یہاں اس سب تمہید کا مقصد یہ ہے کہ بھیڑیا اور کوئی بھی دوسرا وحشی جانور قدرت کے کون سے مظہر کی عکاسی ہیں، پہلا تو ظاہر ہے کہ سب اس ایکو سسٹم میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں اس کے علا وہ سائیکالوجی ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ ہر عادت یا خواہش جو انسان کو دی گئی وہ بذات خود اس کی اپنی بقا کے لئے دی گئی، مثال کے طور پر بھوک، پیاس، آرام یا نیند یہ سب وہ بنیادی خواہشیں ہیں کہ جس کو پورا کئے بغیر انسانی یا حیوانی بقا ممکن ہی نہیں لہذا تمام خواہشات ایک مقصد سے جڑی ہیں ۔
ہم ان خواہشات کو محسوس کرتے ہیں اور اپنی زندگی گزارتے ہیں اورانہیں خہوا ہشا ت کے حصول کے ساتھ ہی اپنی تمام زندگی کو جوڑ کررکھتے ہیں ۔اسی طرح جانور بھی ہیں وہ اپنی بقا کے لئے قدرت کی طرف سے عطا کی گئی فطرت اور اپنی بقا کے حصول کے لئے اپنی خواہشات کے تابع رہتے ہیں ۔ مگر دوسرا پھلو یہ ہے کہ بھیڑئیے کی جو عادات یا جبلت ہم نے اوپر بیان کی ہیں وہ حقیقتا انسان کے اندر کی جبلت کا ہی مظہر ہے ۔
خدا کی طرف سے دی گئی ہر خواہش، جبلت جو انسان کو دی گئی وہ ہر جانورمیں بھی موجود ہے۔مگر ہر جانور اپنی خصوصی عادت سے پہچانا جاتا ہے، اور ہم انسانوں کو جو عادات جس جانور میں زیادہ نظر آتی ہیں اس کی پہچان بنا دیتے ہیں، جیسے کتے کو وفاداری کا، خرگوش کو بزدلی کا،شیر کو بہادری کا، اور بھیڑئیے کو وحشت اور بربریت کی پہچان۔ حقیقتا یہ سب مظاہر قدر ت نےانسان کے اندر موجود تمام جبلتوں کا مظہر د یےء ہیں ۔
مگر سوال یہ ہے کہ آخر لالچ، طمع، غصہ، نفرت اور ایسی تمام منفی خواہشات اور جذبات قدرت نے ہمیں کیوں دئیے اور جانوروں کو کیوں دئیے، تو اس کا جواب پھر سے ہماری “بقا”ہی ہے ۔ نفسیات کے ماہرین نے اس کی بھی توجیح “بقا ” دی ہےکیوں کہ یہ وہ جذبا ت ہیں جو ہمیں بیرونی خوف سے نمٹنے کے لئے موٹیویٹ کرتے ہیں، اس کی مثال یہ ہے کہ اگر لالچ نہ ہوتی تو ہم آرام کرتے رہتے اور اپنی ضرورت پوری ہونے کے بعد اگلے روز کے لئے متحرک نہیں ہوتے، بس یہاں سے وہ توازن ہے قدرت کے نظام میں جو ہمیں اپنی بقا کے لئےمتحرک رکھتا ہے ۔
معاشرہ کی سائنس بھی یہ بتاتی ہے کہ ہم گروہوں اور قبیلوں میں بھی اسی لئے رہتے ہیں کہ اس میں ہم خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں، جانور بھی اسی وجہ سے اپنے گروہوں یا غول میں رہتا ہےجیسا کہ بھیڑئیے، بندر اور ہرن وغیرہ ۔ یعنی اپنی بقا کی جستجو وہ بنیادی جذبہ ہے جو ہمیں متحرک رکھے ہوئے ہے،اورقدرت کے مظاہر کی کھوج بھی اسی بقا کی جستجو ہے ۔
مندرجہ بالا پوری بحث کا حاصل یہ ہے کہ اگر ہمارے انسانی معاشرہ میں کوئی بھیڑیا ہے تو وہ کیوں ہے؟۔یقیناَ اس کے تدریجی عمل میں وہ وجوہات ہیں کہ اس کو اپنی بقا کے لئے ان جبلی خواہشات کے تحت ردعمل کرناپڑا اور یہی عادت غالب رہ گئی اور عادت کا حصہ بن گئی، اس نے شائستگی اور تہذیب کے ماحول سے ہٹ کر بقا کی جہدوجہد میں وقت گزارا یا اس کی تربیت لی، ہمارے معاشرے کے ایسے کردارہرجگہ ہیں، گھروں میں، دفاتر میں، ایوانوں میں، اسپتالوں میں، اسکولوں میں حتیٰ کہ مندروں،مساجد اور کلیسائوں میں بھی ہیں ۔کیوں کہ ہر انسان کی تربیت اس کا معاشرہ اورپھر اس کا خاندان کرتاہے اور اسی بنیاد پر اس کا کردار ابھرتا ہے۔
معاشرہ جو عوامل پیدا کرتا ہے ایک فرد کے لئے اسی سے وہ ردعمل کرتا ہے اپنے اندر کی دفاعی صلاحیت کے ساتھ، یعنی ظاہری حالات جو زندگی میں آئیں گے وہ اسی طرح رد عمل کرے گا، اپنے اندر کی جبلت کے مطابق ۔ کبھی کبھی انسانی علم، انسانی معلومات، انسانی عقل سب کچھ زیر ہوجاتی ہے سنگین صورتحال کے تحت اپنے بیرونی حالات کا مقابلہ کر نے میں، اور جس خطے میں ہم رہتے ہیں وہاں مسائل اور نامساعد حالات بے شما ر ہیں، تو اپنی بقا کی دوڑ میں ہرشخص بیر ونی حا لا ت کوریسپونز کرتا رہتا ہے ۔
وحشی کو مزید وحشی ہونے کے لئے اور جو وحشی نہیں ان کو بھی وحشی بنانے کی تمام وجوہات پیداکئے جارہے ہیں،کیپیٹل ازم کا وجود،طاقت کے حصول اوروسائل کی فراوانی درحقیقت میں ہمارے اندر کاعدم تحفظ ہی ہے، ہمیں بے حد خوف ہے کہ ہم بھوکے مرجائیں گے یا دوسرا ہم سے زیادہ طاقتور ہوجائے گاتو ہمیں مار دے گا، ہم ایٹمی ہتھیار بنائے جاتے ہیں اور بیچتے خریدتے رہتے ہیں، سوال یہ ہے کہ اس خوف سے نجات کیسے ملے ؟ چلیں شروع کرلیتے ہیں اسےاپنے گھر سے اپنے آ پ سے۔
اس بھیڑئیے کے خوف کو اپنے اندر سے اپنے ماحول سے، اپنی ذات سے شرو ع کرلیتے ہیں” لا ” کہ کر،کہ نہیں کوئی مجھے مارنے والایا بچانے والا،سوائے ایک ذات کے، ہر چیز کواسی کی دی ہوئی نعمت جانیں چاہے وہ کچھ بھی ہو، اس روحانی اصلاح کے ساتھ وقوفی یا عقلی سوچ جو اس سے جڑی ہے وہ یہ کہ ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتاجب تک کہ ہم خود نہ چاہیں ۔ اس کی مثال یوں ہے کہ سامنے رکھا اوزار چلائے بنا خود سے نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اپنے ساتھ کے لوگوں کو بھی اپنے معاون اور اس ایکو سسٹم کا اہم جز جانیں ۔
جب ہم اپنی اہمیت اور دوسروں کی اہمیت کو سمجھنے لگیں گے تو خود سے عزت اور محبت جاگے گی اور بقا کی خواہش کو تسکین بھی ملتی رہے گی۔اپنے گھر کا بچہ، عورت، مر داد ر گھر کے ہر فرد کی اسکی عمر یااسکی معاشی ہیسیت کی تفریق کئے بغیر اسکی عزت سیکھیں تو جواب میں خود بخود عزت اور محبت ملے گی،گھر سے باہر چاہے دفتر ہویا کاروبار اپنے اطراف میں جو لوگ ہیں وہ بھی آپ جیسے انسان ہیں، اور ویسے ہی خواہش اور جذبات رکھتے ہیں جیسے آپ، اگر آپ نے ان کو خوفزدہ کیا، تو وہ بھی ردعمل میِں آپکو خوفزدہ کریں گے، چاہے ان کی کیسی بھی بساط ہو۔
عزت دیں گے تو وہ بھی آپ کو عزت دیں گے، لیکن شرط ہے اپنی ذات سے شروع کرنے کی، اپنی ذات کو جانیں، کھوجیں اور اس کے اندر کے بھیڑئیے کو سلائیں۔ آپ کے ارد گرد کے بھیڑئیے خود بخود قابو آجائیں گے مگر جستجو اور محنت شرط ہے، ا سی ترح ملکی سطح یا اداروں پر بھی ہم ان باتوں کا خیال رکھیں جس میں عوام الناس کی عزت اور ان سے کئے گئے وعدوں کی تعظیم لا ز می ہے ۔ صرف”اجتماعی فلاح “کے اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہم بہتر پالیسیز وضع کرسکتے ہیں ۔ ڈرانگ رو م پا لیسیس یہ ذاتی ا غرا ص پر مبنی پا لیسیز صرف بھیڑئیے پیدا کر سکتی ہیں۔
یہ یاد رکھیں کہ ہم سب ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے وجود کو تقویت دیتے ہیں،مگر ایکو سسٹم کا پہیہ الٹا چلائیں گے تو سب سےپہلے ہم اپنے لئے خود ہی مشکلات کھڑی کرلیں گے۔مگرہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمیں اپنے اندر کے بھیڑئیے کو قابور کھنے کی ضرورت ہے تاکہ باہر کے بھیڑیوں کو قابو رکھ سکیں۔