زیبا شہزاد
گذشتہ شب ”فیس بک گردی“ کرتے ہوئے ایک پوسٹ نظر سے گزری۔ جس میں ایک سے زائد شادیوں کی ضرورت و اہمیت لکھی تھی۔ یہ ایک مراسلہ تھا جس کے ایک دو پوائنٹ مجھے بہت اچھے لگے۔ اس میں متوجہ کرنے والا پوائنٹ یہ تھا کہ ”اچھے مرد پر ایک عورت کا قبضہ درست نہیں“ یعنی اس اچھے مرد پر تا دمِ خرابی متعدد عورتوں کا قبضہ ہوتے رہنا چاہیے۔ اور اگر مرد خراب ہو تو خواتین کو اس سے دور رہنا چاہیے۔ اور اسے سدھارنے کی کوشش ہرگز نہیں کی جانی چاہیے۔
اور دوسرا اہم پوائنٹ ”پہلی بیوی اگر اچھی ہو تو بھی دوسری شادی مستحب ہے“ یہ مردوں کے لئے خوشی کی بات ہے۔ دوسری شادی کرنے میں ویسے تو کوئی ممانعت نہیں نہ شرعی، نہ معاشرتی۔ البتہ پہلی زوجہ کی طرف سے کھڑے کیے گئے مسائل یا پھر محدود معاشی وسائل آڑے آسکتے ہیں۔ شرع اور معاشرہ دونوں کو دوسری شادی بلکہ تیسری اور چوتھی شادی سے بھی کوئی مسئلہ نہیں۔ دوسری شادی کا مثبت پہلو جو نکلتا ہے وہ یہ کہ ایک اور خاتون اپنے گھر کی ہوجاتی ہے۔
پہلی بیوی اگر اچھی ہے تو بھی انسان کو خوب سے خوب تر کی تلاش جاری رکھنی چاہیے۔ ویسے تو اسلام میں چار کی اجازت ہے۔ لیکن کچھ مرد ایک شادی کے بعد ہی شادی کے نام سے پناہ مانگنے لگتے ہیں۔ ایسے لوگ خود تو شادی کا لڈو کھا لیتے ہیں لیکن دوسروں کو اسے چکھنے سے روکتے رہتے ہیں۔ یوں ان کی باقی ماندہ زندگی دوسروں کو یہ بتانے میں گزر جاتی ہے کہ شادی نہ کرنا یارو پچھتاؤ گے ساری لائف۔ کچھ لوگوں کو شادی کا اس قدر جنون ہوتا ہے کہ وہ عین عالم شباب میں ہی ”جہاد“ پر نکل پڑتے ہیں اور موج مستی کے دنوں ہی میں آزادی کو خیر باد کہہ کر زوجہ کی قید میں رہنا پسند کرتے ہیں۔
جبکہ کئی مردوں کے ارمان ہر بیگانی شادی میں پھر سے جاگ اٹھتے ہیں۔ اور ان کی دوبارہ دولہا بننے کی خواہش وقفے وقفے سے جاگتی رہتی ہے۔ ایسے شوخے مرد آپ کو ہر شادی میں دولہا کو نکاح نامے پر دستخط کرواتے نظر آئیں گے۔ یہ وہ عبداللہ ہوتے ہیں جو ہر شادی میں دیوانہ ہوتا ہے۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ایسے خوشی کے ماحول میں کسی حسینہ کی نگاہوں میں سماجائیں۔ لیکن جب کوئی حسینہ ان پر فریفتہ نہ ہو تو یہ حسینہ کی مہ جبین اماں کی نظروں میں سمانے کی کوشش کرتے ہیں کہ شاید وہ ہی انھیں اپنی فرزندی میں لینے کی رضامندی ظاہر کردے۔
بظاہر وہ بیوی کے گھورنے سے وہ گھبرا جاتے ہیں لیکن دل سے ارادے کے پکے ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ شادیوں کے اس قدر شوقین ہوتے ہیں کہ پہلی شادی کے فوری بعد دوسری شادی کر لیتے ہیں۔ لیکن یہ رعایت صرف مردوں کے لئے ہے۔ کہ دوسری شادی کے لئے خواتین کے لئے کچھ شرعی پابندیاں ہیں۔ یوں تو شادی کسی بھی عمر میں کی جا سکتی ہے۔ پہلی شادی کرنے کے لئے تو بالغ ہونے کی شرط ہے لیکن دوسری شادی کے لئے عمر کی کوئی حد مقرر نہیں۔ اس کے لئے بس پہلی شادی شرط ہے۔
یعنی بات بس پہلا قدم اٹھانے کی ہے۔ اکثر مرد دوسری شادی بالکل یوں چھپا کر رکھتے ہیں جیسے بڑے لوگ اپنا سرمایہ سوئس بینکوں میں۔ یا پھر یوں کہہ لیں دوسری شادی زیادہ تر ایسے خفیہ رکھی جاتی ہے جیسے نواز شریف نے ایون فیلڈ میں فلیٹس رکھے تھے۔ گھر کی سپریم کورٹ ( بیوی ) کو ان کا کھلا چیلنج ہوتا ہے کہ اسے ثابت کر کے دکھاؤ تو مانوں۔ یوں مانیے دوسری شادی نہ ہوئی العزیزیہ مل ہو گئی کہ پہلی بیوی کو اس کی منی ٹریل (نکاح نامہ) ڈھونڈنے پہ لگا دو۔
کئی لوگوں کی دوسری شادی نہ ناجائز تجاوزات کی طرح ہوتی ہے جس کا پہلی بیوی کے دباؤ اور اثر و رسوخ کی بناء پہ ٹوٹنے کا خدشہ ہر وقت رہتا ہے۔ شادی کی ضرورت و اہمیت سے انکار تو کسی صورت نہیں کیا جا سکتا۔ پہلی بیوی کی موجودگی میں کی جانے والی زیادہ تر شادیاں صیغہ راز میں رکھی جاتی ہیں۔ لیکن یہ راز زیادہ دیر راز رہ نہیں پاتا کہ اس راز سے پردہ اٹھانے والے دنیا میں آجاتے ہیں۔
ایک سے زائد شادیوں کی اہمیت یقینا مردوں کے لئے ہے۔ کہ انھیں متعدد بار دولہا بن کے وی آئی پی پروٹوکول ملتا رہتا ہے۔ تاہم خواتین کے لئے یہ سنجیدہ مسئلہ ہے کہ ایک مرد تو متعدد بار دولہا بن کے خوشی محسوس کر لیتا ہے لیکن خواتین اس عمل سے بار بار گزرنا پسند نہیں کرتیں۔ سو وہ ایک ہی مرد کو جیسا بھی ہے یہی حرف آخر ہے کی بنیاد پر قبول کر کے خوش رہتی ہیں۔ اور گلے پڑا ڈھول خوشی سے بجاتی رہتی ہیں۔ البتہ مردوں کو دوسری شادی کرنے کا فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ان کے حق ملکیت میں دو بیویاں لکھ دی جاتی ہیں۔
کچھ مرد ڈرتے پہلی بیوی سے ہیں لیکن مانتے دوسری بیوی کی ہیں۔ میں ایک عورت ہوں اور کبھی نہیں چاہوں گی کہ میرا شوہر دوسری شادی کرے۔ میں کیا کوئی بھی عورت نہیں چاہتی کہ اس کا شوہر دوسری شادی کرے۔ چاہے وہ خود شوہر کا جینا حرام کیے رکھے۔ لیکن شوہر کی دوسری شادی کی راہ میں رکاوٹ بن کے اپنا جینا حلال ہی رکھنا چاہتی ہیں۔ یہ شوہر کے آگے دوسری شادی نقصانات بالکل اسی طرح بیان کرتی ہیں جیسے بھائی کے آگے دوسری شادی کے فوائد۔
لیکن ہر بھابھی کے یہ ارمان ضرور ہوتے ہیں کہ اس کی نند پہ سوتن ضرور آئے۔ اور یہی صورتحال دوسری طرف بھی ہوتی ہے۔ یعنی بہنیں بھی نک چڑھی بھابھی کو نیچا دکھانے کے لئے اکثر و بیشتر بھائی کو دوسری شادی کا مشورہ دیتی رہتی ہیں۔ اور اکثر خوشی غمی والے گھر میں دوسری بھابھی تلاش کر رہی ہوتی ہیں۔ اکثر دو فریقین (میاں بیوی ) کی لڑائی میں تیسری فریق (ساس) کے ارمان پورے ہوجاتے ہیں۔ اکثر بہنیں بھائی کو دوسری شادی کے نہ صرف مشورے دے رہی ہوتی ہیں بلکہ لڑکی دیکھنا بھی شروع کر دیتی ہیں۔
ایسا ہی کچھ منظر میرے ساتھ والے گھر میں چل رہا ہے۔ میرے ساتھ والے گھر میں ساجد صاحب ان کی بیوی اور دو بچے رہتے ہیں۔ وہ صاحب ”ضرورت سے زیادہ“ بھلے مانس ہیں۔ ان کی شادی کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ لیکن ان کی لڑائی سن کر لگتا ہے کہ وہ لوگ صدیوں سے ساتھ رہ رہے ہیں۔ وہ دونوں شیر کی مانند دھاڑتے ہیں اور راز و نیاز میں کیے محبت کے پیمان لڑائی کے دوران خوب کھولتے ہیں۔ کبھی کبھی ان کے ہاں لاتوں اور گھونسوں کا اسّتعمال بھی ہوتا ہے لیکن یہ استعمال صرف ایک نہیں بلکہ دونوں فریق کرتے ہیں۔
اگر ساجد صاحب ایک ہاتھ رسید کرتے ہیں تو دوسرا ہاتھ ان کی بیگم استعمال میں لاکر اپنا جوہر دکھاتی ہیں۔ اس معاملے میں ساجد صاحب کی بیوی کا عاجزانہ بیان پورے محلے میں مشہور ہے کہ اگر مخالف فریق تگڑا ہو تو خود کو ہرگز کمزور ثابت نہیں کرنا چاہیے۔ اور وہ جو بھی کرتی ہیں اپنے دفاع میں کرتی ہیں۔ وہ دونوں ہمیشہ پوری تیاری کے ساتھ اگلے مورچوں پر لڑتے ہیں۔
لڑائی کے دوران گھر کا دروازہ کھولنا بالکل نہیں بھولتے۔ ساجد صاحب کی بیاہی بہن ان کی اس لڑائی سے بہت عاجز ہے لہذا وہ بھائی کے سُکھ کی خاطر ان کی دوسری شادی کروانا چاہتی ہیں۔ ساجد صاحب بہن کی اس حمائیت سے بہت خوش ہیں۔ اور پہلی بیوی کی بد مزاجی سے دلبرداشتہ ہو کرانھوں نے تمام امیدیں دوسری بیوی سے وابستہ کر لی ہیں۔ اور اس کے لئے انھوں نے اس پہ کام بھی شروع کر دیا ہے تاکہ دوسری شادی کی نوبت جلد آسکے۔
یعنی پہلے وہ ہفتے میں ایک بار لڑتے تھے لیکن اب ہفتہ میں تین بار یہ نوبت آجاتی ہے۔ یہ لوگ پورے محلے کے لئے انٹرٹینمنٹ کا کام کررہے ہیں۔ ساجد صاحب کی مونچھوں کے تاؤ اور ہر چار دن بعد رنگے جانے والے بال دیکھ کر لگتا ہے کہ انھوں نے شیروانی بھی سلوالی ہے بس وہ مناسب موقع کے انتظار میں ہیں۔ اور وہ موقع دیکھ کر دوکا لگا نا چاہتے ہیں۔ کہ چوکا لگا نے کے لئے تین کا ہندسہ عبور کرنا ضروری ہے۔ سو وہ فی الحال دوکا ہی لگائیں گے۔
اگر ساجد صاحب کی بہن ان کی شادی کروانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں تو سب سے پہلا فائدہ ساجد صاحب کو ہوگا کہ ان کے حق ملکیت میں ایک اور بیوی کا اضافہ ہو جائے گا۔ جبکہ دوسرا فائدہ بھی ساجد صاحب ہی کو ہوگا کہ جب ایک بیوی سے لڑائی ہوگی تو وہ دوسری بیوی حاضر خدمت ہوگی۔ ساجد صاحب کی تو چاندی ہو جائے گی۔ لیکن خسارہ خاتون کے حصہ میں آئے گا۔ لیکن اگر خاتون خانہ عقلمند ہو تو ایسی نوبت نہیں آتی۔ تھوڑی سی توجہ اور بہت سی محبت شوہر کو کسی اور طرف جانے ہی نہیں دیتی۔ بے جا ضد اور ہٹ دھرمی کو مار دیجیئے۔ اور زبان کو ناجائز استعمال سے روک لیں تو شوہر کے دوسری شادی کے جائز ارمان خاک میں مل سکتے ہیں۔