بالی وڈ میں ’ہیروئن محض سیکس سمبل


بیگم پارہ – 1943

فطرت کا اصول ہے کہ عمر کے ساتھ چیزیں ڈھلنے لگتی ہیں مگر ہندوستانی سنیما کی صنعت سو سال کی ہونے کے باوجود روز بروز جوان ہوتی جا رہی ہے۔ 1913ء  میں دادا صاحب پھالكے کی خاموش فلم ’راجا ہریش چندر‘ سے انکھیں کھولنے والا ہندوستانی سنیما اپنی سو سالہ تاریخ مکمل کر چکا ہے۔ ان سو برسوں میں ہندوستانی سنیما مختلف قسم کی تبدیلیوں سے ہمکنار ہوا ہے۔ جو بات نہیں بدلی وہ ہے اداکاراؤں کو پیش کرنے کا انداز۔

شاید اداکاراؤں کو صرف ایک خوبصورت شے کی طرح پیش کرنے کے تصور کے پیش نظر ہی زیادہ تر فلموں میں انہیں کم اور ہیجان انگیز لباس میں دکھایا گیا اور یہ سلسلہ آج بھی برقرار ہے۔ بی ڈی گرگا نے اپنی کتاب ’سو میني سینماز: دی موشن پکچر ان انڈیا‘ میں لکھا ہے کہ 1921 میں پیش کی جانے والی فلم ’ستی انسويا‘ میں پہلی بار کوئی برہنہ منظر دکھایا گیا تھا۔ اس میں سكينہ بائي نام کی ایک اداکارہ کو مکمل طور پر برہنہ دکھایا گیا تھا۔

بہرحال اس کتاب میں بیان اس حقیقت کو فلمی پنڈت اور ناقد جے پرکاش چوكسے تسلیم نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں: ’اس بارے میں مجھے کوئی معلومات نہیں ہے لیکن یہ ممکن ہے کیونکہ 1918ء میں جب برطانوی حکومت نے بھارت میں ’سینسر شپ ایکٹ‘ نافذ کیا تو اس وقت اس ایکٹ میں صرف ایک دفعہ تھی کہ وطن پرستی کا پیغام دینے والی فلموں کو روک دیا جائے۔ عریانی اور بوسے کے خلاف اس ایکٹ میں کوئی دفعہ نہیں تھی۔‘

چوكسے کے مطابق 1922ء میں آنے والی فلم ’شوہر بیوی‘ میں اٹلی کی اداکارہ مینے لي نے کچھ بہت ہی بولڈ مناظر دیے تھے۔ اس کے بعد 1942 میں معروف اداکارہ بیگم پارہ نے ’چاند‘ فلم میں چند پرکشش مناظر فلم بند کروائے تھے۔ چوكسے کہتے ہیں ’بیگم پارہ کی ایک بہت ہی بولڈ تصویر 1943 میں ’لائف‘ میگزین کے سرورق پر بھی آئی۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران فوجی اپنے بنکروں میں بیگم پارہ کی یہی تصویریں اپنی دیواروں پر چسپاں کرتے تھے۔‘

بہر حال ہندوستانی فلموں میں جسم کی نمائش کرنے والی اداکاراؤں کی فہرست بہت لمبی ہے۔ اس فہرست میں آپ بیگم پارہ سے لے کر نلنی جيونت، نرگس، ويجنتي مالا، شرمیلا ٹیگور، بندو، زینت امان، ڈمپل كپاڈيا، سیمی گریوال، منداكني سے لے کر آج کے دور کی کئی اداکاراؤں جیسے نندتا داس، ملکا شیراوت، ایشا گپتا، ودیا بالن اور بپاشا باسو کے نام شامل کر سکتے ہیں۔ اس فہرست میں دوسری زبانوں کے علاقائی سنیما کی اداکارائیں بھی شامل ہیں۔

بہر حال ایک سوال جو اکثر کئی لوگ اٹھاتے ہیں وہ یہ کہ کیا فلموں میں اداکاراؤں کو یوں ’سیکس سمبل‘ کے طور پر استعمال کرنا درست ہے؟

ٹی وی اور فلم پروڈیوسر ایکتا کپور نے ’راگنی ایم ایم ایس‘، ’لو سیکس اور دھوکہ‘ اور ’دا ڈرٹي پکچر‘ جیسی فلمیں بنائی ہیں۔ ان کا کہنا ہے ’جہاں تک فلموں میں عریانی کا سوال ہے ہم ہمیشہ سے یہ سنتے آ رہے ہیں کہ فلموں میں عورتوں کو عیش پسندی اور تلذذ کی چیز کی طرح پیش نہ کریں، ہیروئن کو کم کپڑوں میں نہ دکھائیں۔ جو لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں میں ان سے یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ جب جان ابراہم اپنے کپڑے اتارتے ہیں تو کسی کو کوئی اعتراض کیوں نہیں ہوتا؟‘

انھوں نے ہندوستانی سینما کے سو سال کے جشن کے سلسلے میں ایک پروگرام کے دوران بات کرتے ہوئے اپنی فلم ’دا ڈرٹي پکچر‘ کے بارے میں کہا ’جب ہم نے یہ فلم بنائی بہت سے لوگوں نے ہم سے یہ کہا کہ آپ کس طرح ایک عورت کی جنسیت کو اس طرح دکھا سکتی ہیں۔ مجھے پتا تھا کہ اس فلم کو بنا کر مجھے زبردست نقصان ہو سکتا ہے لیکن پھر بھی میں نے یہ فلم اس لیے بنائی کیونکہ میں چاہتی تھی کہ سماج عورت کی جسمانی ضروریات کے بارے میں بھی سوچے اور عورت کو صرف اپنے عیش کا سامان نہ سمجھے۔‘

بہر حال کچھ فلمساز اس کے بارے میں یہ دلیل دیتے آئے ہیں کہ وہ تو اپنی فلموں میں وہی دکھاتے ہیں جو ناظرین دیکھنا چاہتے ہیں۔ فلموں میں عورت کو کس طرح پیش کیا جائے اس بات پر بحث اور اختلاف شاید ہمیشہ رہے لیکن یہ سوال بھی ہمیشہ اٹھے کہ فلموں میں اداکاراؤں کو فحش انداز میں پیش کرنا ٹھیک ہے یا نہیں۔ شاید فلمساز اسے اپنی فنکارانہ آزادی کہیں۔

لیکن یہ سوال شاید اب بھی برقرار ہے کہ کیا فنکارانہ آزادی کے نام پر کچھ بھی کرنا یا دکھانا درست ہے؟ شاید اس کا جواب اگلے سو سال میں بھی نہ مل سکے۔

(محسن وقار علی)