فیٹ شیمنگ کا شکار رہی حرا مسرور ایک آرٹسٹ اور ٹیکسٹائل ڈیزائنرر ہیں۔ فیٹ شیمنگ کسی کی زندگی پر کیسے اثر انداز ہوتی ہے، اس حوالے سے انھوں نے بی بی سی سے گفتگو کی۔ یہ ہے ان کی کہانی ان ہی کی زبانی۔
بچپن سے ایک بات جو مجھے کہی جاتی تھی اور میرے دماغ میں آج تک بیٹھی ہوئی ہے، وہ ہے 'اوئے موٹی۔' لوگ طنزیہ طور پر آپ کو آپ کے نام کے بجائے موٹی کہہ کر بلاتے ہیں اور مجھے اسی طرح بلایا جاتا تھا۔
بچے کو جب اس کے خاندان والے ایسے بلائیں تو اتنا برا نہیں لگتا ہے لیکن اگر کوئی باہر والا آپ کو 'موٹا' کہے تو انسان کو زیادہ محسوس ہوتا ہے۔
بچہ جتنا بھی پُراعتماد ہو لیکن لوگوں کے ایسے رویے سے اس کی زندگی کے کسی نہ کسی حصے پر فرق ضرور پڑتا ہے۔
باڈی شیمنگ پر بی بی سی اردو کی خصوصی سیریز
یہ بات ہمارے معاشرے میں عام ہے کہ جو بھی شخص موٹا ہو گا ہم اس کی جسمانی حالت پر لازمی تبصرہ کریں گے۔ یہ اتنا عام ہے کہ تبصرہ کرنے والے کو بھی نہیں پتا ہوتا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔
ہمارے گھر جو بھی آتا، میری بڑی بہن کو دیکھ کر یہی کہتا تھا کہ حرا بڑی اور میری بہن چھوٹی لگتی ہے۔ دیکھا جائے تو یہ کوئی بری بات نہیں ہے لیکن ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں ہی اکٹھی ہو کر انسان کے اندر اپنے لیے نفرت پیدا کرنا شروع کر دیتی ہیں۔
’شادی کیسے ہو گی؟‘
ہماری ملنے والی تقریباً ہر دوسری آنٹی میرے موٹاپے کو دیکھ کر یہی جملہ کہتی تھیں ’بیٹا لڑکیوں کو اتنا موٹا نہیں ہونا چاہیے۔ شادی کیسے ہو گی؟ یہ کیسے ہوگا وہ کیسے ہوگا۔‘
مطلب آپ خصوصاً لڑکیوں کو بچپن سے ہی ذہنی دباؤ میں ڈال دیتے ہیں۔
میں یہ باتیں تب سے سن رہی ہوں جب میری شادی کی عمر بھی نہیں تھی۔ لوگوں کی ایسی باتیں آپ کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں کہ شاید آپ ایک مکمل انسان نہیں ہیں۔ اس سب کے باوجود بھی میں نے اپنے اندر ہمیشہ یہ اعتماد رکھنے کی کوشش کی ہے کہ مجھے یہ شرمندگی نہ ہو کہ میں موٹی ہوں۔
میں جانتی ہوں کہ موٹاپا کسی کے لے بھی اچھا نہیں ہوتا لیکن ضروری نہیں ہے کہ ہر موٹا شخص زندگی کے غیر صحت مند طور طریقوں کے باعث ہی موٹا ہو۔ کچھ لوگ اپنے جینز کی وجہ سے بھی موٹے ہوتے ہیں۔ اگر لڑکیوں کی بات کریں تو ان کے سو مسائل ہوتے ہیں جیسا کہ ہارمونز کی خرابی وغیرہ۔
موٹے لوگوں کے لیے مثبت پیغام
ہمارے ہاں کوئی موٹی لڑکی سڑک پر چل رہی ہو تو اکثرموٹر سائیکل سوار بھی 'اوئے موٹی' جیسے جملے کستے ہیں اور ایسی باتوں پر ہر کوئی جواب نہیں دیتا ہے کیونکہ کچھ لوگ شرمیلے ہوتے ہیں۔
انھی باتوں کی وجہ سے میں نے سوچا کچھ ایسا کروں کہ تمام موٹے لوگوں کو ایک مثبت پیغام دیا جائے تاکہ کم از کم ان میں اپنے آپ کو لے کر اعتماد پیدا ہو سکے۔
بطور ٹیکسٹائل ڈیزائنر میں خصوصی طور پر موٹے لوگوں کے لیے کپڑے بنانا چاہتی ہوں۔ جتنے بھی برانڈز ہیں آج بھی میری اکثر وہاں پر لڑائی ہو جاتی ہے کیونکہ وہاں ہمیشہ سب سے چھوٹے سائز دستیاب ہوتے ہیں۔ عموماً لارج سائز بھی مل جاتا ہے لیکن ایکسٹرا لارج یا ڈبل ایکسٹرا لارج سائز زیادہ تر نہیں ملتا ہے۔
میں ہمیشہ ڈیزائنرز سے ایک ہی سوال کرتی ہوں کہ موٹے لوگ بھی تو ہوتے ہیں وہ کیا کپڑے نہ پہنیں؟
’اوئے موٹی‘ پر مقالہ
میں نے لاہور کی پنجاب یونیورسٹی کے آرٹ اینڈ ٹیکسٹائل ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لیا اور چار سالہ پڑھائی مکمل کرنے کے بعد جب مقالے کے لیے عنوان چننے کا وقت آیا تو میری ٹیچر نے مجھ سے پوچھا کہ حرا آپ کس موضوع پر کام کرنا چاہتی ہیں؟
میں نے انھیں بتایا کہ میرے مقالے کا عنوان ’اوئے موٹی‘ ہو گا۔
ٹیچر نے مجھ سے کہا حرا اب تم خود لوگوں کو اپنے اوپر باتیں کرنے کا موقع دے رہی ہو۔ لوگ بہت باتیں کریں گے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ رزلٹ بنانے والے استاد تمھارے نمبر یہ کہہ کر کاٹ لیں کہ تم اپنے کام کے ذریعے موٹاپے کو فروغ دے رہی ہو۔
مجھے بہت سے لوگوں نے روکا کہ میں یہ کام نہ کروں لیکن میں سب کو بتانا چاہتی تھی کہ لوگوں کی باتوں سے کسی کو کتنی تکلیف ہو سکتی ہے۔
میں نے مقالے میں اپنی زندگی کے تین مراحل دکھائے جن سے میں گزری تھی۔ پہلا مرحلہ جس پر میں نے کام کیا وہ تھا 'کونشسنیس' یعنی موٹاپے کا شعور یا فکر۔
پہلا مرحلہ: ’فکر‘
اس مرحلے کے بارے میں بتانے کے لیے میں نے ایسی ڈرائنگز اور کپڑے سے تیار کردہ ڈھانچے بنائے جس سے یہ ظاہر ہو کہ ایک شخص جو اس فیز میں ہوتا ہے وہ کیسا محسوس کرتا ہے۔
اس کے لیے میں نے کسی بھی موٹے شخص کے دماغ میں ہر وقت چلنے والے انچ ٹیپ اور مشینیں بنائیں۔ عموماً لوگ جب اس مرحلے سے گزر رہے ہوتے ہیں وہ ہر وقت یہ سوچتے ہیں کہ ہم نے کیا کھانا ہے اور کیا نہیں کھانا۔ اس کے علاوہ وہ ہر وقت اپنے آپ کو دیکھتے ہیں کہ وہ کہاں سے موٹے ہیں۔
آپ بہت پتلی لڑکیوں کو دیکھتے ہیں، ان جیسا پتلا ہونا چاہتے ہیں اور ہر وقت اپنے آپ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ میں ایسی کیوں نہیں ہوں۔ میں جب اس فیز (مرحلے یا دور) سے گزر رہی تھی تو میں ہر وقت یہی سوچتی تھی کہ سب میری کھانے کی پلیٹ کو دیکھ رہے ہیں کہ میں کتنا کھاتی ہوں۔ اس لیے میں اکثر کھانا روک دیتی تھی۔
دوسرا مرحلہ: ’ڈپریشن‘
اس مرحلے تک آپ اس لیے پہنچتے ہیں کیونکہ یہ ڈپریشن سوسائٹی آپ کو دیتی ہے کہ آپ سوسائٹی کی نظر میں ایک مکمل انسان نہیں ہیں۔
لوگوں کو لگتا ہے کہ جو رویے اور طریقہ کار انھوں نے بنا لیے ہیں کہ ایک جسمانی طور پر آئیڈیل فگر (جسم) کیسا ہوتا ہے اسی طرح کا ہر شخص کو ہونا چاہیے۔ اگر وہ ویسا نہیں ہے تو وہ اچھا بھی نہیں لگ سکتا۔ لوگوں کے ایسے رویوں سے انسان کے اندر اپنے لیے نفرت پیدا ہو جاتی ہے۔
اس مرحلے میں آپ کے جسم پر اتنی باتیں کی جاتی ہیں کہ آپ کو رشتہ نہیں ملے گا، آپ بچے کیسے پیدا کریں گی، آپ کو بیماریاں لگ جائیں گی، آپ پر کپڑے اچھے نہیں لگ رہے ہیں۔ یہ سب وہ باتیں ہیں جو آپ کو ڈپریشن میں لے جاتی ہیں۔
یہ ساری باتیں سن کر میں نے بھی پتلے ہونے کی کوشش کی لیکن مجھے ناکامی ہوئی اور میں اس کے بعد کافی عرصہ تک ڈپریشن میں رہی۔ اس مرحلے میں آپ ڈیپریشن کی گولیاں کھاتے ہیں اور لوگوں سے ملنا جلنا بند کر دیتے ہیں۔
تیسرا مرحلہ: ’اپنی دنیا‘
اس مرحلے میں، میں نے اپنے کام کے ذریعے ’فیٹوسفیئر‘ دکھایا ہے، یعنی موٹے لوگوں کی دنیا۔
اس دنیا میں سب موٹے لوگ خوش ہیں اور سوسائٹی ان کو ان کے موٹاپے کے ساتھ ہی قبول کر رہی ہے۔ اس دنیا میں رہنے والا موٹا بندہ بھی خوش رہ رہا ہے۔
اس فیز میں ایک ڈانسنگ بیلرینا کو ڈانس کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے جو بہت موٹی ہے مگر وہ ڈانس کرتے ہوئے عجیب نہیں محسوس کر رہی۔ اسی طرح ایک بہت موٹی لڑکی ہے وہ بھاگ رہی ہے اور خوش ہے۔ اس میں بھرے جانے والے رنگوں سے میں نے یہ دکھایا ہے کہ وہ اپنی زندگی کو انجوائے کر رہی ہے۔
میں آئندہ بھی اپنے کام کے ذریعے موٹے لوگوں کی حمایت کرتی رہوں گی۔ لیکن لوگوں کو بولنے سے پہلے سوچنا ضرور چاہیے کیونکہ آپ کی چھوٹی چھوٹی باتیں کسی کو اتنی تکلیف دے جاتی ہیں کہ ان کی زندگی بدل جاتی ہے۔
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیےبلاگ کا گروپ جوائن کریں۔