوسروں کے اعمال کی بجائے اپنے اعمال پر غور کرنا چاہیے کیونکہ ہم سب اپنی قبر میں اکیلے جائیں گے۔
میں نے تھیریپی میں یہ بھی سیکھا کہ میں اپنی بیٹی کی ذہنی بیماری کی ذمہ دار نہیں ہوں کیونکہ میرے دو اور بچے بالکل صحتمند ہیں۔ میں نے ڈاکٹر سہیل سے یہ سیکھا کہ مجھے اپنا خیال رہنا چاہیے۔
ڈاکٹر سہیل نے کہا کہ محبت قربانی مانگتی ہے۔ مجھے اپنی بیٹی کے لیے نادم نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ایک ذہنی بیماری کا شکارہے۔ یہ نفسیاتی مسئلہ ہے اخلاقی مسئلہ نہیں ہے۔ میں نے تھیریپی سے آہستہ آہستہ اپنی بیٹی کو قبول کرنا شروع کر دیا۔ میں نے اپنی بیٹی کی ذہنی بیماری کے بارے میں کتابیں بھی پڑھنی شروع کر دیں اور اپنے آپ کو ایجوکیٹ کیا۔
میں نے دل ہی دل میں اپنی بیٹی کی غلطیوں کو معاف کرنا شروع کر دیا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ وہ مجھ سے ناراض تھی اور مجھے دکھ پہنچانا چاہتی تھی کیونکہ جب وہ اٹھارہ برس کی تھی اور حاملہ ہو گئی تھی تو اس نے ہمارے کہنے پر اسقاط کروایا تھا۔ اب وہ ہم سے بدلہ لے رہی تھی۔ میں نے ڈاکٹر سہیل کے ایک کالم میں پڑھا تھا کہ ان کے والد نے ان کی والدہ سے کہا تھا کہ جب مرغی کے بچے بڑے ہو جاتے ہیں ماں دانا دنکا دینا بند کر دیتی ہے تا کہ وہ اپنا کھانا خود تلاش کریں۔ ہمیں بھی اپنے جوان بچوں کا اجازت دینی چاہیے کہ وہ اپنا خیال خود رکھیں۔
آخر میں نے اپنی بیٹی سے صلح کر لی اور اس کے بوائے فرینڈ کو قبول کر لیا (عارضی طور پر) ۔ آہستہ آہستہ جب میری بیٹی کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو وہ ذہنی طور پر بہتر ہونی شروع ہوئی۔ اس نے شراب اور چرس پینی بھی چھوڑ دی۔
اب دو سالوں کے علاج کے بعد میں بھی صحتمند ہو گئی ہوں اور میری بیٹی بھی۔ اس نے ایک پاکستانی سے شادی کر لی ہے اور شراب اور چرس کو بھی خیرباد کہہ دیاہے۔ میں کافی مضبوط ہو گئی ہوں۔ اب اگر میری بیٹی کبھی کوئی سخت بات کرتی ہے تو میں اسے نظر انداز کر دیتی ہوں۔ میں نے یہ بات بھی ڈاکٹر سہیل سے سیکھی ہے۔ میں ’ہم سب‘ پر ان کے کالم ہی نہیں کالم پر لکھے گئے کمنٹس بھی پڑھتی ہوں۔ کئی لوگوں نے انہیں سخت الفاظ لکھے لیکن انہوں نے جواب نہیں دیا۔ وہ اپنا اچھا کام کرتے رہے۔ اگر ان کی جگہ میں ہوتی تو کب کا لکھنا چھوڑ چکی ہوتی۔