دمشق :کردش فورسز نے کہا ہے
کہ ترکی اور روس کے مابین معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے شام کے شمالی سرحد سے فورسز
کا انخلا جاری ہے۔
میڈیارپورٹوں کے
مطابق ترکی اور روس کے مابین شامی کرد فورسز (پی وائے جی) کو ترک سرحد سے 30 کلو
میٹر دور رکھنے کا معاہدہ طے پایا تھا۔
معاہدے کے تحت دونوں
ممالک کی فورسز 'سیف زون' میں مشترکہ پیٹرولنگ کریں گی۔
شامی کرد فورسز کی
جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ شامی کرد فورسز کو ترکی اور شامی سرحد سے کسی
نئی پوزیشن پرن متقل کیا جارہا ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا
کہ مرکزی حکومت کے تعلق رکھنے والی سیرین بارڈر گارڈ ترکی کے ساتھ منسلک سرحد پر
تعینات کی جائیں گی۔
دوسری جانب رطانیہ
میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم سیرین آبزرویٹری نے کہا کہ کردش ایس ڈی ایف فورسز
کے بے دخلی کا عمل شروع ہوگیا۔
ایس ڈی ایف کے ترجمان
نے کہا کہ کرد جنگجوو¿ں کو سرحد سے پیچھے کیا جارہا ہے۔
علاوہ ازیں شمالی شام
میں کردش جنگجوو¿ں کی فائرنگ سے ایک ترک سپاہی ہلاک اور 5 زخمی ہوگئے۔
ترک آرمی کے مطابق
سرحد پر عسکری آپریشن شروع ہونے سے اب تک 11 ترک سپاہی ہلاک ہوچکے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکا
کے صدر دونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مذکورہ علاقے سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے فیصلے پر
ترکی نے شمالی شام کے سرحدی حصے پر کردش جنگجوو¿ں کے خلاف 9 اکتوبر کو چڑھائی کی۔
ترک ملٹری نے بتایا
کہ سرحدی علاقے راس الیان میں ترک فوجی ہلاک ہوا جب فوجی خطے کی نگرانی کررہے تھے۔
واضح رہے کہ مذکورہ
علاقہ سیف زون پر مشتمل 30 کلومیٹر کے اندر موجود ہے۔
رجب طیب اردوان نے
مغربی ریاستوں پر تنقید کرتے ہوئے شام میں کرد جنگجوو¿ں کے خلاف ترکی کے آپریشن
میں تعاون نہ کرنے پر ان پر دہشت گردوں کا ساتھ دینے کا الزام عائد کیا تھا۔
انقرہ کا ماننا ہے کہ
وائے پی جی کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کی ذیلی 'دہشت گرد' تنظیم ہے جو ترکی
میں 1984 سے بغاوت کی کوششیں کر رہی ہے۔
انقرہ، امریکا اور
یورپی یونین کی جانب سے 'پی کے کے' کو بلیک لسٹڈ دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا ہے۔
انقرہ کی کرد فورسز
کے خلاف فوجی کارروائی پر بین الاقوامی سطح پر تنقید سامنے آئی ہے اور نیٹو ممالک
نے نئے اسلحے کی فروخت معطل کردی ہے۔
نیٹو کے سیکریٹری
جنرل جینس اسٹولٹین برگ نے 9 اکتوبر سے شامی کرد فورسز کو سرحد کے پیچھے دھکیلنے
کے لیے شروع ہونے والے آپریشن پر بارہا 'گہری تشویش' کا اظہار کیا تھا۔