پاکستان مزدور محاز کے رہنما اور پاکستان میں مزدور جہدوجہد کے قائد اعظم طفیل عباس کی یاد میں کراچی آرٹس کونسل میں جلسہ تھا۔ ان کے انتقال کو 40 دن سے زیادہ گزر چکے تھے اور دنیا بھر سے ان کے لیے سرخ سلام آ چکے تھے۔ ایسی ایسی جگہوں سے جن کے بارے میں یہ خبر بھی نہیں تھی کہ وہاں اب بھی کمیونسٹ پائے جاتے ہیں۔
ایران کی مزدور پارٹی کے طوفان گروپ نے سلام بھیجا۔ تیونس سے ایکواڈور سے بیان جاری ہوئے، جرمنی اور امریکہ کی کمیونسٹ پارٹی نے سیلیوٹ کیا۔ ہندوستان میں تعزیتی جلسے ہوئے۔ اور اب ان کے پنڈی، پشاور، لاہور سے آئے ہوئے ساتھی ان کو یاد کرا رہے تھے اور شاید ہی کسی پاکستانی مزدور رہنما یا کسی بھی سیاسی لیڈر کو اِتنا پیار کرنے والے ساتھی ملے ہوں گے۔
کسی نے کہا جب پچاس سال پہلے پنڈی کے سٹڈی سرکل میں چلے تھے تو یقین نہیں آیا کہ یہ مزدور لیڈر بنے گا یا ہالی وُڈ کا ایکٹر۔
کسی نے یاد کرایا کہ پی آئی اے بننے سے پہلے اورینٹ ایئرویز ہوتی تھی۔ طفیل عباس نے اس میں بھی یونین بنوائی تھی۔ ایک ساتھی نے کہا وہ پاکستان میں مزدوروں کی تحریک کے لال شہباز قلندر تھے۔ اِنقلاب زندہ باد کے نعروں کے بیچ نیو یارک سے براستہ گھوٹکی حسن مجتبیٰ کا نعرہ مستانہ پڑھا گیا۔
یہ بھی پڑھیے
پوری قوم اقبال پر پی ایچ ڈی کیے بیٹھی ہے!
ایک مزدور رہنما نے کہا کہ طفیل عباس وہ اِنقلابی تھے جن کا انقلاب پر ایمان کبھی ختم نہیں ہوا۔ اگر وہ آج ہوتے تو ہمیں بتاتے کہ یہ جو مولانا فضل الرحمان اِسلام آباد پر چڑھائی کررہا ہے۔ یہ بھی ہمارا ہی کام کر رہا ہے۔
طفیل عباس رشتے میں میرے سسرالی خالو تھے جب بھی ملتے دور سے ہی نعرہ لگا کر پوچھتے یار حنیف کیا نقشے ہیں اور اُس کے بعد جو سیاسی نقشے بنتے وہ تقسیم سے پہلے کے کمیونسٹوں کی بیوقوفیوں سے شروع ہو کر ایوب اور بھٹو کے دور کی جیلوں کے اندرونی حالات سے لے کر عمران خان کی تحلیل نفسی تک پہنچتے جو ان سے کبھی سیاسی مشورہ اور مدد لینے بھی آتے تھے۔
جب طفیل عباس کے کامریڈ اِس ملک کے سرمایہ داروں اور سیٹھوں کو اپنے پشتو، بلوچی اور سندھی لہجوں میں صلواتیں سنا رہے تھے تو میں سوچ رہا تھا کہ طفیل عباس آسمانوں میں کیا سیاسی نقشے بنا رہے ہونگے۔
لواحقین سے اکثر کہا جاتا ہے اللہ مرحوم کو جنت نصیب کرے۔ مجھے یقین ہے کہ طفیل عباس نے جنت میں اپنی جدوجہد کا آغاز کردیا ہوگا۔
فرشتوں کا ایک وفد اللہ کے پاس ایک شکایت نامہ لے کر پہنچا ہوگا کہ اے پروردگار ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ تیری عبادت کے لیے ہم ہی کافی ہیں، انسان بنانے کی کیا ضرورت ہے لیکن تو دونوں جہانوں کا مالک ہے، تو نے ہماری ایک نہ مانی اور انسان بنایا لیکن یہ طفیل عباس جیسا انسان کیوں بنا ڈالا، اس نے جنت میں اپنے محل کے باہر لال رنگ کا ایک بینر لٹکا دیا ہے جس پر لکھا ہے جنتی مزدور محاذ۔
ہر آنے جانے والے خدمتگار فرشتوں کو غیر آسمانی زبان میں گالیاں دیتا ہے اور کہتا ہے کہ تم لوگ اس استحصالی نظام کا حصہ بن گئے ہو کبھی یونین بنانے کا کیوں نہیں سوچتے۔ تمھارے ورکنگ ہاورز کیا ہیں، کبھی بونس مانگا ہے۔
آؤ مل کر بیٹھو جنت میں ہڑتال کروانے کے بارے میں بیلٹ کروا لیتے ہیں۔ ہم میں سے کچھ فرشتے تو واقعی یہ سوچنے لگے ہیں کہ ہم اِس جنتی کلاس سسٹم میں سب سے نیچے کیوں ہیں؟
طفیل عباس نے اب تک حوروں کا ایک سٹڈی سرکل بھی بنا لیا ہوگا اور اُن میں سے کچھ مان گئی ہوں گی کہ وہ پرولٹاری کا حصہ ہیں۔ کارنر میٹنگوں میں کوئی حور مکا لہرا کر کہہ رہی ہوگی کہ ہمیں کس کام پر لگایا ہوا ہے کہ ساری زندگی یہاں بیٹھ کر مولانا طارق جمیل کا انتظار کرو۔
حوروں سے ہڑتال کروانا طفیل عباس کی ایک گہری سیاسی چال ہوگی۔ کیونکہ پاکستان کے مزدور محاذ کی طرح جنتی محاذ بھی ایک چھوٹی سی پارٹی ہے اور نظام گرانا چاہتی ہے اور اگر حوریں ہڑتال پر چلی جاتی ہیں تو پورا نظام دھڑام سے گر پڑے گا کیونکہ مومن آخر شہد چاٹنے کے لیے تو جنت نہیں جانا چاہتے ہیں وہ تو بوٹ بیسن کے اسلامی شہد سٹور سے بھی مل جاتا ہے۔
اب تک کچھ فرشتے سرخ ہو چکے ہونگے۔ طفیل عباس نے انھیں ہرکارے بنا کر جہنم بھیجا ہوگا کہ جاؤ سٹالن اور ماؤزے تنگ کو پیغام دو کہ مارکس کی تعلیمات سے انحراف کر کے تم نے جدوجہد کو بہت نقصان پہنچایا، اب آرام سے ہو۔
ساتھ ہی ایک رقعہ بھی بھیجا ہوگا کہ اپنے گناہوں کی معافی مانگ کر محاذ میں شامل ہوجاؤ۔ پارٹی کو تجربہ کار ورکروں کی شدید ضرورت ہے اور جس نے یہ جنت اور جہنم کو تقسیم کر رکھا ہے میں اس سے خود بات کرلونگا۔ وہ میری بہت سنتا ہے اور تمھیں تو پتہ ہی ہے کہ مجھے زورآوروں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنے کا بہت تجربہ ہے۔