جولائی 1969 میں جب چاند کی سرزمین پر انسان نے پہلی مرتبہ قدم رکھا تو یہ منظر دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں نے براہ راست دیکھا تھا، لیکن آج بھی دنیا میں کئی ایسے لوگ موجود ہیں جن کا اصرار ہے کہ انسان نے چاند پر کبھی قدم نہیں رکھا۔
امریکہ کے خلائی ادارے ناسا کے مطابق آج بھی جب سروے کرائے جاتے ہیں تو تقریباً پانچ فیصد امریکی کہتے ہیں کہ چاند پر انسان کے اترنے کی خبر جھوٹ تھی۔
اگرچہ ان افراد کا تناسب بہت کم ہے لیکن یہ تعداد سازشی مفروضوں کو زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔
چاند پر اترنے والی ’افواہ‘
وہ لوگ جو چاند پر انسان کے اترنے والی بات کو محض ایک افواہ یا مذاق سمجھتے ہیں، ان کا بڑا استدلال یہ ہے کہ 1960 کے عشرے میں امریکہ کے خلائی پروگرام کے پاس ایسی کوئی ٹیکنالوجی موجود ہی نہیں تھی جس سے چاند پر پہنجا جا سکتا تھا۔
ان لوگوں کا کہنا ہے کہ جب ناسا کو معلوم ہو گیا کہ ان کے پاس ضروری ٹیکنالوجی نہیں ہے تو ہو سکتا ہے ناسا نے چاند پر پہنچنے کی دوڑ میں محض اپنے حریف سویت یونین کو نیچا دکھانے کے لیے چاند پر اترنے کا ڈرامہ رچا لیا ہو۔
ان لوگوں کے خیال میں چونکہ سوویت یونین اس دوڑ میں امریکہ سے آگے تھا اور وہ چاند کی سطح کا جائزہ لینے کے لیے ایک مشن روانہ کر چکا تھا جو کریش کر گیا تھا، اس لیے امریکہ کے لیے ضروری ہو گیا تھا کہ جلد از جلد کچھ ایسا کر دکھائے جس سے وہ ثابت کر سکے کہ وہ اس دوڑ میں سوویت یونین سے آگے نکل گیا ہے۔
اس قسم کے سازشی نظریات اپالو 11 کے زمین پر واپس آتے ہی شروع ہو گئے تھے، لیکن ان مفروضوں کو تقویت اس وقت ملنا شروع ہوئی جب 1976 میں ایک کتاب شائع ہوئی جس کا عنوان تھا: ہم چاند پر کبھی نہیں گئے۔
اس کتاب کے مصنف بِل کیسنگ تھے جو کہ ایک صحافی تھے اور ماضی میں ناسا کے لیے کام کرنے والی ایک کمپنی میں تعلقات عامہ کے شعبے سے منسلک رہ چکے تھے۔
اس کتاب میں مصنف نے ایسے بہت سے دلائل دیے جن کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ اپالو 11 کے چاند پر اترنے والی بات محض ایک دھوکہ تھی اور اس منصوبے میں اربوں ڈالر خرد برد کیے گئے۔ بعد میں یہی دلائل ان لوگوں نے استعمال کرنا شروع کر دیے جو چاند پر اترنے کو محض جھوٹ کا پلندہ سمجھتے ہیں۔
ہوا کے بغیر’لہراتا‘ ہوا امریکی پرچم
ان دلائل میں تصویری ’شواہد‘ کی بات بھی کی جاتی ہے۔
اپالو 11 کے کامیاب مشن سے انکار کرنے والے کہتے ہیں کہ چاند کی سطح کی تصاویر کو دیکھیں تو پس منظر میں آپ کو کوئی ستارہ دکھائی نہیں دیتا اور چاند پر ہوا کی غیر موجودگی میں امریکی پرچم لہرا کیسے سکتا ہے۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے خلا بازی کے شعبے سے منسلک محقق مائیکل رِچ کہتے ہیں کہ اس نظریے کو سائنسی بنیادوں پر رد کیا جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پرچم اصل میں لہرا نہیں رہا تھا بلکہ محض لہراتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جب نیل آرمسٹرانگ اور ان کے ساتھی ہوا باز، بزایلڈرن پرچم کو چاند کی سطح پر لگا رہے تھے تو اس پر سلوٹیں پڑ گئیں جن کی وجہ سے ایسا لگتا ہے کہ پرچم لہرا رہا ہے۔
یہ سلوٹیں دور نہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ چاند پر کشش ثقل زمین کی نسبت چھ گنا کم ہوتی ہے۔
’ستاروں سے عاری‘ آسمان
چاند پر اترنے کے واقعے سے انکار کرنے والے اپنے دلائل کے حق میں ایک اور تصویر بھی پیش کرتے ہیں جس کے بارے میں ان کہنا ہے کہ جب چاند گاڑی وہاں اتر رہی تھی تو پس منظر میں اندھیرا ہونے کے باو جود کوئی ستارہ کیوں نہیں دکھائی دے رہا تھا۔
اصل بات یہ ہے کہ انتہائی تاریکی اور تیز روشنی کے ملاپ میں ایسا ہی ہوتا ہے۔
اس کی وضاحت کرتے ہوئے روچسٹر یونیورسٹی کے پروفیسر برائن کوبرلین کہتے ہیں کہ چونکہ سورج کی روشنی چاند کی سطح سے منعکس ہوتی ہے اس لیے ہمیں ان تصویروں میں چاند کے ارد گرد کی فضا انتہائی روشن دکھائی دیتی ہے۔
اس تیز روشنی کی وجہ سے ستاروں کی چمک بہت ماند پڑ جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمیں اپالو 11 کی تصاویر میں ستارے دکھائی نہیں دیتے۔
ستارے نہ دکھائی دینے کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ انتہائی روشن مقام پر ہمیں ستارے کم وقت میں دکھائی نہیں دیتے لیکن اگر آپ وہاں زیادہ دیر کھڑے رہیں تو آپ ستاروں کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔
’قدموں کے نقلی نشان‘
سازشی نظریات کو ماننے والے چاند کی سطح پر خلا بازوں کے قدموں کے نشانات پر بھی سوال اٹھاتے ہیں۔
اس حوالے سے یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ چاند کی سطح پر نمی کا تناسب بہت کم ہوتا ہے، لیکن سطح پر وہ نشان کہاں سے آ گئے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایلڈرن کے جوتوں کے نشان ہیں۔
اس کے جواب میں ایریزونا سٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر مارک روبنسن ایک سائنسی توجیح پیش کرتے ہیں۔
پروفیسر روبنسن بتاتے ہیں کہ چاند کی سطح پر چٹانوں اور گرد کی ایک تہہ پائی جاتی ہے جسے ’ریگولِتھ‘ کہا جاتا ہے۔ یہ تہہ روئی کی طرح بہت نرم ہوتی ہے، اس لیے جب اس پر قدم پڑتا ہے تو وہاں بہت واضح نشان پڑ جاتے ہیں اور چونکہ گرد کے ذرات آپس میں جُڑے ہوتے ہیں، اس لیے قدم ہٹانے کے بعد بھی یہ نشانات واضح دکھائی دیتے رہتے ہیں۔
پروفیسر روبنسن کہتے ہیں کے چاند کی سطح پر خلابازوں کے قدموں کے نشان لاکھوں برس تک یوں ہی قائم رہیں گے کیونکہ چاند کے اردگرد مکمل خلا ہے اور وہاں سے ہوا کا کبھی گزر نہیں ہوتا۔
’شعاعوں سے خلابازوں کی موت کیوں نہیں ہوئی‘
ایک بہت مقبول سازشی نظریہ یہ بھی ہے زمین کے ارد گرد موجود شعاعیں اتنی تیز ہیں کے خلا بازوں کو تو مر جانا چاہیے تھا۔
شعاعوں کی ان پٹیوں کو ’وین ایلن بیلٹس‘ کہا جاتا ہے جو سورج سے نکلنے والی تیز ہواؤں اور زمین کے ارد گرد موجود مقناطیسی لہروں کے آپس میں ٹکرانے سے پیدا ہوتی ہیں۔
امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان خلا بازی کی دوڑ کے ابتدائی عرصے میں سائنسدانوں کو فکر تھی کہ جب یہ شعاعیں خلا بازوں پر پڑیں گی تو ہو سکتا ہے وہ ان کا سامنا نہ کر سکیں۔
لیکن ناسا کا کہنا تھا کہ جب اپالو 11 کو چاند پر بھیجا گیا تو پورے سفر کے دوران خلا باز دو گھنٹے سے بھی کم وقت کے لیے ان شعاعوں کے حصار میں رہے اور ان مقامات پر صرف پانچ منٹ کے لیے موجود تھے جہاں یہ شعاعیں بہت تیز ہو جاتی ہیں۔
سازشی مفروضوں کو رد کرنے والے تصویری شواہد
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حال ہی میں ناسا نے چاند کی سطح پر موجود ان مقامات کی تصویریں بھی جاری کی ہیں جو چاند کے مدار میں بھیجے جانے والے ایک مشن (ایک آر او) نے اتاری ہیں۔
یہ مشن سنہ 2009 سے چاند کے مدار میں گھوم رہا ہے اور اس کی بھیجی ہوئی تصاویر میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ اپالو نام سے بھیجے جانے والے مشن چاند پر کن مقامات پر اترے تھے۔
ان میں سے ایک تصویر اس مقام کی بھی ہے جہاں اپالو 11 اترا تھا اور وہاں پر نہ صرف اس کے نشانات دیکھے جا سکتے ہیں بلکہ چاند گاڑی کے وہ ٹکڑے بھی دیکھے جا سکتے ہیں جن کا واپسی پر کوئی استعمال نہیں تھا۔
ایل آر او سے لیے گئے تصویری شواہد میں وہ پرچم بھی دیکھے جا سکتے ہیں جو اپالو 11 کے عملے کے چھ افراد نے وہاں گاڑے تھے۔
ان میں صرف ایک جھنڈا اب وہاں دکھائی نہیں دیتا اور اس کے بارے میں بز ایڈرن نے چاند سے واپسی پر بتا دیا تھا کہ جب چاند گاڑی نے واپسی کے لیے اڑان بھری تو انجن سے نکلنے والی تیز گرم ہوا سے وہ جھنڈا اکھڑ گیا تھا۔
سوویت یونین نے سازشی مفروضوں کا ساتھ کیوں نہ دیا؟
اگرچہ اب تک سازشی مفروضوں کو کامیابی سے رد کیا جا چکا ہے، لیکن یہ مفروضے اب بھی خاصے مقبول ہیں اور بہت سے لوگ اب بھی ان پر یقین کرتے ہیں۔
لیکن سچ بہرحال یہی ہے کہ اب تک ہمیں اس بات کے اچھے خاصے سائنسی شواہد مل چکے ہیں کہ 20 جولائی 1969 کو واقعی نیل آمسٹرانگ نے چاند کی سطح پر قدم رکھ دیا تھا۔
سازشی مفروضوں کو ماننے والے لوگوں سے اکثر ایک سوال یہ بھی پوچھا جاتا ہے اگر امریکی خلا بازوں کا چاند پر اترنا محض جھوٹ ہے تو اس دوڑ میں شامل سوویت یونین اسے جھوٹ کیوں نہیں قرار دیتا؟
اسی سوال کو دہراتے ہوئے ناسا کے تاریخ کے شعبے کے سابق سربراہ رابرٹ لانئس کہتے ہیں کہ ’اگر ہم چاند پر نہیں اترے تھے اور ہم جھوٹ بول رہے تھے تو سوویت یونین کے پاس ہمارے دعوے کو غلط ثابت کی صلاحیت اور خواہش بھی موجود تھی، لیکن انھوں نے تو کبھی اس بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ ‘
’میرے خیال میں یہ خود میں ایک بہت بڑا ثبوت ہے۔