سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ 14 ماہ تک کی عمر کے بچے بھی 'ایک، دو، تین' کا حقیقی مطلب سمجھنے سے کافی عرصے پہلے ہی گنتی کا تصور سمجھ سکتے ہیں۔
امریکی محققین کا کہنا ہے کہ جن بچوں کے سامنے بلند آواز میں گنتی کی جاتی ہے، وہ چیزوں کی تعداد کو پہچاننے کے اہل معلوم ہوتے ہیں۔
مگر ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر بچے پھر بھی اعداد والے الفاظ کے معنی تب تک پوری طرح نہیں سمجھ پاتے جب تک کہ وہ تقریباً چار سال کے نہ ہو جائیں۔
سائنسدان اب دیکھنا چاہتے ہیں کہ کیا گنتی جلد شروع کروانے سے بعد میں ریاضی میں بہتر مہارت پیدا ہو سکتی ہے۔
یہ تحقیق ڈیولپمنٹل سائنس نامی جریدے میں شائع ہوئی۔
یہ بھی پڑھیے
’اچھا برتاؤ کریں اور بچے پیدا نہ کریں‘
شیرخوار بچے کے ہمراہ دارالعوام میں
ہزاروں برس قبل بھی بچوں کو ’بوتل کا دودھ‘ پلایا جاتا تھا
امریکہ کی جان ہاپکنز یونیورسٹی میں کی گئی تحقیق میں 16 شیرخوار بچوں نے چار کھلونوں (چھوٹے کتوں یا گاڑیوں) کو ایک ایسے ڈبے میں چھپائے جاتے دیکھا جس کے اندر جھانکے بغیر وہ اس میں سے چیزیں نکال سکتے تھے۔
کبھی کبھی محققین ہر کھلونا اندر ڈالتے ہوئے بلند آواز میں کہتے، ’دیکھیں، ایک، دو، تین، چار۔ چار کتے۔‘
کبھی کبھی محققین صرف یہ کہتے، ’یہ، یہ، یہ، اور یہ۔ یہ کتے۔‘
جب کھلونے گن کر ڈالے جاتے تو بچوں کو واضح طور پر امید ہوتی کہ ایک سے زائد کھلونا ڈبے سے نکالا جائے گا۔
محققین کہتے ہیں کہ انھیں ٹھیک ٹھیک تعداد تو معلوم نہیں تھی مگر انھیں تعداد کا اندازہ ضرور تھا۔
مگر جب کھلونے گنے بغیر ڈالے گئے تو بچوں کی توجہ صرف ایک کھلونا باہر نکال لینے پر ہی ہٹ گئی، جیسے دیکھنے کے لیے کچھ اور نہ ہو۔
محقق جینی وانگ نے کہا: ’جب ہم نے چھپانے سے قبل بچوں کے سامنے کھلونے گنے تو انھیں اچھی طرح یاد تھا کہ اندر کتنے کھلونے تھے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ انھیں یہ ’نہایت حیران کن' محسوس ہوا اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیرخوار بچوں میں 'یہ فہم ہوتا ہے کہ جب دوسرے کچھ گن رہے ہوں تو اس کا تعلق چیزوں کی تعداد سے ہے۔‘
محققین سمجھتے ہیں کہ شیرخوار بچوں کے سامنے بلند آواز میں گننا اور انھیں گنتی کی کتابوں سے متعارف کروانا انھیں پری سکول سے بھی کہیں پہلے گنتی کا تصور سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے۔
محققین کی ٹیم اب یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ انگریزی بولنے والے بچے غیرملکی زبان میں کی گئی گنتی پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہیں یا نہیں۔