ہمارا المیہ یہ ہے کہ عربی ہماری تیسری چوتھی زبان بھی نہیں، تو اسے سیکھنے سمجھنے میں، اس کی قرات، عربی الفاظ کی ادائی میں، بچوں کو خاصی دشواری ہوتی ہے۔ تجویز یہ ہے کہ ابتدا میں، بچوں کو ایک ایک لفظ پڑھایا جائے، تا کہ انہیں یاد کرنے میں آسانی رہے۔ یہ والدین کی ذمہ داری ہے، کہ وہ بچوں کو قران خود پڑھائیں، یا پھر جس اسکول میں بچوں کا داخل کروا آتے ہیں، ان سے یہ مطالبہ کریں، کہ وہ اُن کے بچوں کو دوسرے مضامین کے ساتھ ساتھ قران پاک بھی پڑھائیں۔ خدارا اپنے بچوں کو ساری عمر کے لیے نفسیاتی مریض بننے سے بچائیں، کیونکہ بچپن میں ہوا تشدد، خواہ جسمانی ہو یا جنسی، بچے کو ساری زندگی کے لیے ذہنی اپاہج بنا دیتا ہے۔
میں مولوی صاحبان کے خلاف نہیں ہوں، وحشیانہ رویے کے خلاف ہوں۔ تشدد اسکول میں ہو، یا مدرسے میں، اس کی مخالفت کرتی ہوں۔ اسکول میں یہ ہوتا ہے، کہ ایک استاد پہ پرنسپل اور انتظامیہ کی نظر ہوتی ہے، استاد تشدد کرے تو ان کے خلاف ایکشن لیے جانے کا امکان رہتا ہے، جب کہ مدرسے میں نفسیاتی مریض کو بچوں پر ظلم کرنے سے روکنے والا کون ہے۔
بچے پھول کے مانند ہوتے ہیں، زرا سی گرم ہوا، انہیں کمھلا کے رکھ دیتی ہے۔ والدین سے گزارش ہے کہ اگر اُن کے بچے، مسجد یا مدرسے میں پڑھتے ہیں تو بچوں سے وقتاً فوقتاً مولوی صاحب کے رویے کے بارے میں پوچھتے رہیں۔ اگر بچے کوئی معمولی سے بھی شکایت لائیں، تو اسے معمولی مت سمجھیں، فورا اس بات کی چھان بین کریں۔ مولوی صاحب سے کڑے الفاظ میں بات کریں، کوئی رو رعایت مت برتیں۔ انہیں باور کرائیں کہ انہوں نے بچوں کے ساتھ کسی قسم کا متشددانہ رویہ روا رکھا، تو وہ اُن کے قانونی چارہ جوئی کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔
زرا سوچیے، جس دین کی تعلیم ہے، کہ دین میں سختی نہیں، اُس دین کے اسباق دینے میں سختی برتنے والا، کیسے دین کی خدمت کر سکتا ہے! کیا ایسے متشدد استاد ہی بچوں کو دین سے متنفر کرنے کا سبب نہیں بنتے؟