باز یا عقاب صدیوں سے عرب روایات کا اہم حصہ رہے ہیں۔ لیکن عرب ممالک میں یہ باز کہاں سے لائے جاتے ہیں؟
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق عرب شکاریوں کا شوق پورے کرنے والے ان بازوں میں سے بیشتر شکاری باز سپین سے لائے جا رہے ہیں۔اس طرح سپین باز برآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑاملک بن گیا ہے۔
سپین میں بازوں کے شکار کی روایت صدیوں پرانی ہے جس کے آثار قرون وسطیٰ سے ملتے ہیں جب عرب اور گوتھ قوم نے اسے سپین میں متعارف کروایا تھا۔
آج بازوں کا شکار، اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو کے ناقابل تسخیر ثقافتی ورثے کی فہرست میں بھی شامل ہے اور سپین میں بازوں کے اس کھیل سے تقریباً 3000 افراد جڑے ہیں۔
باز پالے والوں کے لیے سپین ایک بہترین جگہ ہے یہاں کی گرم اور خشک آب و ہوا ایک خاص قسم کے باز کو، جو ٹھنڈے علاقوں میں رہنا پسند کرتے ہیں، خلیج کے گرم موسم کا عادی بنانے میں مددگار ہے۔
گزشتہ برس سپین نے تقریباً 2800 باز برآمد کیے جن میں سے بیشتر خلیجی ممالک کو بھیجے گئے تھے۔
یہ تعداد برطانیہ کے برآمد کردہ 2500 بازوں سے زیادہ تھی۔
خلیج کے امیر طبقے میں تیزی سے شکار کرنے والے پرندوں کی بے حد قدر و قیمت ہے۔ حتیٰ کہ اکثر عرب خریدار محض ایک باز کے لیے ہزاروں یورو تک نچھاور کر دیتے ہیں۔
اگرچہ عرب دنیا میں باز کا مالک ہونا دولت کی نمائش سمجھا جاتا ہے لیکن ان بازوں کے مالکان تقریبا ایک سال کے بعد پرندے میں دلچسپی کھو دیتے ہیں اور کسی نئے چیمپئن کی تلاش میں بازار کا رخ کرتے ہیں۔
اور اس طرح سپین میں باز پالنے والوں کے لیے یہ ایک ایسا منافع بخش ذرائع آمدن ہے جس کی مقبولیت میں کمی ہوتی نظر نہیں آتی۔
تمام تصاویر کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔