پاکستانی سوشل میڈیا صارفین آئے روز یا تو کسی نہ کسی موضوع پر بحث کرتے نظر آتے ہیں یا کسی کی درگت بناتے۔ لیکن گذشتہ روز پاکستانی ٹوئٹر پر ایک مختلف قسم کا ٹرینڈ دیکھنے میں آیا۔ اور وہ ٹرینڈ ہے #SouthAsianArtists
#SouthAsianArtists کے اس ٹرینڈ میں ناصرف بہت سے پاکستانی بلکہ جنوبی ایشیا کے دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے فنکار بھی اپنا آرٹ شئیر کر رہے ہیں۔
اگرچہ چند مرد حضرات بھی اپنا کام شئیر کر رہے ہیں لیکن یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس ٹرینڈ میں خواتین فنکار چھائی ہوئی ہیں۔
ٹوئٹر پر اس ٹرینڈ کا آغاز کیسے ہوا، جنوبی ایشیا کی خواتین فنکاروں کو کن کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کے لیے اپنے کام کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر آن لائن شئیر کرنا کیوں ضروری ہے، یہ جاننے کے لیے ہم نے اس ٹرینڈ کی خالق فاطمہ واجد سے بات کی۔
یہ بھی پڑھیے
رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے
’آپ کی آنکھ کیمرے پر اور مجمعے کی نظریں آپ پر‘
’میں عورت ہوں، دنیا کو ایک عورت کی نظر سے دیکھتی ہوں‘
ساؤتھ آیشین آرٹسٹ ٹرینڈ کی آرگنائزر 20 سالہ فاطمہ واجد، نیشنل کالج آف آرٹس میں ویژول کمیونیکیشن ڈیزائن کی طالبہ ہیں اور ایک ’السٹریٹر‘ ہیں۔
فاطمہ کبھی کبھار فری لانس کام بھی کرتی ہیں۔
خاص اس ٹرینڈ کے لیے جنوبی ایشیائی فنکاروں کو دعوت دینے کے لیے فاطمہ نے ایک پوسٹر بنایا جس پر لکھا تھا ’تھرڈ ٹائم از دا چارم )تیسری بار تو قسمت کو یاوری کرنی چاہیے۔‘
اس ٹرینڈ کو شروع کرنے کا خیال کیسے آیا اس بارے میں بتاتے ہوئے فاطمہ کہتی ہیں کہ آج سے تین سال قبل جب انھوں نے ٹوئٹر پر #DrawingWhileblack کا ٹرینڈ دیکھا تو وہ بہت متاثر ہوئیں کہ افریقن کمیونٹی کیسے اپنے فنکاروں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔
پھر میں نے اس ٹرینڈ کی خالق سے بات کی کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ ہم جنوبی ایشیا کے فنکاروں کے لیے بھی اس طرح کا کوئی ٹرینڈ شروع کریں جس میں وہ اپنا کام شئیر کر سکیں اور دنیا کو اپنے ہنر سے روشناس کرا سکیں۔
جیسے ہی انھوں نے مجھے گرین لائٹ دے دی میں نے یہ ٹرینڈ شروع کر دیا۔ فاطمہ کہتی ہیں اس سال ملنے والا ریسپانس پچھلے دو سالوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔
’سوشل میڈیا اور تخلیقی پلیٹ فارم پر دیسی آرٹسٹ کہیں نظر نہیں آتے‘
فاطمہ کے مطابق زیادہ تر پاکستانی فنکاروں کا فن تب تک سامنے نہیں آتا جب تک انھیں گیلریز میں نمائش جیسا کوئی روایتی ذریعہ میسر نہ ہو۔
’اس لیے میرے لیے یہ ہیش ٹیگ شروع کرنا بہت ضروری تھا۔‘
وہ کہتی ہیں ’میں نے نوٹس کیا کہ سوشل میڈیا اور آن لائن ایسے پلیٹ فارمز پر جو فنکاروں کو اپنے تخلیقی کام شئیر کرنے کے مواقع دیتے ہیں، وہاں دیسی آرٹسٹ کہیں نظر نہیں آتے۔‘
’اگر تو آپ بہت بڑے اور مشہور فنکار ہیں اور سب لوگ آپ کے ہنر کے بارے میں جانتے ہیں تو تب تو آپ کو شاید اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن دوسری صورت میں آن لائن اپنے فن کی مشہوری بہت ضروری ہے ورنہ کوئی آپ کے کام کو دیکھتا تک نہیں۔‘
پاکستانی فنکاروں کو پیش آنے والے مسائل کے بارے میں بات کرتے ہوئے فاطمہ کہتی ہیں ’ایک تو انھیں خاندان اور کمیونٹی سے سپورٹ نہیں ملتی، جب انھیں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی نہیں ملتی یا جب ان کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، اس سے ناصرف ان کا کام متاثر ہوتا ہے بلکہ معاشرے میں بھی کوئی مثبت تبدیلی نہیں آتی۔‘
’جب آپ اپنے فنکاروں کی حوصلہ افزائی نہیں کریں گے تو انھیں مواقع کیسے ملیں گے۔‘ فاطمہ کہتی ہیں اسی وجہ سے دوسرے ملکوں کے آرٹسٹ بازی لے جاتے ہیں اور پاکستانی اور جنوبی ایشیا کے دوسرے آرٹسٹ پیچھے رہ جاتے ہیں۔
’خواتین آرٹسٹ کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جاتی ہے‘
فاطمہ کہتی ہیں کہ جنوبی ایشیا میں خواتین آرٹسٹ کو ایک مرد آرٹسٹ کے مقابلے میں زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
’اگر آپ ایک خاتون آرٹسٹ ہیں تو ایک مرد آرٹسٹ کے مقابلے میں اکثر اوقات آپ کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بہت سے اہم مواقع پر خواتین کو شامل ہی نہیں کیا جاتا۔ اگر وہ کوئی آئیڈیا شئیر کرنا چاہتی ہیں تو اسے سنا تک نہیں جاتا۔‘
فاطمہ کہتی ہیں کہ پاکستان میں خواتین آرٹسٹ کو اپنی نمائندگی کا بڑا مسئلہ ہے۔
پاکستانی آرٹسٹ کے لیے مغربی ممالک میں نام بنانا کتنا مشکل ہے؟
فاطمہ کا کہنا ہے کہ مغربی ممالک اور امریکہ کی انڈسٹری تعصب کا شکار ہے۔
’مغربی ممالک میں کوئی ادارہ کسی کو کام پر رکھنے یا کام دینے سے پہلے نام دیکھتا ہے۔ دیسی ناموں کو تو وہ سب سے پہلے نکال باہر کرتے ہیں۔‘
فاطمہ کہتی ہیں کہ پاکستانی اور دیسی آرٹسٹ کی چونکہ آن لائن، سوشل میڈیا اور دوسرے تخلیقی پلیٹ فارمز پر نمائندگی کم ہے اس لیے انھیں اپنا کام دکھانے میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
’پرائیوٹ کمشنر یا گیلیریوں کے مالکان اور کیوریٹر ان کے کام پر دھیان ہی نہیں دیتے۔ اس لیے ایک انگریز آرٹسٹ کے مقابلے میں پاکستانی اور جنوبی ایشیا کے فنکاروں کو اپنا نام بنانے اور کام حاصل کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔‘
فاطمہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور ان پر اپنا کام شئیر کرنے کی سہولت کو ایک بہت بڑی نعمت مانتی ہیں۔
’آپ صرف ایک ہیش ٹیگ کے ذریعے پوری دنیا کو اپنا کام دکھا سکتے ہیں۔‘
کیا چیز پاکستانی آرٹ کو دوسرے ممالک کے آرٹ سے منفرد بناتی ہے؟
فاطمہ کا کہنا ہے کہ ’پاکستانی آرٹ میں ہماری ثقافت کی ایک بہت واضح چھاپ نظر آتی ہے جس کے پیچھے ہماری ہزاروں سال کی تاریخ ہے۔‘
’اس میں مغل آرٹ کا مکسچر بھی ہے، منیچر آرٹ بھی نظر آتا ہے، انڈین فنکاروں کا کام بھی۔۔ یہ سب کچھ اکٹھا ہو کر آپ کو پاکستانی آرٹسٹ کے فن میں نظر آئے گا۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ حالیہ سالوں میں نوجوان پاکستانی فنکاروں کے کام میں اینیمیشن اور خاص کر جاپانی اینیمیشن کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔
’پاکستانی فنکاروں کے کام میں مختلف ثقافتوں کے ملاپ کے ساتھ ایک خاص پاکستانی ٹچ نظر آتا ہے۔‘
پاکستانی آرٹسٹ شہزل ملک کے کام کا حوالہ دیتے ہوئے فاطمہ کہتی ہیں کہ شہزل کے آرٹ میں پاکستانی خواتین کو پیش آنے والے سماجی مسائل کی عکاسی ہوتی ہے۔
’زیادہ تر پاکستانی خواتین آرٹسٹ اپنے آرٹ کے ذریعے خواتین کے مسائل کو اجاگر کرتی ہیں۔ جس کو دیکھ کر معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ دیسی آرٹسٹ کا کام ہے۔ ‘
فاطمہ کہتی ہی کہ مرد پاکستانی آرٹسٹ کے کام میں بھی ثقافت کی جھلک نظر آتی ہے ’اگر کوئی لاہور سے تعلق رکھتا ہے تو اس کے کام میں لاہور کی محبت نظر آئے گی۔‘
فاطمہ سے کچھ آرٹسٹ تو یہ بھی پوچھتے نظر آئے کہ یہ ایونٹ کہاں منعقد ہو رہا ہے؟
جس پر فاطمہ نے انھیں بتایا کہ یہ آن لائن ایونٹ ہے اور اگر آپ جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والی آرٹسٹ ہیں تو دنیا میں جہاں کہیں بھی رہتے ہوں آپ اپنا آرٹ شئیر کر سکتے ہیں۔ بس پھر کیا تھا بے شمار پاکستانی خواتین فنکاروں نے اپنا کام شئیر کرنا شروع کیا۔
ایسے فنکاروں نے بھی اپنا آرٹ شئیر کیا جنھوں نے اس سے پہلے کبھی کسی کو بتایا تک نہ تھا کہ ان میں یہ ہنر بھی موجود ہے۔
فاطمہ کے شروع کیے گئے اس ٹرینڈ میں ناصرف پاکستانی بلکہ سرحد پار سے بے شمار انڈین آرٹسٹ بھی اپنا کام شئیر کرتی نظر آئیں۔
فاطمہ نے اس ہیش ٹیگ کے لیے کسی اور پلیٹ فارم کے بجائے ٹوئٹر ہی کیوں چنا، اس بارے میں وہ کہتی ہیں کہ ’ٹوئٹر کا سسٹم بہتر ہے۔ ٹوئٹر پر آپ اپنا فن ٹیکسٹ کے ساتھ اپ لوڈ کر سکتے ہیں۔ آرکائیو کر سکتے ہیں۔ اور ملٹی پل لے آؤٹس بھی بنا سکتے ہیں۔‘
’اس سب کے علاوہ ٹوئٹر پر لوگوں سے رابطہ کرنے میں زیادہ آسانی ہوتی ہے۔‘
فاطمہ کہتی ہیں کہ کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کام شئیر کرنے میں کاپی رائٹ جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور کوئی بھی آپ کے کام کو اپنے نام کے ساتھ شئیر کر سکتا ہے اس لیے یہ آرٹسٹ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے کام کو واٹر مارک کرے اور اگر کہیں کوئی اور آپ کا کام اپنے نام سے شئیر کرتا نظر آئے تو اسے رپورٹ کریں۔
فاطمہ کے مطابق گزشتہ سالوں کے مقابلے میں اس مرتبہ اس ٹرینڈ پر انھیں خاصا مثبت ریسپانس ملا جس سے وہ بہت خوش ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ کافی لوگوں نے ان سے رابطہ کر کے بتایا کہ پہلے کے مقابلے میں ان کا کام زیادہ لوگوں تک پہنچ رہا ہے اور لوگ انھیں کام پر رکھنے کے لیے رابطہ کر رہے ہیں جو شاید ویسے ممکن نہ تھا۔
اس ہیش ٹیگ میں ناصرف جنوبی ایشیا میں بسنے والے فنکار بلکہ دنیا کے مختلف ممالک میں رہنے والے جنوبی ایشیائی افراد اپنا آرٹ شیئر کر رہے ہیں۔
فاطمہ کہتی ہیں ’پوری دنیا میں دیسی آرٹسٹ ہیں انھیں اپنا کام دکھانے کے لیے صرف ایک پلیٹ فارم چاہیے تھا۔ وہ پلیٹ فارم مل گیا ہے اور وہاں ان کے فن کی قدر کی جا رہی ہے جس سے ان کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔‘
’پاکستان اور پورے برِصغیر میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے۔ جن لوگوں کو فنکاروں کے کام کی ضرورت پڑتی ہے، بجائے اس کے کہ وہ باہر جاکر کسی امریکین آرٹسٹ کو پکڑیں،آپ پہلے مقامی ٹیلنٹ کو دیکھیں اور ہمیشہ ایک پاکستانی یا برِصغیر کے آرٹسٹ کو کام دیں کیونکہ ہمارے پاس ٹیلنٹ ہے بس اس کو پھلنے پھولنے کے مواقع نہیں دئیے جا رہے۔‘