شاہد وفا
یوں لگتا ہے کہ جیسے جوانی میں بیوہ ہونے والی خاتون کے نصیبوں میں جتنے دکھ خدا لکھتا ہے ان سے کہیں زیادہ اذیتیں یہ معاشرہ خود اپنے ہاتھ سے تحریر کردیتا ہے۔
شوہر کی موت کے ساتھ ہی بیوہ خاتون کے سسرالی رشتے اس کے لیے اجنبی بن جاتے ہیں اور عدت کی مدت مکمل ہونے تک اس کے سسرال میں مزید قیام پر سوال اٹھنے لگتے ہیں۔ زیادہ تر بیوہ واپس اپنے والد کے گھر کی راہ لیتی ہے جہاں اس کے ساتھ ہونے والے سلوک کا تمام تر دارومدار پھر سے اس کی قسمت پر ہی ہوتا ہے۔ والدین زندہ ہوں تو اس بدنصیب بیٹی کو بیوگی کی کڑی دھوپ میں کچھ سایہ میسر آجاتا ہے مگر وہ بھی کب تک؟
بوڑھے والدین کو بھی آخر ایک روز اس دنیا سے چلے جانا ہوتا ہے اور ان کے بعد بیوہ اپنے بھائیوں یا یوں کہیے ان کی بیویوں کے رحم و کرم پر ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ بھائی اپنی بیوہ بہن کے لیے دل میں کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتے۔ مگر انہیں بھی تو اپنی خانگی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانا ہوتا ہے۔ ان کی کوششیں پرخلوص بھی ہوں پھر بھی وہ بیوہ بہن کو وہ سب کچھ نہیں دے سکتے جو اسے اس کا اپنا خاندان فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں نام نہاد سماجی روایات پہاڑ بن کر بیوہ کی راہ میں کھڑی ہوجاتی ہیں۔
”لوگ کیا کہیں گے“ جیسی بے معنی سوچ بیوہ کے لیے نئے خاندانی رشتوں میں بندھنا ناممکن بنا دیتی ہے۔ اگر تو شوہر کی موت ”خوش قسمتی“ سے بچوں کی پیدائش سے پہلے ہو گئی ہو تو نوجوان بیوہ کو کسی نا کسی طلاق یافتہ، رنڈوے یا اس کے باپ کی عمر کے مرد کا ”سہارا“ مل جاتا ہے۔ لیکن اگر اس پر بچوں کی ذمہ داری بھی ہو تو اس خاتون کا پھر سے شادی کے بندھن میں بندھنا معاشرے کے لیے تقریبا ناقابل قبول ہوتا ہے۔ اگر کوئی ”ہمدرد“ اس خاتون سے شادی کی حامی بھر بھی لے تو وہ اس کے بچوں کی ذمہ داری قبول نہیں کرتا اور بچوں کو چھوڑ کے نئے شوہر کے گھر جانا ممتا کو قبول نہیں ہوتا۔ بفرض محال اگر بچوں کا کوئی مناسب بندوبست ہو بھی جائے تو عزیز رشتہ داروں کے طعنے بیوہ کے قدموں میں بیڑیاں ڈال دیتے ہیں۔
”توبہ توبہ۔ بچوں کو چھوڑ کر نیا گھر بسانے چلی ہے۔ کیا زمانہ آگیا ہے“۔
”ہمارے وقتوں میں تو جوان بیوائیں بچوں کی خاطر بڑے بڑے اچھے رشتوں کو ٹھکرا دیتی تھیں۔ اور یہاں دیکھو کیسی آگ لگی ہوئی ہے اسے“۔
”ٹھیک ہے۔ بڑی آزمائش ہے۔ لیکن ہم لوگ اس کی مدد تو کرتے ہی رہتے ہیں۔ قرآن پاک کی تلاوت میں کیوں دل نہیں لگاتی۔ یہ ہر مسئلے کا حل ہے“۔
زیادہ صورتوں میں تو بات یہاں تک پہنچتی ہی نہیں اور بیوہ لڑکی کے اپنے والدین ہی اس کی دوسری شادی کی تجویز کو رد کر دیتے ہیں۔ دلائل ان کے بھی ویسے ہی ہوتے ہیں۔
”خاندان والوں کو کیا منہ دکھائیں گے“۔
”نا بھئی نا۔ بچے رُل جائیں گے“۔
”خدا بڑا مسبب الاسباب ہے۔ وہ خود ہی سب کچھ سنبھال لے گا“۔
زندگی بھلے ہی اجڑ جائے۔ وقت کا پہیہ بہرحال چلتا ہی رہتا ہے۔ خوش قسمتی سے اگر تو وہ پڑھی لکھی ہو تو کسی بہتر روزگار سے وابستہ ہوجاتی ہے۔ بیوہ ہونے کے سبب یہ غیرت مند معاشرہ تاہم اسے ایک آسان شکار سمجھتا ہے اور وہ مسلسل گندی نظروں اور ذومعنی جملوں کو نظرانداز کرتے ہوئے بچوں کی پرورش میں مصروف رہتی ہے۔
ہم لوگ بھلے ہی بیوہ کی نئی شادی ناممکن بنا کر اس کے لیے لیے عمر بھر کی مشکلات کا خاطر خواہ بندوبست کرچکے ہوں۔ لیکن چونکہ صدقہ و خیرات کے معاملے میں ہم خاصا بڑا دل رکھتے ہیں لہذا اکثر و بیشتر عزیزواقارب اور قریبی جاننے والے اس کے ماہانہ اخراجات کا بھی مناسب انتظام کر دیتے ہیں۔
زندگی اپنا سفر جاری رکھتی ہے اور پھر بچے آہستہ آہستہ جوان اور بیوہ بوڑھی ہونے لگتی ہے۔
بچوں کو تعلیم یافتہ یا انہیں روزی کمانے کے قابل بنا کر وہ اپنی کٹھن زندگی کے ایک اور مرحلے میں سرخرو ہوتی ہے اور پھر
ان بچوں کی شادیوں کا وقت آجاتا ہے۔ بوڑھی بیوہ اس فرض کو بھی نبھاتی ہے۔ بچوں کو ان کی زندگی کے ساتھی مل جاتے ہیں اور اس نئے موڑ پر وہ پھر سے اپنے نصیبوں کے حوالے ہو جاتی ہے۔
اولاد فرماں بردار اور بہویں خدمت گزار نکل آئیں تو زندگی میں کچھ آسانی آجاتی ہے۔ کوئی بیٹا مالی لحاظ سے مستحکم ہو تو بوڑھی ماں کو ایک آدھ عمرہ یا حج بھی کروا دیتا ہے اور یہ بھی
سمجھتا ہے کہ اس نے ماں کی قربانیوں کا حق ادا کیا۔
لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ بعض اوقات تنہا زندگی کا بوجھ اٹھانے والی آخری عمر میں اولاد کے ستم بھی اٹھاتی ہے اور پھر آخر ایک دن موت اسے زندگی کے عذاب سے رہائی دلا دیتی ہے۔
اس کم نصیب کو قبر میں اتارتے وقت بہرحال نام نہاد روایتوں کے ٹھیکیدار اس کی عزیمت بھری زندگی کو خراج تحسین ضرور پیش کرتے ہیں۔
”بڑی ہمت والی خاتون تھیں۔ تمام عمر بیوگی کاٹی مگر اپنے وقار پر حرف نہیں آنے دیا“۔
”محترمہ آج کل کی عورتوں کے لیے ایک مثال تھیں“۔
اپنے بعد آنے والی دوسری بدنصیب بیواؤں کے لیے مثال بنتے بنتے تاہم اس عورت نے زمانے کے ہاتھوں جتنے دکھ اٹھائے ہوتے ہیں ان کی داستان اب اس کے ساتھ ہی دفن ہو چکی ہوتی ہے۔
”اسلام نے عورتوں کو ہر طرح کے حقوق دیے ہیں“۔
حقیقت پر مبنی یہ جملہ اٹھتے بیٹھتے ہم زبان سے ادا تو کرتے ہیں لیکن سماجی سطح پر ان حقوق کو کبھی حقدار تک نہیں پہنچنے دیتے۔ یہ حقیقت ہر مسلمان پر عیاں ہے کہ اس کے مذہب میں بیوہ اور مطلقہ خواتین کے ساتھ اچھے سلوک اور ان کی دوسری شادی کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے لیکن کیا ہمارے معاشرے میں عملی طور پر ایسا کوئی تصور بھی موجود ہے؟
مذہبی عقائد کے نام پر ہر لمحہ کٹ مرنے کے لیے تیار معاشرے میں مذہب کی برائے نام پیروی کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوسکتی ہے؟
معاشرتی سطح پر عام پائی جانے والی برائیوں اور نا انصافیوں کی ذمہ داری اس معاشرے کے ہر فرد پر عائد ہوتی ہے۔ لہذا ہم سب کو یہ سوچنا ہو گا کہ جیسی زندگی ہمارے سماج میں ایک بیوہ گزارتی ہے وہ قدیم ہندوستان میں چتا پر آنے والی موت سے کتنی مختلف ہے؟