محمد حنیف
انڈیا کے بابائے قوم مہاتما گاندھی 150 سال پہلے پیدا ہوئے تھے۔ یاروں نے سوال کیا ہے کہ پاکستان میں لوگ گاندھی کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ پہلے تو خیال آیا کہ کہہ دیں کہ ہمارے گھر میں اپنے ہی اتنے سارے پنگے ہیں کہ ہمیں گاندھی کے بارے میں سوچنے کا موقع نہیں ملا۔
پھر مجھے یاد آیا کہ ہمیں سکول میں گاندھی کے بارے میں بس اتنا پڑھایا گیا تھا کہ وہ ہندو تھے، باقی بات آپ خود سمجھ لیں۔
اسی کے ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ گاندھی مکار تھا، گاندھی بنیا تھا، پاکستان بننے کے بالکل خلاف تھا، بھارت ماتا کی پوجا کرتا تھا، ہم مسلمانوں نے صدیوں تک جو ہندوؤں پر حکومت کی وہ ان کا بدلہ لینا چاہتا تھا۔
گاندھی کے مقابلے میں ہمارا بابا قائد اعظم تھا۔ وہ لندن سے پڑھا لکھا وکیل، اس نے گاندھی کا گریبان پکڑ کر ایسا دھوبی پٹکا مارا کہ پاکستان لے لیا۔
تھوڑا بڑا ہوا تو فلم ‘گاندھی’ دیکھ کر پتہ چلا کہ ہندوؤں کا بابا کوئی ملنگ سا آدمی تھا جو ہندوستان میں آزادی کی جنگ لڑنے سے پہلے جنوبی افریقہ میں بھی گوروں سے دو دو ہاتھ کر چکا تھا۔
فلم پر پاکستانیوں کو اعتراض تھا کہ گورے ہدایتکار نے ہندوؤں کے بابے کو ہیرو بنا دیا اور ہمارے بابے کو کوئی خبطی ولن دکھایا ہے۔
ہم گاندھی اور جناح کی پرانی تصاویر دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ ان تصاویر میں ہمارے بابے نے استرے کی دھار سے تیز لندن سے سلوایا سوٹ پہنا ہوتا ہے اور ہاتھ میں ولایتی سگریٹ پکڑا ہوتا ہے۔ ایک سیانے نے کہا کہ جب پاکستان میں پچاس ہزار کا نوٹ بنایا جائے گا اس وقت اس تصویر کو اس نوٹ پر لگایا جائے گا۔
ان تصویروں میں مہاتما گاندھی نے اپنی آدھی دھوتی اٹھائی ہوتی ہے اور ہاتھ میں ایک چھڑی پکڑی ہوتی ہے۔ کچھ تصاویر میں دونوں بابا ہنس بھی رہے ہیں۔ اگر ان دونوں کو معلوم ہوتا کہ مستقبل میں ان کے ہندوستان-پاکستان کا کیا ہونے والا ہے تو شاید وہ گلے مل کر رو بھی پڑتے۔
دو ملک کاٹو اور یہاں سے بھاگو۔۔۔
ایک تصویر میں مہاتما گاندھی ہاتھ اٹھا کر بحث کر رہے ہیں گویا یہ کہہ رہے ہوں کہ ‘ہمیں چھوڑ کر مت جاؤ۔’ ہمارے بابا قائد اعظم نے ولایتی سگریٹ کے کش لگا کر ایسا منھ بنایا جیسے کہہ رہے ہوں، ‘یار گاندھی، تم جلدی کرو، اب ہم بوڑھے ہو چکے ہیں، بٹوارہ تو ہو کر ہی رہے گا۔’
ہمارے بابا قائداعظم نے اتنی انگریزی بولی کہ گوروں نے بھی مان لیا کہ ہندو اور مسلمان دو علیحدہ قوم ہیں، راتوں رات دو ملک کاٹو اور یہاں سے بھاگو۔ باقی کاٹنے اور پھاڑنے کا انتظام ہم نے خود کر لیا۔ ہمارا بابا جیت گیا، گاندھی ہار گیا۔
ہندوستان اور پاکستان کے بننے کے اگلے ہی سال دونوں بابے چل بسے۔ ایک کو تپ دق کھا گئی اور ایک کو اسی کے ہندو بھائی نے گولی مار دی۔
ہمیں بچپن میں گاندھی سے نفرت کرنا سکھایا گیا تھا۔ ایک بزرگ اردو مصنف نے ایک بار لکھا تھا: ‘سوچو، اگر پاکستان نہ بنتا تو گاندھی جیسا کوئی ہندو آپ کے دروازے پر دھوتی اٹھا کر مُوت رہا ہوتا۔’
اچھا ہوا، ہم نے زیادہ تر ہندو یہاں سے بھگا دیے۔ اب ایک دوسرے کے دروازے پر موتنے کا کام ہم خود ہی کر لیتے ہیں۔
گاندھی کا نام پہلے گالی ہوا کرتا تھا
اس طرف جس گاندھی کو ہم بڑا ہندو سمجھتے تھے اسے نئے ہندوؤں نے کہا: ‘چلو تم اتنے بھولے ہندو ہو کہ نئے ہندوستان میں تمہارے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اب تم صرف نوٹوں پر نظر آؤگے۔’
ہندوستان میں ابھی ان لوگوں کا راج ہے جو گاندھی کے قاتل کو اپنا ہندو مانتے ہیں۔ پہلے پاکستان میں گاندھی کا نام گالی ہوتا تھا اب ہندوستان میں بھی کلنک بن گیا ہے۔
وہاں پر موجود ہمارے بھائی سوچتے ہوں گے کہ جنھوں نے اپنے بابا کو نہیں چھوڑا وہ ہمارے ساتھ کیا کریں گے۔ یہاں ہم کہتے تو نہیں لیکن کبھی کبھی سوچتے ضرور ہیں کہ ان نئے والوں سے تو گاندھی ہی اچھا تھا۔