آصف فرخی
خوان بڑا، خوان پوش بڑا، بیچ میں سے نکلا ایک ہی بڑا۔ اس دفعہ کے نوبیل انعام برائے ادب پر یہی بات صادق آتی ہے۔
بڑے طمطراق کے ساتھ اعلان ہوا کہ اس بار ایک نہیں، دو انعامات دیے جائیں گے۔ پچھلے سال کا انعام وقت پر نہیں دیا جاسکا تھا۔ سوئیڈش اکادمی کے طریق کار کے بارے میں سخت سوالات اٹھائے گئے اور ان کی کارکردگی مشتبہ پڑ گئی تھی۔ افواہوں کے بعد اسکینڈل کی زد میں آئی ہوئی اکادمی ایک سال انعام دینے کے قابل نہیں رہی۔ حالات کا رخ اتنا خراب ہوگیا تھا کہ اکادمی کی تنظیمی صلاحیت اور مراحل میں شفافیت کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے۔ اب نئی ترتیب کے بعد اکادمی کی نئی صورت سامنے آئی ہے اور اس بات سے ڈھارس بندھی کہ نئے صدر نے اعلان کیا کہ وہ تنّوع کے قائل ہیں اور انعامات کے معاملے میں ’یورپ مرکزیت‘ سے گریز کریں گے۔ یہ آرزو بھی خاک میں مل گئی۔
آج اعلان ہوا تو 2018 ء کے لیے پولینڈ کی ناول و افسانہ نگار اولگا توکار چُک کو اور 2019 ء کے لیے آسٹریا کے پیٹر ہینڈکے کو انعام کا حق دار ٹھہرایا گیا۔ حیرت کی بات ہے کہ صدر صاحب کو عمل نہیں کرنا تھا تو انہوں نے یوروپ مرکزیت سے الگ ہٹنے کی بات بھلا کس لیے کی؟ یا پھر وہ پولینڈ اور آسٹریا کو تاریک براعظم افریقہ کا حصّہ سمجھتے ہیں۔
پولینڈ میں تعلق رکھنے والی خاتون ناول نگار کا نام ہم نے حالیہ برسوں میں پہلی بار سنا جب بین الاقوامی بُکر انعام کے لیے ان کو نام زد کیا گیا۔ ان کی ایک آدھ کتاب کراچی کی ایک دکان میں بھی نظر آئی تو ہم نے تعجّب سے بڑھ کر عقیدت سے اس کی طرف دیکھا۔ ایک پرانی بات یاد آئی کہ جب گابریل گارسیا مارکیز کو نوبیل انعام ملا اس کے تھوڑے دن بعد ہمیں اس کی ایک کتاب پشاور کی ایک دکان میں نظر آئی۔ (یادش بخیر، اس وقت پشاور کے صدر میں انگریزی کتابوں کی معقول دکان ہوا کرتی تھی! ) کتاب خرید لی اور اس کا ذکر مظّفر علی سیّد سے کیا جو ان دنوں پشاور کے مضافات میں بڈھ بیر کی ایئربیس میں مقیم تھے۔ انہوں نے یہ بات سُن کے قہقہہ لگایا اور کہا، اس کو نوبیل انعام اسی لیے مل گیا ہے کہ اس کی کتاب پشاور پہنچ گئی ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ مجھے اس بار بھی معلوم ہوتا ہے۔ کتاب کا کراچی پہنچ جانا انعام کا سبب بن گیا۔
پیٹر ہینڈکے کا نام پہلے سے سنا ہوا تھا۔ 80 ء کی دہائی میں کراچی کے گوئٹے سینٹر خاصا فعال تھا اور لائبریری میں نئی کتابیں برابر منگوائی جاتی تھیں۔ انگریزی ترجموں کے ذریعے سے وہیں اس نام سے تعارف ہوا۔ ہمارے دوست، خوب صورت شاعر ذیشان ساحل کو یہ ادیب بہت پسند آیا اور وہ اس کی تحریر میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑھنے لگے۔ اس کا ناول ”الٹے ہاتھ سے کام کرنے والی عورت“ ہمیں بھی پسند آیا۔ مگر اس کے بعد یہ سلسلہ ٹوٹ گیا۔ اس کی نئی کتابیں جو آئی ہوں گی، وہ میں نہیں دیکھ سکا۔ یہاں تک کہ میں اس کا نام بھی بھول گیا کہ اس نام کا کوئی ادیب ہماری فہرست میں موجود تھا۔ اب کون پوچھے کہ تیرے فتراک میں کوئی نخپحیر بھی تھا۔
یہ بھولے بھٹکے نام نوبیل انعام کی کمیٹی نے یاد دلائے تو ہمیں بھی یاد آئے ورنہ ہم تو دوسرے ناموں کا گمان کیے بیٹھے تھے۔ اس بار دو انعامات کا اعلان ہو رہا ہے، اس لیے یقینا پچھلا حساب کسی حد تک بے باق ہو جائے گا ورنہ بعض نام ہر بار دہرائے جاتے ہیں۔ جاپان کے ناول نگار ہارو کی موراکامی کا نام بڑے تواتر سے آتا ہے۔ نہ جانے کتنی بار اس کا نام لیا جا چکا ہے مگر انعام ہے کہ مل کے نہیں دیتا۔ موارا کامی کا نام پوری دنیا میں جانا پہچانا ہے۔ ہر بار کینیڈا سے تعلق رکھنے والی ادیبہ مار گریٹ ایٹ وڈ کے امکانات بڑھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ اس کا ایک ناول عالم گیر توجہ کا حامل ہے مگر اس کی اہم کتابوں کی تعداد اچھی خاصی ہے اور وہ ناول سے لے کر شاعری تک، کئی شعبوں پر حاوی ہے۔ افریقہ کے ادیب گوگی واتھیونگو میری نظر میں ایسے رجحان ساز ادیب ہیں جنہوں نے ناولوں کے پورے سلسلے میں نو آبادیاتی نظام کو تباہ کاری کو بے نقاب کیا ہے بلکہ انگریزی زبان کی بالادستی اور ذہن پر حاوی نوآبادیاتی غلامی کے بارے میں ایسی کتابیں لکھ دی ہیں جن کو درسی کتاب کی طرح پڑھنے کی ضرورت ہے۔ ایسے ادیبوں کو چھوڑ کر یہ نئے لوگ کہاں سے ڈھونڈ نکالے؟
اگر ناک کے آگے نہیں دیکھنا اور یوروپ کے دیوقامت ادیب ہی کو ہر انعام کا حق دار ٹہرانا ہے تو ذرا سوچیے کہ میلان کنڈیرا اور اسمٰعیل کادارے ہمارے درمیان موجود ہیں۔ میلان کنڈیرا جیسے ادیب کواس طرح نظر انداز کرتے آئے ہیں گویا وہ زندہ ہی نہ ہو۔ کنڈیرا کی طرح پیرس میں ادونیس موجود ہے جو عربی ادب کا سب سے بڑا نام ہے، اس سے صرفِ نظر کیسے کر سکتے ہیں؟ مگر انہوں نے عین مین یہی کیا۔ یوروپ مرکزیت سے الگ ہونے کے دعوے کے ساتھ تنّوع کا شعوری فیصلہ بڑی اچھی بات ہے اور خاص طور پر صنفی تنّوع سے دور رہنے کی کوشش۔ لیکن اس سے پرہیز کرنے میں وہ ایک الٹی قسم کے صنفی امتیاز کا شکار ہونے لگتے ہیں جب لکھنے والے کو عورت یا مرد ہونے کے لحاظ سے دیکھنے لگتے ہیں۔ میں نے مان لیا کہ نوبیل انعام کے حق دار لوگوں میں خواتین کی تعداد اس سے زیاہ ہونا چاہیے تھی۔ مگر تنّوع کا مطلب صرف صنفی امتیاز نہیں ہوتا۔ اس میں رنگ اور نسل کا تنّوع شامل نہیں ہوا تو معاملہ بگڑا ہی رہے گا۔ ایشیا اور افریقہ کے ادیب نوبیل انعام کی فہرست میں آٹے میں نمک کے برابر ہی۔ یہ فہرست انصاف کا تقاضہ کرتی ہے۔ لیکن ادبی انعام کی کمیٹی کو پروا بھی نہیں ہے کہ ان کا عمل ان کے دعوے سے بہت دور چلا گیا ہے۔
اس اعلان کے ساتھ ہی قیاس آرائیوں کا سلسلہ جو کئی دن سے جاری تھا، اپنے اختتام کو پہنچا۔ جس امیدواروں کے نام پر شرط لگ گئی تھی اخبار میں وہ فہرست شائع ہوئی تو صبح صبح میرے پاس کشور ناہیدکا فون آیا۔ ایشیا کا کوئی نام ہی نہیں ہے۔ پورے کا پورا پتّہ کٹ گیا۔ ”انہوں نے افسوس کے ساتھ کہا۔
مجھے پریم چند کا افسانہ لاٹری یاد آگیا جس میں بہت سے لوگوں نے انعامی ٹکٹ لیے ہوئے ہیں۔ آخر میں پتہ چلتا ہے کہ اس شہر سے کوئی نام نہیں نکلا۔ بلکہ پورے ہندوستان سے کسی کا نام نہیں نکلا۔ امریکا کا کوئی شخص ہے جس کا نام آیا ہے۔ اس بار بھی شاید یہی ہوا۔
صبح کے وقت یونیورسٹی میں اپنے معمول کے مطابق کافی پیتے ہوئے افضال احمد سیّد بھی اس بارے میں سوچ رہے تھے کہ انعام کس کو ملے گا۔ اس کی کوئی نہ کوئی چیز پڑھ بھی رکھی ہو! انہوں نے کہا۔ انعام کا اعلان ہو اور ہم نے اس کا تھوڑا بہت پڑھ رکھا ہو تو اچھا لگتا ہے!
آسٹن، ٹیکساس سے سنیہل سنگھوی نے لکھا کہ پولستانی اہم زبان ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ تعداد ہندی بولنے والوں کی ہے۔ اس کے کسی لکھنے والے کو حق دار کیوں نہیں سمجھا گیا۔
زبان کے بولنے والوں کی تعداد پر تو یہ فیصلہ مبنی نہیں ہوتا۔ اس کا دارومدار لکھنے والے کی انفرادی صلاحیت پر ہے۔ لیکن اس پر بھی اعتراض ہو گیا۔ لندن سے عامر حسین نے لکھا وہ کب تھا کہ آخری دفعہ جب کسی نے پیٹر ہینڈکے کی کوئی ڈھنگ کی کتاب پڑھی؟
پیٹر ہینڈکے کا نام آیا تو بھڑوں کے چھتّے میں ہاتھ ڈال دیا۔ تفصیلات سامنے آنے لگیں کہ وہ سربیا میں قتل عام کا صاف حمایتی رہا ہے اور نسلی سیاست کا بہت بڑا دعوے دار۔ یہاں تک کہ اس نے سربیا کے سابق صدر کی حمایت میں بیان دیا اور قتل عام میں مسلمان مردوں اور بچّوں کے وحشیانہ قتل کو خود ان ہی کی ذمہ داری قرار دیا۔ 18 مارچ 2006 ء کو سلابودان میلاسووچ کی آخری رسومات میں بیس ہزار کے مجمع کے سامنے پیٹر ہینڈکے نے میلاسووچ کی مدح میں ایک ایسی تقریر کی تھی جو بوسینیا کے باشندوں کے لئے دل آزاری کے مترادف تھی۔
ناروے میں اس کو ادبی انعام دینے کا فیصلہ کیا گیا تو وہاں بہت احتجاج ہوا۔ یہاں تک کہ سلمان رشدی نے بھی اس کو ”فاتر العقل“ قرار دے دیا۔
سوئیڈن کی اکادمی نے ہینڈکے کی ”فن کارانہ مہارت“ کو قابل ستائش ٹھہرایا۔ چلیے مان لیا کہ سیاسی خیالات، چاہے وہ نسلی تعصّب سے پڑھ کر نسلی قتل کی حمایت تک جا پہنچیں، علیحدہ ہیں۔ لیکن ابھی چند دن پہلے کی بات ہے کہ جرمنی کے ایک ادبی انعام کے لیے کاملہ شمسی کو نشانہ بنایا گیا تھا اور انعام واپس لے لیا گیا۔ اس لیے کہ کاملہ شمسی نے فلسطینیوں کی حمایت کی تھی۔ یہاں معاملہ زیادہ گھمبیر ہے۔ کیا پیٹر ہینڈکے کے خیالات سے نظر چُرائی جا سکتی ہے جس طرح نوبیل انعام دینے والوں نے چُرائی ہے۔ ؟
ان ہی جیسے خیالات کو سمیٹنے کی کوشش کر رہا تھا کہ کمپیوٹر اسکرین چمک اٹھا۔ ایک نیا میسیج کسی نے بھیجا تھا۔ پولش ادیبہ کی انگریزی مترجم خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی اور اس سے پہلے اپنی طویل جدوجہد کے ماہ و سال یاد کر رہی تھی کہ ناشرین کی توجہ حاصل کرنے میں کس قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اب ناشرین اس لکھنے والی کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔ اس نے لکھا کہ نوبیل انعام تو ایسے ہی ادیبوں کے لیے بنا ہے۔ یقیناً ایسا ہوگا۔ مگر اسی سانس میں پیٹر ہینڈکے کو انعام دے کر سوئیڈن کی اکادمی ادبیات اس انعام کی گرتی ہوئی ادبی ساکھ کو بحال کرنے کے بجائے ایسے سوالات کی طرف موڑ دیا ہے جن کا ادب کے معیار سے کوئی تعلق نہیں۔
چندسال پہلے پیٹر ہینڈکے کا ایک بیان سامنے آیا تھا جس میں انہوں نے نوبیل انعام کو وقت کا زیاں اور ازکار رفتہ قرار دے کر اس کے بند کر دینے کی سفارش کی تھی۔ اس وقت میرا جی چاہ رہا ہے کہ ان کی اس بات سے سوفی صد اتفاق کا اعلان کر دوں!