مردانہ کمزوری کے ٹھیلے تو ہر حکیم نے کھول رکھے ہیں، کوئی ماہر زنانہ کمزوری کا حل بھی دریافت کرے۔ سائنسی ٹرم ہے ”انباکس“ اس کا لغوی معانی تو ڈبے کے اندر بنتا ہے مگر ناجانے کیوں اس ڈبے نے خواتین میں اتنا خوف پیدا کر رکھا ہے۔ آئے روز فیمینزم کا نعرہ بلند کرنے والی ہراساں ہوجانے کا ڈھونگ رچاتی نظر آتی ہیں۔
ارے بھائی! یہ تو مرد کی مردانگی ہوئی کہ اس نے تمہیں انباکس کر دیا، پبلک پلیٹ فارم پر ذلیل کر دیتا تو پھر کس کا پلو پکڑ کر آنسو پونچھتی پھرتیں۔ ایک تو اس نے ظرف دکھایا اور تم نے اس کے ہی سکرین شارٹ لگا کر یہ بتایا کہ خدا کی قسم مجھے بھی لوگ چھیڑتے ہیں۔ “آاا میلا بے بی” سے شروع ہونے والی ذہنیت رکھنے والی کون سے حقوق چاہتی ہیں۔ مردوں پر ہوس کا الزام لگا دینا خواتین کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے کیونکہ اس کی تفصیل دینا نہیں پڑتی۔ آج کل کی خواتین کے ذہنی دباؤ کی سب سے بڑی وجہ پتہ ہے کیا ہے؟
ایسا کون ہے جس نے پوہ کو مڑ کے نہیں دیکھا۔ ہاؤ ڈئیڑ یو۔ ہو ہو۔ پھونکتی ہوئی پھرتی ہیں پھر اگر کسی لیہ کے جوان کی نئی نئی فیسبک کی ریکمنڈیشن میں محترمہ آجائیں تو وہ ایسے ہی بیچارہ ہیلو ہاؤ آر یو یا پھر سو کیوٹ کا میسج کر دے بس۔ فوری سکرین شاٹ لے کر کہا جاتا ہے۔ کون جاہل لوگ ہیں یہ۔ دیکھو سستا ٹھرک۔ ابھی کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی۔ اس پوسٹ پر پھر کمنٹس آنے شروع ہوتے ہیں جس کا کمنٹ محترمہ کو پسند آجائے بس پھر اس سے انباکس شروع۔ اب اس کا سکرین شارٹ بریک اپ کے بعد پوسٹ کیا جائے گا۔ کیونکہ ریپ اور رومانس میں صرف مرضی کا فرق ہے۔
مزہ ہی آجائے اگر مرد بھی بابا کی نازک پرنسز کے سکرین شارٹ لگانے شروع کر دیں۔ یقین کریں مجھے موبائل سے خوف آنے لگا ہے۔ گھر میں بیٹھے ہوئے لگتا ہے چوک میں کھڑی ہوں۔ کیونکہ ہم نے ذرائع ابلاغ کی اس مثبت ڈیوائس کو اتنا خطرناک بنا لیا ہے۔
میشا شفیع اور علی ظفر کا پھڈا بھی دراصل سارا انباکس کا ہے۔ بھلا بندہ پوچھے ایک بلاک کے بٹن سے کہانی ختم۔ کردیں لیکن پھر چس کیسے آئے گی؟
خواتین سے متعلق مشہور ہے کہ ان کو تعریف کروانا پسند ہے۔ اور خود پسندیت انہیں اتنا مغرور بنا دیتی ہے کہ وہ کسی کے نہ کرنے پر بھی ہراساں ہوتی رہتی ہیں۔ رکیں رکیں فتوی نہ لگائیں، مجھے گھر کا کھانا گرم کرنے کی قسم ہے کہ میں فیمینسٹ ہوں۔ کس کتاب نے لکھا ہے کہ فیمینسٹ ہونے کا مطلب خواتین کی ذہنی کمزوریوں کا دفاع کرنا ہے۔ آئیِں بات کریں مجھ سے برابری پر۔ اور برابر بنایا کس نے ہے آپ کو ۔ خاوند کو سجدہ کرنے کا کہا جاتا تب عقل ٹھکانے آتی۔
بھئی یہ آزادی کم ہے کہ نوکری کرتی ہو؟ ، پڑھنے کے لئے باہر بھی جا سکتی ہو، شادی اپنی پسند کے لڑکے سے کر سکتی ہو۔ ارے انباکس والے کے ساتھ بھاگ بھی سکتی ہو۔ بس خیال کرنا کہ شناختی کارڈ بنا ہوا ہو۔ میرا مقصد کسی کی بھی دل آزاری کرنا نہیں ہے لیکن نکلیں ان چنٹو منٹو سوچ سے“، انباکس کا مطلب ہے کوئی آپ کو عزت دے کر ایک بات صرف آپ کو کہہ رہا ہے۔ پسند نہیں آتی تو بلاک کریں، اگنور کریں یا پھر اتنی ہی نیک پروین ہیں تو فیس بک میں ”ڈی ایکٹی ویٹ“ کا بٹن آپ کے لئے خصوصی ڈیزائن کیا گیا تھا۔ مارک زکربرگ کو پتہ تھا کہ آپ زبردستی کیے بغیر ایک ہیلو سے بھی ہراساں ہوتی ہیں۔ خدارا یہ ٹھرک ختم کریں اور خود کی نمائش بھی بند کریں۔ یا پھر سب سے اچھا آئیڈیا یہ ہے کہ میسنجر ڈاون لوڈ ہی نہ کریں۔ انباکس آئے گا ہی نہیں، سیاپا ختم۔