میرا جہاز تیس ہزار فٹ کی بلندی پر اڑ رہا ہے اور میں جہاز کی کھڑکی کے پاس بیٹھی ہوں۔ میری ساتھ والی کرسی پر ایک نوجوان مرد بیٹھا ہے اور مجھ سے بے نیاز اپنی کتاب میں غرق ہے۔ میں زندگی میں کبھی کسی غیر مرد کے اتنا قریب نہیں بیٹھی تھی۔ میں کھڑکی سے باہر دیکھتی ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ بادل جہاز کے ساتھ ساتھ اڑ رہے ہیں۔ وہ میرے اتنے قریب ہیں کہ اگر جہاز کی کھڑکی کھلی ہوتی تو میں ہاتھ بڑھا کر انہیں چھو سکتی۔
میں جب بھی بادل دیکھتی ہوں میرے من میں ہوا میں اڑنے کی خواہش انگڑائیاں لیتی ہے۔ یہ خواہش بہت پرانی ہے۔ مجھے بچپن کا وہ واقعہ یاد ہے جب میرے ابو مجھے گرمیوں کی چھٹیوں میں ایک پہاڑی مقام پر سیر کروانے لے گئے تھے۔ ایک شام میں اور میرے ابو پہاڑی کی چوٹی پر کھڑے تھے کہ دور سے ایک بادل ہماری طرف آتا دکھائی دیا۔ وہ قریب آیا بہت ہی قریب اور اس نے ہمیں اپنی آغوش میں لے لیا۔ پھر وہ آگے بڑھ گیا اور ہم سر سے پاؤں تک بھیگ گئے۔ جب بادل ہم سے دور جا رہا تھا تو میرے دل میں بادل کے ساتھ اڑنے کی خواہش پیدا ہوئی تھی۔ اس دن تو میں نے بادل کو چھو لیا تھا یا یوں کہنا بہتر ہوگا کہ بادل نے مجھے چھو لیا تھا۔ آج بھی وہ مجھے گلے لگانے آیا تھا لیکن بند کھڑکی کی وجہ سے مجھے چھو نہ سکا تھا۔
جہاز کی بند کھڑکی سے مجھے اپنے گھر کے کمرے کی بند کھڑکی یاد آئی جس کے پیچھے بیٹھ کر میں گھنٹوں بازار کا منظر دیکھا کرتی۔ ایک طرف دکاندار ’دوسری طرف خریدار‘ ایک طرف بھکاری اور دوسری طرف سکول جاتے بچے۔ میں غالب کا شعر گنگنایا کرتی۔
؎ بازیچہِ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے
جب تک والد حیات تھے میں آزاد تھی۔ وہ مجھے اپنے ساتھ بازار میں خریداری کرنے بھی لے جاتے اور دوستوں رشتہ داروں سے ملوانے بھی۔ لیکن جب وہ فوت ہوئے تو میری دنیا بدل گئی۔ میرے وہ بھائی جو والد کے سامنے گیدڑ بنے رہتے تھے وہ والد کی وفات کے بعد شیر ہو گئے تھے۔ انہوں نے مجھ پر پابندیاں عاید کرنے شروع کر دی تھیں۔
یہ کرو وہ نہ کرو
یہاں جاؤ وہاں نہ جاؤ
میں گھر کی فضا مکدر نہ کرنا چاہتی تھی اس لیے خاموش رہتی۔ برداشت کرتی رہتی۔ لیکن پھر ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے میری زندگی بدل دی۔
اس دن میں اپنے کالج میں طالبات کو پڑھانے کے بعد بس میں واپس لوٹ رہی تھی اور حسبِ عادت کھلی کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی کہ ہماری بس میں تین مسلح نوجوان داخل ہو گئے۔ ایک نے بس کے ڈرائیور کی کنپٹی پر بندوق رکھی ’دوسرے نوجوان نے مرد مسافروں سے ان کے بٹوے لیے اور تیسرے نوجوان نے عورتوں کی چادریں اور دوپٹے نوچے۔ اور پھر بڑے سکون سے باہر چلے گئے۔
جب میں گھر پہنچی تو میرے دونوں بھائیوں کی میٹنگ ہوئی اور انہوں نے فیصلہ صادر فرمایا کہ اس دن کے بعد میرا گھر سے نکلنا ممنوع۔ میں نے بہت احتجاج کیا لیکن بے سود۔ بڑا بھائی کہنے لگا ’اب ابو زندہ نہیں ہیں کہ تمہارے نخرے سہیں۔ ‘ میری آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ اس دن پہلی بار مجھے محسوس ہوا کہ میں یتیم ہو گئی ہوں۔ اس دن بھائیوں کے سامنے میری اماں بھی خاموش رہیں۔
میں گھر میں پابند ہو گئی اور جب اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر دیکھتی تو یوں لگتا جیسے قید سے باہر دیکھ رہی ہوں۔
میں جب گھر میں زیادہ وقت گزارنے لگی تو اپنے بورڈم کو ختم کرنے کے لیے میں نے کتابیں پڑھنی اور کہانیاں لکھنی شروع کر دیں۔ ان دنوں میرے ذہن میں عجیب و غریب خیال آنے لگے۔
ایک دن مجھے خیال آیاکہ میرا جسم ایک کمرہ ہے اور میری آنکھیں کھڑکیاں ہیں جو رات کو بند ہو جاتی ہیں اور صبح کے وقت کھل جاتی ہیں۔
پھر مجھے خیال آیا کہ رات کو جب میں آنکھوں کی کھڑکیاں بند کر کے سو جاتی ہوں تو میرے اندر کی کھڑکی کھل جاتی ہے جو مجھے ہر رات خواب دکھاتی ہے۔
جب میں کچھ اور بور ہوئی تو میں نے ایک سیل فون خرید لیا اور اس سیل فون کی کھڑکی سے ساری دنیا کو دیکھنے لگی اور مختلف ملکوں میں دوست بنانے لگی۔
جب میری سہیلیوں کو پتہ چلا کہ میرے والد کی وفات کے بعد میں ہاؤس ارسٹ ہو چکی ہوں اور میرے بھائی نہ مجھے کام کرنے دیتے ہیں نہ باہر آنے جانے دیتے ہیں تو ایک نے کہا
’تمہارا بڑا بھائی تم سے جیلس ہے؟ ‘
’وہ کیوں؟ ‘ میں نے اس کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہ تھا
’ اس لیے کہ تم اپنے والد کی چہیتی تھیں۔ ‘
’نہیں ایسا نہیں ہے‘
’ نہیں ایسا ہی ہے۔ میرا ایک مشورہ ہے‘
’ وہ کیا؟ ‘ میں متجسس تھی
’تم گھر سے بھاگ جاؤ۔ فرار ہو جاؤ‘
کافی عرصے کے غور و خوض کے بعد میں راضی ہو گئی۔
مری سہیلی نے پہلے میرا پاسپورٹ بنوایا۔ پھر مجھے امریکہ کی یونیورسٹی میں داخلہ دلوایا۔ میرے ویزے او وظیفے کا بندوبست کیا۔ مجھے کپڑوں اور کتابوں کے لیے سوٹ کیس خرید کر دیا اور اسے اپنے گھر چھپا کر رکھا۔
آخر کل وہ چپکے سے وقتِ مقررہ پر میری بند کھڑکی کے نیچے سوٹ کیس سمیت آ کھڑی ہوئی۔ میں نے چپکے سے کھڑکی کھول کر اسے کتابیں اور کپڑے دیے جو اس نے میرے سوٹ کیس میں رکھ دیے اور میں کھڑکی سے باہر کود گئی۔ اس نے میرا سامان اپنی گاڑی میں رکھا اور ایر پورٹ لے جا کر مجھے جہاز میں بٹھا آئی۔
اب میں سات سمندر پار مشرق سے مغرب کی طرف پرواز کر رہی ہوں اور ایک بند کھڑکی سے پہاڑیاں اور وادیاں دریا اور سمندر دیکھ رہی ہوں۔
آج مجھے یوں لگتا ہے جیسے میں بادلوں کے ساتھ کھلی فضاؤں میں اڑ رہی ہوں۔