موجودہ دور میں بے انتہاء بڑھتا کمپلیکس کتنے لوگ حقیقت سمجھتے ہیں؟ کیا خود پسندی واقعی مرض بنتا جا رہا ہے؟ کیوں ہر بندہ اپنی زندگی کی فرسٹریشن فیس بک اور ٹویٹر پہ اجنبیوں کو گالیاں دے کر برابر کر لیتا ہے؟ کیا واقعی ہمارے اطراف میں اتنے خوش اور کامیاب لوگ ہیں جتنے ہمیں اپنی ٹی ایل (ٹائم لائن) پر نظر آتے ہیں؟ برداشت کا فقدان اور تنقید کی عادت ان دونوں کا گراف ڈالر کی اڑان کی طرح اوپر ہی اوپر کی جانب کیوں ہے؟ سوشل میڈیا کو نئی نسل میں جدت لانی تھی مگر وہ تو مزید پاتال میں گر گئے؟ ان سب کو سمجھنے کے لئے آئیں پہلے اپنے معاشرے کو سمجھتے ہیں۔
یہاں دو دنیائیں ہوا کرتی ہیں۔ ایک دنیا میں فیشن کے نام پر دن نہیں ہفتے مختص کیے جاتے ہیں۔ بالی ووڈ، ہالی ووڈ کی چمک سے متاثر ہو کر ان کی نقل میں شامیں منعقد کی جاتی ہیں۔ جعلی تاثرات لیے میزبان چندھیاتی روشنی میں اپنی اپنی پسند کے افراد کو ایک بے حیثیت سی ٹرافی پکڑا کر گذشتہ کئی سالوں سے سسکتے سینما کو وینٹی لیٹر پر ڈالنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کے نیٹ فلکس کے دور میں اور وہ بھی ایسے ملک میں جہاں گھر کے سب سے اوسط درجے اور ویلے بچے کو آرٹس کی پڑھائی کروائی جاتی ہے وہاں۔
خیر۔ اپنے دور کی اوسط درجے کی اداکارائیں خود کو کاسمیٹک سرجریز اور میک اپ کی دبیز تہہ تلے چھپا کر ہر صبح گھریلو خواتین کو چہرے پر آم، کدو، کیلے اور سر میں اسٹرابیری، آملہ، چیری ملوا کر ان کے معمولی احساس کمتری کو شدید مایوسی میں بدلتی ہیں۔ کسی کی غمگساری سے بھی پیسے بنائے جا سکتے ہیں تو علی الصبح کسی طلاق شدہ ماڈل یا اداکار کو بلوا کر کیمرے کی جانب دیکھ کر رونے کا اسکرپٹ دیا جاتا ہے۔
دوسری جانب ایک اور دنیا ہے۔ یہاں بھوک اور افلاس کے ڈیرے ہیں۔ تعلیم کا رجحان تو دور اجازت بھی نہیں۔ گھر کے تمام افراد مل کر بھی زندگی کو گھسیٹ رہے ہیں پھر بھی ایک آدھ بچہ انتقال فرما جاتا ہے جس کا کسی کو کوئی خاص غم نہیں ہوتا کیونکہ گھر کی ہی کھیتی ہے۔ گلی گلی کھلے مدرسے کے قاری صاحب یا محلے کے اوباش نوجوانوں کے ہاتھوں سے بچتا، سنبھلتا، رُلتا، پیٹتا ہوا بچپن، جوانی کی دہلیز چڑھتے ہی ایک خواب دیکھا کرتا ہے۔ جب میں باہر ملک جاؤں گا تو وہاں سے سونے کی اینٹیں لاؤں گا اور اس گلی میں سب سے بڑا گھر ہمارا ہو گا۔
ایک دنیا میں مدد کرتے وقت نمائش ضروری ہے تو دوسری میں اپنی حالت نہ بدلنے کا عزم کر کے ہاتھ پھیلانا فرض۔ ایک دنیا بے حد آزاد ہو گئی، ایک بے پناہ قید۔ ایک حدود سے آگے نکل گئی تو دوسری کنویں کے اندر ہی پھنسی رہی۔ ایک نے مذہب کو گالی بنا لیا تو دوسرے نے مذہب کو گولی۔ ایک نے حب الوطنی کو حجت بنا دیا تو دوسری نے غیرت۔
ان دو دنیاؤں کے بیچ کچھ افراد بھی ہیں جنہوں نے کچھ اِدھر کچھ اُدھر سے لے کر اپنی ہی دنیا بنا لی ہے۔ وہ دونوں دنیاؤں کے سامعین، ناظرین اور ناقدین ہیں۔ وہ نچلی دنیا کی جہالتوں پہ لعنت بھیجتے ہیں اور اونچی دنیا کی بے راہ روی پہ۔ وہ زندگی میں کھلی آزادی اور مکمل قید دونوں کے ہی قائل نہیں تو وہ بیچ کا رستہ نکال لیتے ہیں۔ مثلاً انہیں بغیر آستین کی اجازت نہیں، پوری وہ پہننا نہیں چاہتے تو وہ بیچ کا رستہ نکالتے ہیں۔ مکمل مشرقی یا مکمل مغربی دونوں طرز زندگی نہیں گزارنا چاہتے تو دونوں کے ہی ناقد بن جاتے ہیں۔ وہ دونوں دنیاؤں کی مثالیں بھی دیتے ہیں اور دونوں پر لعنت بھی بھیجتے ہیں۔ دونوں سے دور بھی رہنا چاہتے ہیں مگر دونوں کو ’ٹھیک‘ کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔
ان کا ایک پیر اس دنیا میں اور ایک پیر دوسری دنیا میں ہے۔ اس لئے وہ کچھ نہیں کرنا چاہتے۔ انہوں نے بیچ کے رستے تو نکال لیے مگر اپنے جیسے ایک دوسرے کے لئے گنجائش، برداشت، عزت، اپنائیت اور مواقع پیدا نہیں کر پائے اس لیے نفرت، طنز اور تنقید سے کام چلانے لگے۔ مطمین (satisfied) کوئی بھی نہیں بس افراتفری کے عالم میں سب کی کوشش ہے کہ میں آگے نکل جاؤں باقی کسی کا پرسان حال نہ رہے۔
مندرجہ بالا بتائی گئی تمام تلخ حقیقت میں کہیں نہ کہیں ہم بھی فٹ ہوتے ہیں مگر ہم مانیں گے نہیں۔ دوسرے پہ تنقید کرتے ہوئے خود کو اخلاقی احساس برتری میں مبتلا رہنے کی بیماری خطرناک اسٹیج پہ پہنچ چکی ہے۔ سوشل میڈیا پہ آپ کو جب دوسرے کی ٹائم لائن خوشی، ترقی اور سیر و تفریح سے بھرپور نظر آتی ہے تو آپ بھی جواب میں خود کو شادمان و کامران دکھاتے ہیں گو یہ جھوٹ ہی کیوں نہ ہو۔ خود کو یا برتر یا وِکٹم بتا کر آپ لائک اور ریٹویٹ بٹور سکتے ہیں۔
اس شارٹ کٹ سے آپ طویل مدتی سکون حاصل نہیں کر سکتے۔ یہ ایک انتہائی سطحی (shallow ) انداز زندگی ہے جو جلد یا بدیر آپ کو مایوسی اور تنہائی میں مبتلا کر دے گا۔ مسلسل تنقید، طنز اور مذاق اڑانے سے لے کر شدید خود پسندی، دکھاوا اور خوشامد میں رہتے رہتے آپ اپنی ذہنی حالت تباہ کر لیں گے۔ انفلوئنسر، ایکٹیوسٹ، یو ٹیوبر، اسٹار، سیلیبرٹی یہ سب بڑے پرکشش لفاظی ہے اس کے دلدل میں نہ پھنسیں۔ شارٹ ٹرم خوشی، ترقی یا شوق دراصل حقیقت سے آنکھیں چرانے کی افیم ہوتی ہے۔
بصد احترام، سوشل میڈیا کے دور میں حسد اور خود پسندی سے اپنے ہی دل کو جلاتے، بہلاتے مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم اہل وطن نے مثال بندر کے ہاتھ ماچس کو حقیقت ہی بنا دیا ہے۔ یا ہم جنگل کو آگ لگائیں گے یا خود کا ہاتھ جلائیں گے۔
خود کو واقعی مصروف اور پرسکون کرنا چاہتے ہیں تو اس لت کو کنٹرول کریں۔ اصل زندگی اور اطراف کی زندگیوں میں اپنے وقت کو سرمائے کے طور پہ لگائیں۔ خود پسندی کی عادت سے جان چھڑائیں۔ خود کو صحیح کہلوانے کے مرض پر قابو پائیں۔ اگر آج اس fake طرز زندگی سے ڈرنا بند نہیں کریں گے تو بہت جلد ڈپریشن کا شکار ہو جائیں گے۔ واقعات، حادثات، باتیں، معاشرہ، امیج یہ سب کوئی بہت خطرناک چیزیں نہیں بلکہ زندگی کا حصہ ہیں۔ چیزوں کو ہلکا لیں اور خود پر بوجھ نہ بنائیں۔
مسجد کی اینٹوں سے جنت حاصل کرنے کا فارمولا آپ نے خوب سنا ہو گا۔ یہ بلاگ دس کو فارورڈ کر کے خوشی حاصل کرنا بھی سنا ہو گا۔ یہ بھی دراصل ہمیں خودپسندی کا شکار بنانے کی پہلی بنیاد ڈالی جاتی ہے۔ کسی کی مدد خوشخبری کے بجائے اپنی اور اس کی خوشی کے لئے کر کے دیکھیں۔ سارے بوجھ اتر جائیں گے اور دل ہلکا لگنے لگے گا۔ بحث جیتنے کے بجائے سمیٹنا شروع کر دیں، زندگی کے مسائل بھی سمٹنے لگیں گے۔