اکثر لوگوں کے لیے ان کا سمارٹ فون دنیا تک رسائی کا ذریعہ ہوتا ہے۔ لیکن اگر یہ دوسروں کے لیے آپ کی نجی زندگی میں گھسنے کا ذریعہ بن جائے تو کیا ہو۔
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ کی جیب میں ایک جاسوس بیٹھا ہوا ہے۔
تصور کریں کہ اگر ہیکر آپ کے فون پر جاسوسی کا سافٹ ویئر لگا دیں جس سے انھیں ہر چیز تک رسائی حاصل ہو جائے بشمول انکرپٹڈ پیغامات یہاں تک کہ وہ آپ کے مائیکرو فون اور کیمرے کو بھی استعمال کر سکیں۔
یہ اتنا بھی مشکل نہیں ہے جتنا آپ کو لگ رہا ہے اور ہم نے ایسے ٹھوس شواہد دیکھے ہیں جن کے مطابق دنیا بھر میں صحافیوں، کارکنوں اور وکیلوں کے کام کی نگرانی کرنے کے لیے ایسے سافٹ ویئر کا استعمال کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
آپ کا فون آپ کی شخصیت کے بارے میں کیا کہتا ہے؟
واٹس ایپ جاسوس ایران پر کیوں نظریں گاڑے ہوئے ہیں؟
بلو ٹوتھ آن رکھا تو معلومات چوری ہو سکتی ہیں
لیکن یہ کون کر رہا ہے اور کیوں؟
اس ممکنہ جاسوس سافٹ ویئر کا کیا کیا جاسکتا ہے جو ہماری جیبوں میں موجود ہے؟اتنا مضبوط سافٹ ویئر کہ اسے ایک ہتھیار کا درجہ دیا گیا ہے۔
مائیک مرے سان فرانسسکو کی لُک آؤٹ نامی کمپنی میں سائبر سکیورٹی کے ماہر ہیں۔ یہ کمپنی فون اور ڈیٹا کی حفاظت کے لیے حکومتوں، کاروباری کمپنیوں اور صارفین کی مدد کرتی ہے۔
مائیک مرے سمجھاتے ہیں کہ اب تک تیار کیا جانے والا سب سے مؤثر جاسوس سافٹ ویئر کس طرح کام کرتا ہے۔ یہ سافٹ ویئر اتنا طاقت ور ہے کہ اسے ایک ہتھیار قرار دیا گیا ہے۔ اسے سخت شرائط کے ساتھ فروخت کیا جاتا ہے۔
’اس سافٹ ویئر کا آپریٹر آپ کو آپ کے جی پی ایس سے ڈھونڈ سکتا ہے۔ وہ آپ کے فون کا مائیکرو فون اور کیمرہ کسی بھی وقت کھول سکتے ہیں اور جو کچھ بھی آپ کے ارد گرد ہو رہا ہے اسے ریکارڈ کر سکتے ہیں‘۔
مائیک مرے نے مزید بتایا کہ یہ سافٹ ویئر آپ کے تمام سوشل میڈیا ایپس تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔
’یہ آپ کی تمام تصاویر، کانٹیکٹس، کیلینڈر کی معلومات، ای میل اور ہر دستاویر جو آپ کے پاس ہے چرا سکتا ہے۔‘
ان کے مطابق ’یہ آپ کے فون کو باقاعدہ طور پر ایک ایسے آلے میں تبدیل کر سکتا ہے جس کے ذریعے سب کچھ سنا جا سکتا ہے، وہ آپ کو ڈھونڈ سکتے ہیں اور جو کچھ بھی آپ کے فون میں ہے اسے حاصل کرسکتے ہیں‘۔
مائیک مرے کے مطابق ’جاسوس سافٹ ویئر تو کئی برس سے موجود ہے لیکن اس سافٹ ویئر کی وجہ سے ہم ایک نئی دنیا میں داخل ہو رہے ہیں۔‘
میکسیکو کے ڈرگ لارڈ کی گرفتاری
میکسیکو کے ڈرگ لارڈ ال چاپو کی اربوں ڈالر کی سلطنت تھی۔
جیل سے بھاگنے کے بعد وہ چھ مہینے تک مفرور رہے۔ انھیں اس دوران اپنے انتہائی مؤثر اور وسیع نیٹ ورک کی بھرپور مدد حاصل رہی۔ وہ اپنے انکرپٹڈ فون کے ذریعے اپنے ساتھیوں سے رابطہ کرتے تھے۔ ان کے فون کے بارے میں خیال تھا کہ اسے ہیک کرنا تقریباً ناممکن ہے۔
لیکن یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ میکسیکو کے حکام نے ایک جدید جاسوس سافٹ ویئر خریدا اور کسی طرح وہ ال چاپو کے قریبی لوگوں کے فون میں یہ سافٹ ویئر لگانے میں کامیاب ہو گئے۔ اس طرح وہ اس جگہ پہنچنے میں کامیاب ہوئے جہاں ال چاپو چھپا ہوا تھا۔
ال چاپو کا پکڑا جانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس قسم کا سافٹ ویئر دہشتگروں کے خلاف لڑائی میں ایک انتہائی موثر ہتھیار کے طور پر استعمال ہو سکتا ہے۔
لیکن کیا اس بات کا خطرہ بھی ہے کہ حکومتیں جس سے بھی ناراض ہوں اس کے خلاف یہ استعمال ہو سکتا ہے؟
برطانوی بلاگر کو نشانہ بنایا گیا
روری ڈوناگی نامی بلاگر مشرقِ وسطیٰ کا ایک انسانی حقوق کا گروپ اور ویب سائٹ چلاتے ہیں۔
وہ متحدہ عرب امارات میں مزدوروں سے بدسلوکی اور سیاحوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کی رپورٹنگ کر رہے تھے۔
روری ڈوناگی کو صرف چند سو افراد ہی پڑھتے تھے اور ان کی شہ سرخیاں روزانہ چھپنے والی سرخیوں سے زیادہ سخت نہیں ہوتی تھیں۔
انھوں نے جب نیوز ویب سائٹ ’مڈل ایسٹ آئی‘ کے لیے کام کرنا شروع کیا تو انھیں نامعلوم لوگوں کی عجیب سی ای میل آنا شروع ہو گئیں جس کے ساتھ لنک بھی تھے۔
روری نے ایک مشتبہ ای میل ’سٹیزن لیب‘ نامی تحقیقی گروپ کو فارورڈ کر دی۔ یہ گروپ یونیورسٹی آف ٹورونٹو میں قائم ہے اور صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف ڈیجیٹل جاسوسی کے غلط استعمال کی تفتیش کرتا ہے۔
انھوں نے تصدیق کی کہ لنک کا مقصد اس کے فون پر مالویئر ڈاون لوڈ کروانا تھا لیکن اِس کے ساتھ یہ بھی معلوم کرنا تھا کہ ان کے پاس کون سا اینٹی وائرس ہے تا کہ مالویئر کو ڈھونڈا نہ جا سکے۔ یہ بہت ماہرانہ کام تھا۔
جو لوگ روری کو یہ ای میل بھیج رہے تھے ان کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ سائبر جاسوسی کرنے والی ایک کمپنی ہے جو متحدہ عرب امارات کی حکومت کے لیے کام کر رہی تھی۔ یہ کمپنی ایسے لوگوں کی نگرانی کر رہی تھی جن کے بارے میں متحدہ عرب امارات کی حکومت کا خیال تھا کہ وہ انتہا پسند ہے اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔
نشانہ بننے والا صحافی
اکتوبر 2018 میں صحافی جمال خاشقجی استنبول میں سعودی عرب کے سفارتخانے میں داخل ہوئے لیکن کبھی واپس نہیں آئے۔ خیال ہے کہ انھیں سعودی حکومت کے اہلکاروں نے قتل کر دیا۔
خاشقجی کے ایک دوست عمر عبدالعزیز کے مطابق ان کا فون سعودی حکومت نے ہیک کیا تھا۔
عمر کو یقین ہے کہ اس ہیکنگ نے جمال خاشقجی کے قتل میں اہم کردار ادا کیا۔ عمر اور خاشقجی فون پر اکثر سیاست اور مشترکہ منصوبوں کے بارے میں گفتگو کرتے تھے۔
سعودی حکومت کو کافی عرصے تک ان دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو اور ان دستاویزات اور فائلز تک رسائی حاصل رہی جو یہ دونوں ایک دوسرے کو فون پر بھجواتے تھے۔
سعودی حکومت اس الزام سے انکار کرتے ہوئے کہتی ہے کہ موبائل فون کو ہیک کرنے والا سافٹ ویئر دستیاب ہے لیکن ایسے کوئی شواہد نہیں کہ سعودی حکومت کا اس سے کوئی تعلق ہے۔
اس طرح کا جاسوس سافٹ ویئر بنانے والوں کے پاس اسے برآمد کرنے کے لیے مخصوص لائسنس کا ہونا ضروری ہے جو دفاعی معاہدوں کے لیے ہوتا ہے۔ اس سافٹ ویئر کو صرف اسی صارف کو بیچا جا سکتا ہے جو اسے صرف انتہائی خطرناک جرائم پیشہ افراد کو روکنے کے لیے استعمال کرے۔
لیکن ’سیٹیزن لیب` نے اس سافٹ ویئر کو خریدنے والی حکومتوں کی جانب سے اس کے غلط استعمال پر ایک پورا ڈوسیئر تیار کیا ہے۔
تو کیا یہ سافٹ ویئر بنانے والے بھی ذمہ دار ہیں؟
دوسرے ہتھیار جیسے بندوقیں وغیرہ سے مختلف طور پر اس سائبر ہتھیار کو بنانے والے اس کی فروخت کے بعد بھی اس کی سروس اور اسے چلانے کے لیے اپنی خدمات دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے غلط استعمال کے وہ بھی ذمہ دار ہیں۔
اس شعبے میں این سی او گروپ نامی ایک اسرائیلی کمپنی ایک بڑا نام ہے۔ یہ کمپنی گزشتہ ایک دہائی سے کام کر رہی ہے اور ہر سال اربوں ڈالر کماتی ہے۔
این سی او نے انٹرویو کے لیے ہماری درخواست مسترد کر دی لیکن ایک بیان میں کہا کہ اس کی ٹیکنالوجی لائسنس یافتہ حکومتی ایجنسیوں کو ایسی صلاحیت فراہم کرتی ہیں جس کی انھیں سنگین جرائم کی تحقیق میں ضرورت ہوتی ہے اور اس کے ذریعے قیمتی جانوں کو بچایا گیا ہے۔
عبدالعزیز کے وکیل ان کے دوست کا فون ہیک کرنے کے الزام میں اس کمپنی پر مقدمہ دائر کر رہے ہیں۔ یہ مقدمہ اس لیے اہم ہے کہ اس کا فیصلہ یہ طے کرے گا جاسوس سافٹ ویئر بنانے والی کمپنیوں کا اسے بیچنے کے بعد کیا کردار ہوتا ہے۔
اس دوران وکیل کو واٹس ایپ پر پراسرار کالیں آنا شروع ہو گئی ہیں۔