جو کچھ ہو رہا ہے نہیں ہونا چاہیے تھا، جو نہیں ہوا اُسے نہیں ہونے دینا چاہیے اور جو ہو سکتا ہے اسے ابھی سے بھانپ لینا چاہیے۔
فیصلے کی گھڑی میں کون کون کہاں کہاں شریک ہے یہ جاننا اہم بھی ہے اور دلچسپ بھی۔ کیا کیا ہو گیا اور کیا اور ہونا باقی ہے؟
بات صرف اتنی سی ہے کہ گذشتہ ایک سال کے واقعات اب کلائمیکس کو پہنچ گئے ہیں۔ نواز شریف، مریم نواز اور آصف زرداری کا جیل جانا، شاہد خاقان، سعد رفیق، رانا ثناء اللہ اور خورشید شاہ کا بھی سلاخوں کے پیچھے جانا عمران حکومت کے لیے کسی معجزے سے کم نہ تھا۔
پارلیمان کے اندر اور باہر کوئی خاص اپوزیشن موجود نہ تھی۔ بلاول نے پارلیمان کے اندر خوب مقابلہ کیا مگر پارلیمنٹ عملاً غیر فعال ہے اور صدارتی احکامات پر قانون سازی کی جارہی ہے۔
عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم بھی پڑھیے
میڈیا پر قدغنیں اور گذشتہ ایک سال میں ایسی فضا بنا دی گئی ہے کہ عوام سے لے کر اشرافیہ اور صحافیوں سے لے کر میڈیا مالکان دیوار سے لگ چکے ہیں۔
یہ ماحول کس نے بنایا اور کیوں بنایا، ریاستی ادارے کہاں کہاں شریک رہے، نہ تو یہ چھپا ہے اور نہ ہی چھپ سکے گا۔
سیاست کی پچ پر کوئی بھی کھلاڑی شکست ماننے کو تیار نہیں۔ کپتان جو وعدہ لے کر آیا اسے پورا کرتے کرتے ایک سال میں کھیل وہاں پہنچ گیا جہاں سے اصل میں اُسے شروع ہونا چاہیے تھا۔
جو اوور آخری گیندوں کے تھے انہیں پہلے ہی کھیل لیا گیا، امپائر نے ساری توانائی ایک ہی کھیل اور ایک ہی کھلاڑی پر صرف کردی۔ یہ سوچے بنا کہ دوسری طرف کے کھلاڑی نہ صرف تجربہ کار ہیں بلکہ غیر مطمئن عوام کی نبض پر ہاتھ رکھے ہوئے ہیں۔
کہانی میں دلچسپ موڑ وہاں آیا جہاں جیل میں بند نواز شریف نیب کی حراست میں شدید بیمار پڑ گئے۔ اُن کی بگڑتی حالت نے باور کرایا کہ پنجاب میں ایک اور بھٹو کو کسی طور جنم نہ لینے دیا جائے، یوں نواز شریف کی صحت کی دعا وہ بھی کرنے لگے جن کے لبوں پر حرفِ دعا نہ تھا۔
نواز شریف طبی ضمانت پر ہیں اور اسے محض حسن اتفاق سمجھیے کہ یہ تمام پیش رفت عین اس وقت ہوئی جب مولانا آزادی مارچ کا آغاز کر رہے تھے، قافلے نکل چکے تھے اور یہاں شہباز شریف عدالت پہنچے کہ میاں صاحب کو ضمانت دی جائے۔ عدالت نے قانونی تقاضے پورے کیے مگر نواز شریف علاج کے لیے باہر نا گئے۔
نواز شریف پر خاندانی دباؤ بڑھ رہا ہے مگر ابھی تک وہ باہر جانے کے حامی نہیں ہیں۔ نواز شریف باہر جا کر چپ رہنے اورسیاست سے لا تعلقی کا اعلان کرنے کو قطعی تیار نہیں۔
وجہ ایک ہی ہے کہ اگر ایسا کرنا تھا تو ایک سال پہلے ہی ہو جانا چاہیے تھا۔ مریم ایک سال باہر رہ کر واپس آ بھی جائیں تو چار سال بعد ہونے والے انتخابات میں شرکت سیاسی طور پر فائدہ نہیں ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے۔
نواز شریف جیل میں تھے تب بھی سیاست کی کمان اپنے ہاتھ میں رکھی۔ مولانا فضل الرحمن کے مارچ کا روڈ میپ مرتب کرنے سے لے کر سڑکوں کی عملی سیاست تک نواز شریف نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
رابطے منقطع ہونے کے باوجود ربط برقرار رکھا گیا۔ اُدھر سیاست کے اہم کھلاڑی آصف زرداری کی آشیر باد بھی مولانا کے ساتھ رہی ہے۔
میں نے چوبیس ستمبر کو ’روک سکو تو روک لو‘ کے نام سے کالم میں یہ تحریر کیا تھا کہ حزب اختلاف جن باتوں پر زور دے رہی ہے اُن میں وزیراعظم کا استعفیٰ، موجودہ اسمبلی میں سے وسیع البنیاد حکومت کا قیام جو آٹھ سے 12 ماہ کے دوران نئے الیکشن تک کام کرے، عدالتی کمیشن کا قیام جو سیاست دانوں کے خلاف مقدمات کو ریویو کرے اور ان کے ری ٹرائل کی سفارش کرے، میڈیا پابندیوں کا خاتمہ اور سیاسی قیدیوں سے کیے گئے سلوک کا جواز پیش کرنا شامل ہے۔
اب مولانا اسلام آباد پہنچ رہے ہیں، نواز شریف باہر ہیں اور مولانا سے رابطے میں ہیں۔ مولانا اسلام آباد پہنچ کر جلسے کی جگہ تک محدود رہتے ہیں یا شاہراہ دستور پر براجمان ہوتے ہیں، اوپر تحریر کردہ مطالبات پر رہتے ہیں یا اگلے مرحلے کی طرف جاتے ہیں۔
اپنے مطالبات کو نہیں منوا پاتے تو کیا ہو گا اور منوا لیا تو نتیجہ کیا نکلے گا۔ مگر غور طلب بات یہ ہے کہ شہباز اور بلاول مولانا کو دھرنا نومبر کے اختتام تک لے جانے میں کیوں کامیاب نہ ہو سکے؟
اسی سوال کے جواب میں سب کچھ چھپا ہے۔۔۔ دیکھنے والے بھی بلا کی نظر رکھتے ہیں۔