بہت ہی چھوٹا سا شہر تھا. ہم پہاڑ کی چوٹی پہ ریڈیو اسٹیشن سے ذرا پیچھے کھڑے ہو کر بازو لمبا کر کے اپنی ہتھیلی کو دیکھتے تو شہر گم ہو جاتا. “پام سائز سٹی ” ہم کھلکھلاتے. مگر اس ننھے سے شہر میں خوبصورتی کا ہر استعارہ تھا. پہاڑوں کی چوٹیوں پہ خوبصورت درختوں کی منظم قطاریں تھیں … اتنی منظم کہ لوگوں نے دیو مالائی قصے بن لیے “یہ شہزادی کی بارات ہے وہ ڈھولچیوں کی ٹولی ‘ قطار کا یہ حصہ خاص مہمانوں کا اور چوٹی تک عام باراتی. یہ جو درمیان میں سب سے گھنیرا درخت ہے یہ شہزادی کی پالکی ہے۔
شہزادی کے عاشق دیو نے ساری بارات کو درخت بنا دیا تھا.. “. پھر یونیورسٹی کا چہلہ کیمپس تھا جس کے ایڈمن بلاک کی چھت پہ کھڑے ہو کر ہم دور پہاڑوں پہ ‘مجاہدین کے ٹریننگ کیمپ’ جو بعد میں ‘دہشت گردوں کے ٹھکانے’ کہلا ئے’ کھوجا کرتے مگر کبھی کوئی نشان نہ پاتے . اور وہ حسین پر شکوہ قلعہ جس کی ایک ایک راہداری با ادب با ملاحظہ ہووووووشیار کی آوازوں سے بھری تھی. سنگم ہوٹل کے لان میں بار بی کیو کی خوشبو کو یہاں وہاں لیے دوڑتی ہوائیں اور وہ پرانا مندر جس کی داسیاں جانے کہاں خاک ہوئیں مگر اس کی فضاء میں گھنٹیوں کی صدائیں چھوڑ گئیں۔
سب سے مسحور کن تو وہ دو دریا تھے.۔دنیا و مافیہا سے بے خبر محب اور محبوب. جھلملاتا خوبصورت شفاف نیلم مٹی کے رنگ اور خوشبو سے اٹے جہلم کے کاندھے پہ سر رکھ کر بہے جاتا. دور تک نیلم کا حسن ماند نہ پڑتا. پھر وہ محبت کے آفاقی اصول کے پالن کے لیے جہلم میں تحلیل ہوتا جاتا یہاں تک کہ دونوں ایک ہو جاتے کوئی تخصیص ممکن نہ رہتی.کیا سحر تھا اس شہر کا. کھمبیوں کے طرح جا بجا اگے پرائیویٹ ہاسٹلز میں سے ایک میں میری ٹین ایج کی سہیلیاں رہتیں۔
ٹین ایج کی سہیلیاں… جن کے سامنے محبوب کا خیال بھی ہیچ ہوتا ہے. جامعہ آزاد کشمیر جب بھی کسی مقابلے کا اعلان کرتی میں مونگیا رنگ کے فون کا ریسیور اٹھا کر دریا کے کنارے ایستادہ اس کھمبی کا نمبر ملاتی. اٹینڈنٹ فون اٹھاتی. میں ماریہ خان کا نام لیتی .. ایک پکار گونجتی ماریہ خاااااان ن ن اور میں گنتی گننے لگتی. ایک دو تین چار اور تیرہ سے پہلے ماریہ کی منفرد سی، ناک کے بانسے کو چھو کے آنے والی، فطری طور پر تھوڑی مخمور سی آواز آتی ‘ہیلو’۔
کبھی پندرہ تک گننا پڑتا تو میں دل میں خفگی پال لیتی۔ اس کی نئی دوستوں سے خوا مخواہ کی جلن ہونے لگتی تو میں تکلف سے بات کرنے لگتی. وہ سمجھ جاتی اور اسکی آواز میں روکی گئی ہنسی کی نغمگی بھی شامل ہو جاتی. پھر ایک دن زلزلہ آ گیا. مندر ، قلعہ ، جامعہ ، ہاسٹل سب ہاتھیوں کے پاؤں تلے روندی گئی کھمبیاں بن گئے. ماریہ خان کو گلابی پھولوں والی سفید چادر میں لپیٹ کر گاؤں لایا گیا. اس کی گہری نیلی آنکھیں بند تھیں اور مسکراہٹ ہونٹوں کے کونوں میں چھپ گئی تھی. پھر اس شہر جانے کا حوصلہ نہ رہا. وہاں سب کچھ بدل گیا تھا۔
سوائے نیلم اور جہلم کے لا فانی ساتھ کے. چودہ سال کے بعد اس شہر کا رخ کیا. ریڈیو سٹیشن کی عمارت سے ذرا پیچھے کھڑے ہو کر بازو لمبا کیا ، ہتھیلی کھولی تو ہتھیلی کے ارد گرد انگلیوں کے درمیاں اور اس سے بھی اوپر عمارتیں یوں بکھری تھیں جیسے سبزے پر بچوں نے دور دور تک رنگین جھنڈیاں اڑا دی ہوں۔ جامعہ کی نئی عمارت شہر شروع ہونے سے بہت پہلے الگ شہر بسائے کھڑی تھی. نئے پُل نئے راستے۔ پگڈنڈیوں کو تارکول کی سڑکوں نے کچل ڈالا تھا اور یادوں میں زندہ پرانے شہر کو آنکھوں کے سامنے کھڑے نئے شہر نے۔
کچھ بھی ویسا نہیں تھا۔ ‘مگر…. نیلم اور جہلم’ دل سرگوشیاں کرنے لگا۔ جامعہ سے لوٹتے دومیل کا رخ کر لیا۔ آنکھوں کو دھوکہ سا ہوا. نیلم نہیں تھا… نیلم کا ہیولہ تھا۔ بہہ کہاں رہا ہے بس اٹک اٹک کر رینگ رہا ہے۔ ایک نظر میں ساکت ہی لگا۔ اور جہلم…. گدلا مٹیالا اداس اور سست رو ۔ نیلم کے نیم مردہ وجود کی ارتھی کاندھے پہ اٹھائے، نڈھال اور خاموش. جہاں کبھی دونوں ایک دوسرے میں مدغم ہوتے تو لگتا تھا محبت کی تکمیل ہوئی … وہاں لاغر اور کمزور نیلم جہلم کے مٹیالے وجود میں یوں اترتا ہے جیسے سرطان کی ماری دوشیزہ کی حسین میت مٹی کے حوالے ہوتی ہو۔ میں تڑپ کر گاڑی میں بیٹھی اور اس محبوب شہر سے چودہ سال قبل اٹھائی گئی میتوں میں اک نئی میت دریائے نیلم کا اضافہ کر کے اپنے خوابوں کے مظفر آباد سے نکل آئی.