ڈاکٹر خالد سہیل
خدا ایک راز ہے۔ خدا ایک پہیلی ہے۔۔ ایک شک ہے۔ ایک ایمان ہے۔ ایک تذبذب ہے… ایک یقین ہے۔ ایک گورکھ دھندا ہے۔ ایک معمہ ہے۔ ایک پیچیدہ اور گنجلک سوال ہے۔ کیا آپ نے اس سوال کا تسلی بخش جواب تلاش کر لیا ہے؟
ڈینس آئزک کا شعر ہے
سبب گناہ کے جو پوچھے خدا نے روزِ حساب
جواب تلخ سوالات سے بھی بڑھ کر تھے
ایک ماہرِ نفسیات اور ایک انسان دوست ہونے کے ناطے میں نے اپنی زندگی میں بہت سے لوگوں سے خدا اور مذہب پر سنجیدہ تبادلہِ خیال کیا۔ میں ان کے نقطہِ نظر کے حوالے سے انہیں کئی گروہوں میں بانٹ سکتا ہوں اور آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ آپ کا تعلق کس گروہ سے ہے۔
پہلے گروہ کو پورا یقین ہے کہ خدا موجود ہے اور وہ اس کائنات کا خالق ہے اور اس کائنات سے علیحدہ وجود رکھتا ہے۔ ان کا یہ بھی ایمان ہے کہ روزِ قیامت ان کی اپنے خدا سے ملاقات ہوگی۔ ایسے لوگ اپنے آپ کو یہودی’ عیسائی یا مسلمان کہلوانا پسند کرتے ہیں۔
دوسرے گروہ کو پورا یقین ہے کہ خدا موجود نہیں ہے۔ ان کا موقف ہے کہ خدا نے انسان کو نہیں انسان نے خدا کے تصور کو تخلیق کیا ہے تا کہ جب اسے زندگی میں کوئی مشکل پیش آئے تو وہ خدا سے دعا کر سکے اور مدد مانگ سکے۔ دعا کرنے سے اس کا مسئلہ حل ہو یا نہ ہو اسے کم از کم کچھ ذہنی سکون اور دل کی ڈھارس مل جاتی ہے چاہے وہ عارضی ہی کیوں نہ ہو۔
تیسرا گروہ وہ ہے جو نظریاتی طور پر خدا سے دور لیکن ثقافتی طور پر مذہبی رسومات اور تہواروں کے قریب ہے۔ ایسے لوگ خدا کو نہ مانتے ہوئے بھی عید کی نماز پڑھنے اور محرم کا ماتم کرنے بڑے شوق سے جاتے ہیں۔ اگر آپ ان سے ان کی شناخت پوچھیں تو وہ کہتے ہیں ہم شیعہ دہریہ’ ایتھییسٹ مسلم یا کلچرل مسلم ہیں۔ بعض لوگ ایسی اصطلاحوں کو مجموعہ تضادات سمجھتے ہیں کیونکہ ایسے لوگ ذہنی طور پر خدا سے دور ہونے کے باوجود روایت کے قریب ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ یوں لگتا ہے جیسے مذہب کا نظریاتی حمل ختم ہونے کے بعد بھی ابھی روایت کا جذباتی آنول ان کے اندر باقی ہو۔
چوتھا گروہ وہ ہے جن کی بےیقینی ہی یقین کا درجہ رکھتی ہے۔ کبھی وہ سوچتے ہیں خدا موجود ہے کبھی سوچتے ہیں خدا موجود نہیں ہے۔ کبھی اقرار کرتے ہیں کبھی انکار اور کبھی سوچتے ہیں کہ اگر انکار کردیا اور مرنے کے بعد خدا موجود ہوا تو پھر کیا ہوگا۔۔۔ ؟
پانچواں گروہ وہ ہے جو اس کائنات کو ہی خدا سمجھتا ہے اور قوانینِ فطرت سے علیحدہ کچھ نہیں سمجھتا۔ ان کی نگاہ میں خدا ایک کائناتی شعور ہے جو ہے بھی اور نہیں بھی ہے۔ وہ نظر آتا بھی ہے اور نظر نہیں بھی آتا۔ وہ حاضر بھی ہے اور غائب بھی۔ وہ اس مقام پر ہیں
جہاں ہونا نہ ہونا ہے
نہ ہونا عین ہونا ہے
چھٹا گروہ یہ سمجھتا ہے کہ خدا مادہ یا کوئی ٹھوس حقیقت نہیں بلکہ ایک استعارہ ہے۔ اسی لیے لوگ کہتے ہیں
خدا شہ رگ کے زیادہ قریب ہے
خدا ہمارے دل میں رہتا ہے
خدا وہاں ہوتا ہے جہاں کوئی اور نہیں ہوتا
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہم کسی سے یہ سوال پوچھتے ہیں کہ
کیا خدا موجود ہے؟
تو کیا ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا خدا ایک وجود رکھتا ہے؟ کیا خدا ایک شے ہے؟ IF GOD EXISTS IS HE A THING?
خدا کے وجود کے موضوع پر میں نے جتنے فلاسفروں اور دانشوروں کے مقالوں اور کتابوں کا مطالعہ کیا ہے میرے لیے ان میں سے سب سے زیادہ دلچسپ خیالات شاعر اور دانشور جون ایلیا کے تھے۔ وہ اپنے دیوان۔۔۔ شاید۔۔۔ کے دیباچے میں لکھتے ہیں
‘ دنیا کے کسی فلسفے نے میرے علم کے مطابق آج تک وجود اور موجود کی تعریف کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کی۔ ہم لغوی اور نصابی طور پر وجود کی ایک تعریف کر سکتے ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ وجود کا ایک ہی مترادف بیان کر سکتے ہیں اور وہ ہے ماہیت کا خارج میں ہونا۔ میں اپنے فلسفیانہ مطالعے ’یقیناٌ بیحد محدود مطالعے کے پیشِ نظر’ کہہ سکتا ہوں کہ وجود کی اس کے سوا آج تک کوئی توضیح نہیں کی جا سکی۔ جب ہم کہتے ہیں کہ خدا موجود ہے تو ہم اسے ایک ماہیت قرار دیتے ہیں۔ ہم گفتگو کو بڑھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر موجود شے ہے اور ہر شے موجود ہے۔ شئییت اور وجود ہم معنی ہیں۔ اب ہم کہتے ہیں کہ خدا موجود ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا شے ہے۔ اگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے تو پھر اس کا ایک ہی مطلب ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ خدا لا شے ہے۔ لا شے کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں۔ ایک لاموجود اور ایک یہ کہ وہ موجود جو شے نہ ہو کچھ اور ہو۔ کچھ اور کیا؟ یہی وہ سوال ہے جس کا جواب مابعد الطبیعی فکر کے تمام نمائندوں کو دینا ہے۔ ـ’
‘۔۔۔۔ مجموعی طور پر یہ کائنات ایک واقعہ ہے جو عظیم الشان پیمانے پر متصلاٌ پیش آ رہا ہے۔ وہ شے جو زمانی و مکانی طور پر واقع نہ ہو یا پیش نہ آئے غیر موجود ہوتی ہے۔ خدا زمانی و مکانی طور پر واقع نہیں ہوتا یا پیش نہیں آتا اس لیے وہ غیر موجود ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ کسی مسلمان مفکر نے یہ بات کہی ہے کہ خدا کو ‘موجود’ کہنا اس کی تنزیہہ کے یک سر برخلاف ہے۔ موجود مفعول کا صیغہ ہے اور خدا کے لیے مفعول کا صیغہ استعمال کرنا بدترین مشرکانہ جسارت ہے’
اگر ہم مذہب ’ فلسفے اور سائنس کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں اندازہ ہو گا کہ خدا کے تصور اور وجود کے بارے میں بہت سے دانشوروں نے بہت سے سوالات اٹھائے اور پھر ان سوالات کا جواب دینے کی کوشش کی۔
میکسیکو کے نوبل انعام یافتہ دانشور اوکٹاویو پاز کا موقف ہے کہ خدا اور منطق کی جنگ بہت طویل اور خطرناک جنگ تھی جو موت تک لڑی گئی۔ عیسائی دنیا میں خدا ہار گیا اور فلسفہ اور سائنس جیت گئے اور نیٹشے نے اعلان کر دیا GOD IS DEAD اور مسلمان دنیا میں خدا جیت گیا اور سائنس اور فلسفہ ہار گئے اور آہستہ آہستہ مر گئے اور غزالی نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ جب بھی سائنس اور مذہب۔۔۔ منطق اور خدا۔۔۔ ریاضی اور روحانیات میں تضاد ہو تو وہ خدا’ مذہب اور روحانیت کو گلے لگائیں اور منطق ریاضی اور سائنس کو خدا حافظ کہہ دیں۔ اسی لیے مسلمانوں کی دنیا میں پچھلے ایک ہزار سال سے خدا زندہ ہے اور سائنس اور فلسفہ مر چکے ہیں۔
میں نے اس کالم کا آغاز اپنے شاعر دوست ڈینس آئزک کے ایک شعر سے کیا تھا اور اس کالم کا اختتام بھی ان ہی کے ایک قطعے سے کرنا چاہتا ہوں
آسماں بس میں جو ہوتا تو گھٹا کر دیتا
تیری خاطر میں شرابوں کو فضا کر دیتا
بس کہ یزداں نہ ہوا ورنہ مرے رندِ خراب
میں تجھے اپنے مقابل کا خدا کر دیتا
اب آپ خود اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں کہ آپ کو کتنا یقین ہے کہ خدا موجود ہے؟