ملکیت اور محبت دو ایسے اوصاف ہیں جنہیں ایک دوسرے کا متبادل سمجھا جاتا ہے۔ محبوب کو ملکیت سمجھنے کی شرح دونوں اجناس میں برابر ہے تاہم، خواتین کھلم کھلا اظہار نہیں کرتیں جب کہ مرد تحکم سے اپنا یہ خود ساختہ حق جتاتے ہیں۔ رشتوں کے ٹوٹنے میں سب سے عام وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ جنس مخالف نے دھوکا دیا یا بیوفائی کی۔ اب سے کُچھ عرصہ پہلے میں بھی یہی سوچتی تھی کہ چونکہ ایک شخص جس سے آپ بے پناہ محبت کرتے ہیں وہ کسی کمزور لمحے میں کہیں اور دل لگا بیٹھا تو اب وہ واجب نفرت ہے۔
خلوت کے لمحات میں مجھے اس پر سوچنے کا موقع ملا تو بہت سی حقیقتیں آشکار ہوئیں اور بیوفائی، ملکیت اور محبت کے بارے میں میرا نظریہ بدل گیا جو میں اپنے پڑھنے والوں کے ساتھ شیئر کرنا چاہوں گی۔
1۔ محبوب کو پابند کرنا دراصل اس کو غلامی میں جھونکنے کی ہی ایک شکل ہے۔ آپ کو اگر با پردہ خاتون چاہئیں تو سوچ کر ایسی خاتون سے محبت یا شادی کریں، یونہی اگر آپ کو سیدھا سادہ مرد درکار ہے تو ویسا ہی ڈھونڈیں۔ ایک مختلف شخص کو بدلنے کی لاحاصل سعی کرنا کیا معنی؟
اکثر اوقات ہوتا یوں ہے کہ جن مرد حضرات کا تعلق ابلاغِ عامہ سے یا کسی بھی مخلوط فیلڈ سے ہو ان کی بیگمات تحفظات کا شکار رہتی ہیں، کب کہاں کیوں جا رہے ایسے درد سر سوال پوچھ کر بیچاروں کی زندگی عذاب بنا دیتی ہیں۔ اسی طرح کچھ شکی مزاج مرد بیوی/گرل فرینڈ کو روکتے ٹوکتے ہیں خاص طور پر وہ مرد جو احساسِ کمتری کا شکار ہوں جن کو پتا ہو ان کی ساتھی اُنسے صلاحیتیوں میں زیادہ ہے۔
اب غور طلب بات یہ ہے کہ شادی یا تعلق بنانے سے پہلے ہم یا تو دوسرے فریق کی معاشرت سے بے بہرہ ہوتے ہیں یا اس وقت سوچ رہے ہوتے ہیں کہ بعد میں خود ہی بدل جائے گا۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انسان حیوان ناطق ہے، دوستیاں اور رشتے نبھانا نا گزیر ہے اس لیے اس معاملے میں روکنا ٹوکنا یا شک شبھے کا اظہار کرنا رشتوں میں ڈرار ڈالنے کا سبب بن سکتا ہے، خاطر خواہ سپیس خود بھی لیں اور اپنے پارٹنر کو بھی دیں۔
2۔ اس بات سے ہو سکتا ہے کُچھ حقوق نسواں کی علمبردار خواتین و حضرات شاکی ہوں مگر مجھے کہہ لینے دیجئے کہ انسان کی فطرت میں کثیر ازدواجی ہے، صرف مرد نہیں خواتین بھی محبوب بدلنا چاہتے ہیں۔ بچے کے نان نفقے اور اؤنر شپ کی وجہ سے ابراہیمی مذاھب نے عورت کو ایک وقت میں ایک ساتھی رکھنے کا درس دیا ہے۔ اب اگر بچہ پیدا کرنا ہی نا ہو اور جنسی بیماریوں سے روک تھام کے محفوظ طریقے رائج ہوں تو میری رائے میں اس ضمن میں معاشرے کو عورت کو بھی اتنی آزادی دینی چاہیے جتنی مرد کو ہے، آخر کب تک مرد کی غیرت عورت کی اندہام نہانی سے مشروط رہے گی؟ اس سلسلے میں ہمیں غیر جانب دار ہو کر سوچنے کی ضرورت ہے
اسی طرح آپ چاہے ڈیانا کیوں نا ہوں، آپ کاشی بائی ہوں یا نور جہاں آپ کا پرنس چارلس، آپ کا باجی راؤ یا شوکت حسین رضوی کوئی امکانات رکھتا ہے کہ اُس کا دل آپسے بھر جائے یا وہ کسی اور خاتون میں دلچسپی لینے لگے۔
جس معاشرے میں زیادہ تر شادیاں خاندانوں کی صواب دید پر ہوتی ہو، وہاں محبت اکثر شادی کے باہر ڈھونڈی جاتی ہے۔ لونڈیاں /گرل فرینڈ بنانے کا تصور، یونانی، فرانس، چینی، ہندوستانی، عربی غرض ہر معاشرے میں ملتا ہے۔ شادیوں کی وجہ دو خاندانوں کے تجارتی تعلقات یا سیاسی تعلقات کو مضبوط بنانا ہوتا تھا، جیسے آسٹریا کی میری ائنٹونیٹ کا بیاہ فرانسیسی شہزادے لوئی سے ہوا جو ایک نا خوشگوار تعلق تھا۔
موجودہ مشرقی دور میں بھی شادی ایسا ہی کاروبار ہے، ذاتی پسند، نا پسند، رنگ ذات مذہب اور زبانوں کے مخلف ہونے سے پسِ پردہ رہ جاتی ہے یوں ایک ناپسندیدہ شخص کے ساتھ مشکل سے گزارا کرنا پڑتا ہے۔ ان تمام سماجی بندھنوں کے ہوتے ہوئے فریقین، باہم رضامندی سے ایک دوسرے کو اپنی پسند کا ساتھی چننے کا اختیار دے دیں تو معاملات احسن طریقے سے چل سکتے ہیں۔ غیرت کے نام قتل اور محبوب کے ساتھ بھاگنے کے واقعات میں خاطر خواہ کمی یوں ممکن ہے۔
3۔ کسی بھی رشتے میں ہنی مون پریڈ گزر جائے تو اصلیت کا مظاہرہ شروع ہو جاتا ہے، عزت کا اظہار، خود کی ظاہری حالت پر توجہ، دوسرے کی پسند نا پسند کا خیال سانوی حیثیت اختیار کر لیتا ہے، بے اعتدالی سے مباشرت اور کھانا پینا جسم کو بھدے پن کی طرف لے جاتے ہیں۔
موجودہ خواتین چونکہ گھر کے کاموں کو عار سمجھتے ہوئے ہلتی جلتی نہیں، ورزش کو اہمیت نہیں دیتیں اور شوہر کے علاوہ سب کے لئے بنتی سنوارتی ہیں تو شوہر کا نظر التفات نا کرنا فطرتی ہے، وہ آپ کی والدہ نہیں کہ آپ کُچھ بھی کر لیں گی تو ان کو اچھی ہی لگیں گی۔ شوہر کو شوہر نا سہی بوئے فرینڈ سمجھ کر ٹریٹ کریں گی تو کبھی بھی دلچسپی نہیں کھویں گی۔ یونہی مرد حضرت بھی اپنی صحت صفائی ستھرائی پر توجہ دیتے رہیں گے، فربہی سے خود کو بچائیں گے تو خاتون خانہ آپ کی چاہت کرتی رہے گی۔
4۔ ہمارے ہاں تعلیم بالغاں ایک اجنبی مضمون ہے، عموماً پچھلے وقتوں میں شادی سے کُچھ عرصہ قبل ازدواجی معاملات کے لئے شادی شدہ دوست احباب، حکیموں عطائیوں سے مشورے اور جانکاری حاصل کی جاتی تھی، جنس کے مسئلہ پر بھی مولویوں سے فتویٰ لیے جاتے کہ مباشرت یوں ہو تو گناہ تو نہیں ہوتا۔ میڈیا کی آزادی سے اب تو بچہ بچہ سب جانتا ہے مگر اس نازک مضمون کو کبھی بھی علم کی طرح پڑھایا نہیں جاتا۔ جنسی تعلیم میں نا صرف مباشرت کے طریقے سمجھائے جانے کی ضرورت ہے بلکہ بچوں کو جنسی تعلیم اُنھیں آگاہی دے گی کہ اُنہوں نے اپنے جسم کی حفاظت کیونکر کرنی ہے۔
نوعمری کے جذبات کو چینلائز کیسے کرنا ہے۔ تعلیم بالغاں شروع کردی جائے میٹرک لیول پر تو مرد عورت کو جو عجب شے سمجھ کر ندیدوں والی حرکت کرتے ہیں ان میں کمی واقع ہوگی۔ مزید برآں، حکیموں کی جعلی دکانیں بند ہوں گی اور تعلقات میں خرابی کی اہم وجہ، جنسی جانکاری کا نا ہونا خاطر خواہ کم ہوگا۔ جنس کی بات کرتے ہوئے ایک نکتہ میں یہ بھی اٹھاؤں گی کہ پورن موویز نے حقیقی جنسی زندگی پر اچھے برے دونوں اثرات ڈالے ہیں۔
جہاں مباشرت کے طریقوں میں جدت سیکھی ہے وہیں جبر کے راستے اپنے من پسند جنسی اعمال کو دوسرے کے سر تھوپنا بھی آیا ہے۔ پورن دیکھنا بُرا نہیں مگر اپنے ساتھی سے چاہنا کہ وہ بھی وہی حرکات کرے جو اداکار کرتے ہیں، یہ نا انصافی ہے۔ جنسی سکون کے لئے دونوں فریقین کا ایک دوسرے کے جسم، پسند نا پسند کی جانکاری رکھنا ضروری ہے۔
آخر میں اپنی بات کا اختتام کرتے ہوئے کہوں گی کہ معاشی اور معاشرتی انقلاب نے رومانوی تعلقات پر بھی گہرا اثر ڈالا ہے، تھوڑی سی لچک اور وسیع قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اختلافات کے ساتھ بھی زندگی گزاری جا سکتی ہے بشرطیکہ آپ کا ذہن دیومالائی اور افسانوی نظریات سے پراگندہ نا ہو۔