عمران خان حکومت کے لئے اچھی خبر یہ ہے کہ حزبِ اختلاف کبھی بھی اپنے بل بوتے پر اسے نہیں گرا پائے گی۔یہ کوئی پیش گوئی نہیں بلکہ تہتر برس کا پیٹرن یہی ہے کہ حزبِ اختلاف استعمال تو ہو سکتی ہے، اپنی قیمت تو لگوا سکتی ہے، پر حالات کا دھارا اپنے حق میں نہیں موڑ سکتی۔
پچاس کی دہائی میں لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد سات برس میں چھ وزرائے اعظم عوام نے نہیں بلکہ گورنر جنرل غلام محمد ، کمانڈر انچیف و وزیرِ دفاع جنرل ایوب خان اور سیکرٹری دفاع و گورنر جنرل و صدر اسکندر مرزا اور ان کے سیاسی کاسہ لیسوں نے تبدیل کئے۔
اس عرصے میں اٹھنے والی طلبا تحریکیں، لسانی ایجی ٹیشن، مذہبی دنگے اور بائیں بازو کی طاقت کو طالع آزماؤں نے اپنی راہ ہموار کرنے کے لئے نہائیت زیرکی سے استعمال کر لیا۔
اس دور میں بھارت میں مسلسل وزیرِ اعظم رہنے والے پنڈت جواہر لال نہرو کا یہ طنز بے جا نہیں تھا کہ میرے پاس جتنی شروانیاں ہیں ان سے زیادہ پاکستان میں حکومتیں بدل چکی ہیں۔
سن چونسٹھ کے صدارتی انتخابات میں ایک طرف فیلڈ مارشل ایوب خان اور دوسری جانب متحدہ اپوزیشن تھی۔ مگر وہ قائدِ اعظم کی ہمشیرہ کو اپنا چہرہ بنانے کے باوجود ایوب خان کا بال بیکا نہ کر سکی۔
پینسٹھ کی جنگ میں کشمیر پروجیکٹ کی ناکامی، تاشقند میں ہزیمت اور پھر اڑسٹھ کی طلبا تحریک بھی سویلین بالادستی کا خواب پورا نہ کر سکی۔ یہ خواب یحییٰ خان نے ایوب خان سے استعفی رکھوا کے راستے میں ہی اچک لیا۔
اکہتر کی جنگ میں شکست کے بعد بھٹو حکومت کو جو انتقالِ اقتدار ہوا وہ کسی سویلین دباؤ کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ فوج کے اندرونی دباؤ نے یحیی خان کو ترکِ اقتدار پر مجبور کیا۔
ستتر میں بھٹو کے خلاف تحریک بے ساختہ نہیں انجینرڈ تھی لہذا یہ تحریک بھی پکے ہوئے پھل کی طرح جنرل ضیا الحق کی جھولی میں جا گری۔ ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم سے ضیا حکومت کے خاتمے کے لئے دو بھرپور سویلین کوششیں ہوئیں مگر چونکہ ان کوششوں کو اسٹیبلشمنٹ کے کسی بھی دھڑے کی حمائیت حاصل نہیں تھی لہذا ان کا مقدر ناکامی ٹھہرا۔
ضیا دور سے مشرف کے آنے تک یکے بعد دیگرے جن تین وزرائے اعظم کی پانچ حکومتیں آئیں اور گئیں وہ سڑک کے ایجی ٹیشن نے تبدیل نہیں کروائیں بلکہ محلاتی منصوبہ بندی کی بھول بھلیوں میں گم ہو گئیں۔
پرویز مشرف کا کوئی سویلین تب تک بال بیکا نہ کر سکا جب تک انہوں نے خود عدلیہ سے جھگڑا مول کے سیاسی و انتظامی ہارا کاری نہیں کر لی۔ تین وزرائے اعظم مشرف دور میں آئے اور چلے گئے ۔چوتھے سے بھی معاملہ پٹ جاتا مگر حالات نے مشرف کو پیٹ ڈالا۔
زرداری نے تنے ہوئے رسے پر چلتے ہوئے اور ممنون حسین نے نہایت ممنونیت کے ساتھ بطور سویلین صدر پانچ برس ضرور پورے کئے۔ مگر کوئی وزیرِ اعظم آج تک یہ جادوئی لکیر عبور نہ کر سکا۔ نواز شریف عمران خان کے دھرنے سے نہیں بلکہ دھرنے، پانامہ اور ڈان لیکس کے لیف رائٹ سنٹر پنچ منہ پر پڑنے سے ناک آؤٹ ہوئے ۔
لہذا جب تک چھوٹی بیگم پیا کی منظورِ نظر ہے۔ حزبِ اختلاف جتنا بھی بدبدا لے یا بھوت بن کے ڈرا لے چھوٹی بیگم کی جوتی کی نوک پر۔
حزبِ اختلاف کو عوام کا درد تھوڑا ہے۔ حزبِ اختلاف کا مسئلہ بس اتنا ہے کہ چھوٹی بیگم پر ہی سارا کرم کیوں؟ آخر ہم بھی تو کبھی جوان تھے حسین تھے اور کل تک آپ ہم پر بھی جان چھڑکتے تھے۔ آج کیا ہم اتنے برے ہو گئے؟
حزبِ اختلاف کے پاس ویسے بھی کیا ہے سوائے دوپٹہ پھیلا کے سلیکٹڈ کوسنے دینے کے؟
جب تک موجود حکومت اسی طرح خود کو چوکی چولہے تک محدود رکھے گی اور دن بھر حزبِ اختلاف سے پچھلی گلی کے دروازے پر کھڑی ہو کر ہاتھ لمبے کر کر کے لڑنے کے بعد بھی شام کو بناؤ سنگھار کر کے ” ان کا ” انتظار کرتی رہے گی اور منہ سے “ان کا” نام لینے کے بجائے “اجی سنئے” پکارتی رہے گی تب تک حزبِ اختلاف کا باپ بھی اس من چاہی حکومت کی راہ کھوٹی کرنے کی جرات نہیں کر سکتا۔
سدا سہاگن رہو سدا سکھی رہو ، دودھوں نہاؤ پوتوں پھلو۔۔۔