وسعت اللہ خان
ابھی کل ہی کی تو بات ہے جب نمازِ جمعہ کے بعد امام صاحب مسلمانانِ عالم کے جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی رقت آمیز دعا کرواتے تھے اور پوری جامع مسجد آمین کی صدا میں ڈوب جاتی تھی۔
دو علاقوں کا دعا میں باقاعدہ نام لیا جاتا تھا، فلسطین اور کشمیر۔ البتہ از قسمِ چیچنیا، افغانستان، اریٹیریا اور بوسنیا وغیرہ وقت و حالات کی نزاکت کے حساب سے دعائیہ فہرست میں کبھی داخل ہو جاتے کبھی خارج۔
جہاں جہاں اپنے ملک کی مذہبی اقلیتوں اور دوست مسلمان ممالک میں سٹیٹ یا نان سٹیٹ ایکٹرز کے مظالم کا نازک مرحلہ آتا تو کسی بالادست ادارے ، طبقے، تنظیم یا خارجہ تعلقات کی نزاکت کو خطرے میں ڈالنے کی کھکیڑ سے بچنے اور خود کو محفوظ رکھنے کے لئے امام صاحب ایک جینرک سی دعا پر اکتفا کرتے۔
جیسے الہی عالمِ اسلام کو متحد ہونے کی توفیق عطا فرما، جہاں جہاں مسلمان آزمائش سے دوچار ہیں ان کے مصائب دور فرما، عالمِ اسلام کے خلاف اغیار کی سازشوں کو نابود فرما، ہمارے درمیان کا نفاق مٹا دے، مانا کہ ہم گنہگار ہیں، غافل ہیں مگر اپنی رحمت کے صدقے ہمیں اگلے جہان میں بلند مقام عطا فرما۔
مگر بات اس سے کہیں آگے نکل گئی ہے۔
ہمارے امام صاحب کے تصور کا عالمِ اسلام کب کا غتر بود ہو چکا۔ چنانچہ مظلومیت کی تعریف بھی بدل گئی ہے۔ اب صرف وہ مسلمان مظلوم ہے جس پر ظلم کرنے والا بھی کنگلا ہے۔ جیسے روہنگیا مسلمانوں پر ظلم توڑنے والی برمی حکومت۔ پاکستان کے نقطہِ نظر سے کشمیر بھارتی مظالم کی تجربہ گاہ ہے مگر دیگر مسلمان ممالک کے نزدیک بھارت ایک بڑی افرادی و اقتصادی مارکیٹ۔
گذشتہ ہفتے جنیوا میں اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 41ویں سالانہ اجلاس کے دوران 22 ممالک نے کونسل کے صدر اور اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے نام ایک خط میں کہا کہ ہمیں چین کے صوبہ سنکیانگ میں اویغور قومیت کے ایک ملین سے زائد مسلمانوں کی کیمپوں میں نظربندی، کڑی نگرانی اور مذہبی رسومات پر پابندیوں کی مصدقہ اطلاعات پر تشویش ہے۔
خط میں کہا گیا کہ انسانی حقوق کے احترام کی بابت چینی حکومت اپنی بنیادی ذمہ داریاں پوری کرے۔ اقوامِ متحدہ کے خصوصی نمائندے کے دورہِ سنکیانگ کے مطالبے پر چین نے جو مثبت رویہ ظاہر کیا ہے ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے مطالبہ کرتے ہیں کہ سنکیانگ کے نسلی و مذہبی حالات کا جائزہ لینے کے لئے اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق سمیت بین الاقوامی مبصرین کی رسائی کو یقینی بنایا جائے۔
جن بائیس ممالک کے سفیروں نے اس خط پر دستخط کئے ان میں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جاپان، کینیڈا، ناروے، آئس لینڈ اور سوئٹزرلینڈ کے علاوہ یورپی یونین کے پندرہ ممالک ( فرانس، بلجیم، جرمنی، آسٹریا، برطانیہ، آئرلینڈ، سپین، لکسمبرگ، ہالینڈ، ڈنمارک، سویڈن، فن لینڈ، ایستونیا، لٹویا، لتھوینیا) کے سفیر بھی شامل ہیں۔ کسی مسلمان ملک نے اس خط پر دستخط نہیں کیے۔
اس کے جواب میں 37 ممالک نے ایک خط کونسل کے صدر کے نام لکھا جس میں انسانی حقوق کے مسئلے کو سیاسی رنگ دینے اور چین نے سنکیانگ میں اویغور مسلمانوں کے لئے جو تعلیمی و پیشہ ورانہ تربیتی مراکز قائم کیے ہیں انہیں بعض ممالک کی جانب سے نظربندی کیمپ یا ری ایجوکیشن کیمپ قرار دینے کی مذمت کی گئی۔
خط میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی و انتہا پسندی کے چیلنج سے نمٹنے کے لئے سنکیانگ کی مقامی آبادی کی پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت کے لئے چینی حکومت کے اقدامات قابِلِ تعریف ہیں۔ ان کے نتیجے میں گذشتہ تین برس کے دوران سنکیانگ میں کوئی دہشت گردانہ کارروائی نہیں ہوئی اور یہاں کے باشندے زیادہ محفوظ اور مطمئن ہیں۔
ہم اس چینی نظریے کی حمایت کرتے ہیں کہ انسانی حقوق کا فروغ بذریعہ ترقی ہی ممکن ہے۔
اس خط پر جن 37 ممالک کے سفیروں نے دستخط کئے ان میں بولیویا، وینزویلا، کیوبا، شمالی کوریا، روس، بیلا روس، ترکمانستان، تاجکستان، لاؤس، کمبوڈیا، میانمار، فلپینز، زمبابوے، انگولا، برونڈی، کانگو، ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو، جنوبی سوڈان، سوڈان، نائجیریا، برکینا فاسو، ٹوگو، کیمرون، گیبون، کوموروز، اریٹیریا، صومالیہ، الجیریا، مصر، شام، قطر، بحرین، کویت، اومان، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور پاکستان شامل ہیں۔
ان 37 ممالک میں سے 20 ملک اسلامی کانفرنس کے رکن ہیں۔