مونا لیزا: کیا لیونارڈو ڈا ونچی نے اپنی سب سے مشہور پینٹنگ کی کوئی نقل بھی بنائی تھی؟



سنہ 1960 کی اِس تصویر میں مونا لیزا کی ایک پینٹنگ لندن کے ایک فلیٹ میں چمنی کے اوپر آویزاں ہے۔ کیا یہ تصویر نہ صرف لیونارڈو ڈاونچی کی بنائی ہوئی ہے بلکہ پیرس کے لُوو میوزیم میں آویزاں دنیا کی مشہور ترین پینٹنگ مونا لیزا کا ہی پہلا نمونہ ہے؟
کچھ لوگوں کو یقین ہے کہ مشہور آرٹسٹ نے مونا لیزا کے دو نمونے بنائے تھے۔
دیگر کچھ لوگوں کو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بات درست ہے اور اب 50 برس بعد اس تصویر کی ملکیت اور ان شواہد پر ایک تلخ جنگ چِھڑ گئی ہے کہ آیا یہ پینٹنگ بھی واقعی لیونارڈو کی ہی تخلیق ہے۔
اس تاریخی معمے میں جو فریق پیش پیش ہیں ان میں ٹیکس سے ماورا جزائر غرب الہند کی ایک کمپنی، سوئٹزرلینڈ کے بینکوں کے مقفل تہہ خانے، مالدار لوگوں کا ایک نہ سمجھ آنے والا بین الاقوامی گروپ اور آرٹ کی دنیا کے بڑے بڑے شرلاک ہومز شامل ہیں اور اس سارے معمے کا مرکزی کردار وہ پینٹنگ ہے جسے ’پہلی مونا لیزا‘ کہا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
کیا یہ پینٹنگ واقعی اصلی ہے؟ اس کے اصل مالک کون ہیں؟ اور آیا اس فن پارے کی قیمت واقعی کروڑوں ڈالر ہے؟
امید تھی کہ اس معمے کے کچھ رازوں سے پردہ اس ہفتے اس وقت سرک جائے گا جب اٹلی میں ایک مقدمے کی سماعت شروع ہو جائے گی۔
’پہلی مونا لیزا‘تصویر کے کاپی رائٹAFP
Image captionجنیوا میں ایک تقریب میں مونا لیزا فاؤنڈشین نے دونوں پیننٹنگز میں فرق دکھائے

دوسری مونا لیزا ؟

اس معمے کا آغاز سنہ 2012 میں اس وقت ہوا جب مونا لیزا فاؤنڈیشن نامی ایک تنظیم نے دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کے سامنے ایک پینٹنگ کی نقاب کشائی اس دعوے کے ساتھ کی کہ یہ بھی اصل میں لیونارڈو کی ہی تخلیق کردہ مونا لیزا ہے۔
چونکہ مونا لیزا شاید دنیا کی مشہور ترین پینٹنگ ہے اور اسے بنانے والے لیونارڈو ڈا ونچی تاریخ کے سب سے بڑے آرٹسٹ گردانے جاتے ہیں اس لیے اس دعوے نے آرٹ کی دنیا کو ہِلا کے رکھ دیا۔
فاؤنڈیشن نے اس دعوے کے حق میں کہ یہ واقعی مونا لیزا کا ایک پہلا نمونہ ہے، دلائل کا ایک انبار لگا دیا لیکن ایک بات عجیب یہ تھی کہ تنظیم نے کہہ دیا دیا تھا کہ پینٹنگ اس کی ملکیت نہیں ہے۔
مونا لیزا فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ یہ پینٹنگ دراصل ایک بین الاقوامی کنسورشیم یا مالی انجمن کی ملکیت ہے۔
جب اس کی تفصیل پوچھی گئی تو تنظیم کے سکریٹری جنرل یوئل فیلڈمین نے جواب دیا کہ ’اپنی پالیسی اور احساسِ ذمہ داری کا احترام کرتے ہوئے، فاؤنڈیشن اس کنسورشیم کی ملکیت کے بارے میں کسی قسم کا تبصرہ نہیں کرسکتی۔‘
’پہلی مونا لیزا‘تصویر کے کاپی رائٹAFP
Image captionفاؤنڈیشن نے جنیوا میں ہی اس پینٹنگ کی نقاب کشائی کی تھی
لیکن جنوبی لندن میں رہائش پزیر اینڈریو گِلبرٹ اور کیرن گِلبرٹ ایک مختلف کہانی سناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پینٹنگ کی کل مالیت میں 25 فیصد حصہ ان کا ہے۔
جب سنہ 2012 میں مونا لیزا فاؤنڈیشن نے مذکورہ پینٹنگ کی نمائش کی اور ان دونوں نے تنظیم سے رابطہ کیا تو اس کا کہنا تھا کہ تنظیم کو ان دونوں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ اس کے علاوہ تنظیم نے یہ بھی کہا کہ پینٹنگ کی مالک وہ خود بھی نہیں ہے اور’انھوں نے ہمیں ایسے ٹرخانے کی کوشش کی جیسے ہم خوامخواہ ان کا دماغ چاٹ رہے ہیں۔‘
اینڈریو گلبرٹ اور کیرن گلبرٹتصویر کے کاپی رائٹGILBERT FAMILY
Image captionاینڈریو گلبرٹ اور کیرن گلبرٹ کے بقول پینٹنگ کی 25 فیصد ملکیت ان کے پاس ہے
لیکن گذشتہ ہفتے کے دوران ایک ایسی ڈرامائی پیش رفت ہوئی ہے جس کے بعد گلبرٹ فیملی کو یقین سا ہو گیا ہے کہ ان کے دعوے کے حوالے سے کوئی بڑی پیش رفت ہو سکتی ہے۔
لیکن کس قسم کا دعویٰ؟ کیا یہ ممکن ہے لیونارڈو ڈا ونچی کی انمول فن پارا ایک مرتبہ پھر مرکزی حیثیت اختیار کر لے؟

45 کروڑ کی پینٹنگ

یہ ایک ناقابلِ یقین رقم ہے، لیکن ایک پینٹنگ کی قیمت 45 کروڑ ڈالر لگ چکی ہے، اور اس پینٹنگ کا نام تھا ’سیویئر آف دی ورلڈ‘ یا ’دنیا کی نجات دہندہ‘۔
یہ پینٹنگ 1958 میں صرف 55 ڈالر میں فروخت ہوئی تھی لیکن آج سے دو سال پہلے ایک نیلامی میں حیرت انگیز طور پر اس کی آخری بولی 45 کروڑ ڈالر لگی اور خریدار نے اپنا نام بھی خفیہ رکھا۔
ڈاونچی کی پینٹنگ 'دنیا کا نجات دہندہ'تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionڈاونچی کی پینٹنگ ’دنیا کا نجات دہندہ‘ دنیا کی سب سے زیادہ مہنگی ترین پینٹگ ہے
کچھ برسوں کے اندر اندر اس پینٹنگ کی قیمت میں اتنا فرق پیدا ہونے کی وجہ یہ بنی کہ اس عرصے میں بین الاقوامی ماہرین نے تصدیق کر دی تھی کہ یہ پینٹنگ اصل میں لیونارڈو ڈاونچی کی بنائی ہوئی ہے۔
کیا وہ پینٹنگ جسے مونا لیزا فاؤنڈیشن ’پہلی مونا لیزا‘ قرار دے رہی ہے، اس کی بولی بھی کروڑوں میں لگنے جا رہی ہے؟
’لیونارڈو کے علاوہ کوئی ہو نہیں سکتا
’مجھے شک تو ہوا تھا لیکن میری دلچسپی کم نہیں ہوئی‘۔
یہ الفاظ ہیں ریاست کیلیفورنیا کے شہر سانتا مونیکا میں رہنے والے پروفیسر یاں پیاخ ایزبوت کے ہیں جنھیں فاؤنڈیشن نے یہ پینٹنگ دکھانے کے لیے خصوصی طور پر سوئٹزرلینڈ بلایا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میں ایک تہہ خانے میں داخل ہوا، وہاں بہت ٹھنڈ تھی، اور میں نے اس پینٹنگ کے ساتھ تقریباً دو گھنٹے گزارے۔ لیکن پہلے پانچ منٹ میں ہی مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ یہ (فن پارہ) لیونارڈو کے علاوہ کسی اور کا ہو ہی نہیں سکتا۔‘
لیکن یہ محض پینٹنگ ہی نہیں تھی جس نے کیلیفورنیا کی فیلڈنگ گریجوئیٹ یونیورسٹی کے اس پروفیسرکو قائل کر دیا کہ یہ لیونارڈو کی بنائی ہوئی ہے، بلکہ ان کے بقول تاریخی شواہد بھی یہی بتاتے ہیں۔
جارجیو کی کتابتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionجارجیو وساری کی کتاب میں لیونارڈا ڈاونچی کی تصویر کشی یوں کی گئی ہے
پروفیسر ایزبوت بتاتے ہیں کہ ’لیونارڈو کے سوانح نگار جارجیو وساری نے واضح طور پر لکھا ہے کہ لیونارڈو نے مونا لیزا پر چار سال تک کام کیا تھا جس کے بعد پینٹنگ کو ختم کیے بغیر چھوڑ دیا تھا۔‘
یہ بات ہمیں ’پہلی مونا لیزا‘ میں نظر آتی ہے کیونکہ لُوو میوزیم میں لگی ہوئی مونا لیزا کے برعکس اِس مونا لیزا میں پس منظر ادھورا ہے۔
اس کے علاوہ پروفیسر ایزبوت کا کہنا تھا کہ تاریخی دستاویزات میں یہ ذکر بھی ملتا ہے کہ لیونارڈو نے مونا لیزا دو مختلف خریداروں کے لیے بنائی تھی، جس سے یہ امکان پیدا ہوتا ہے کہ انھوں نے دونوں خریداروں کے لیے مونا لیزا کی الگ الگ پوررٹریٹ بنائے تھے۔
ہسٹوگرامتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionدونوں پینٹنگز کے ہِسٹوگرام میں رنگوں کے استعمال میں مماثلت پائی جاتی ہے
پروفیسر ایزبوت کا مزید کہنا ہے کہ سائنسی ٹیسٹ بھی یہ اس دعوے کی تائید کرتے ہیں کہ یہ پینٹنگ اصلی ہے۔
’اگر آپ پہلی مونا لیزا کو دیکھیں تو سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ (الف) یہ 16ویں صدی کی ہے، (ب) یہ یقیناً لیونارڈو کی بنائی ہوئی ہے کیونکہ اس کی ہییئت اور ترکیب اُس مونا لیزا جیسی ہے جو لُوو میوزئم میں پڑی ہوئی ہے، اور (ج) ہِسٹو گرام (رنگوں کا ڈجیٹل گراف) بھی ظاہر کرتا ہے اس پینٹنگ کی ’ہینڈ رائٹنگ‘ بھی بالکل اصلی مونا لیزا جیسی ہے، یعنی اس میں بھی رنگ بالکل اُسی طرح استعمال کیے گئے ہیں۔‘
لیکن ہر شخص پروفیسر ایزبوت کے تجزیے سے اتفاق نہیں کرتا۔

’فضول سی بات‘

آکسفرڈ یونیورسٹی سے منسلک آرٹ کی تاریخ کے پروفیسر، مارٹن کیمپ کہتے ہیں کہ پینٹنگ ’اصلی نہیں ہے، اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔‘
’یہ ایسی پینٹنگ ہے ہی نہیں جسے آپ لیونارڈو کے ہاتھ کے بنے ہوئے فن پاروں میں شامل کر سکیں۔‘
پروفیسر مارٹن کیمپ سمجھتے ہیں کہ لیونارڈو کے سوانح نگار جارجیو وساری کے اس بیان، کہ مونا لیزا مکمل نہیں ہوئی تھی، کی وجہ یہ ہے کہ ’وساری کی تمام معلومات فلورنس والوں کی باتوں پر مبنی ہیں، جبکہ لیونارڈو نے مونا لیزا شاید اس دور میں مکمل کی تھی جب وہ فلورنس سے نقل مکانی کر چکے تھے۔‘
جارجیو وساریتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionجارجیو وساری نے 16ویں صدی میں ڈاونچی اور خود مونا لیزا کے بارے میں تفصیل سے لکھا
اس کے علاوہ پروفیسر مارٹن کیمپ ان تاریخی دستاویزات سے بھی اتفاق نہیں کرتے جن میں کہا جاتا ہے ہے لیونارڈو نے دو مونا لیزا بنائی تھیں۔
اس کے برعکس پروفیسر مارٹن کیمپ کا خیال ہے کہ لیونارڈو نے شاید یہ پینٹنگ اپنے خریدار کو کبھی دی ہی نہیں تھی اور ’شاید کسی دوسرے شخص نے لیونارڈو کو کہہ دیا ہو کہ اگر تم یہ پینٹنگ ختم کر لیتے ہو تو میں لے لوں، اور پھر ایسا ہی ہوا ہو گا۔‘
لیکن سائنسی شواہد کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
اس کے جواب میں پروفیسر مارٹن کیمپ کہتے ہیں کہ مونا لیزا فاؤنڈیشن نے جو معلومات فراہم کی ہیں ان سے وہ اس امکان کو رد نہیں کرتے کہ پہلی مونا لیزا لیونارڈو نے بنائی تھی، لیکن ان معلومات سے یقیناً یہ ثابت نہیں ہوتا کہ پینٹنگ واقعی لیونارڈو کے ہاتھ کی بنی ہوئی ہے۔‘
پروفیسر مارٹن کیمپتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionپروفیسر مارٹن کیمپ کو لیونارڈو ڈاونچی کے کام کے سب سے بڑے ماہرین میں شمار کیا جاتا ہے
تاہم، پروفیسر مارٹن یہ بھی کہتے ہیں کہ ’انفرا ریڈ اور دوسرے ٹیکنیکل طریقوں سے کیے گئے جائزے بتاتے ہیں کہ لیونارڈو کے دوسرے فن پاروں کی طرح لُوو میں پڑی ہوئی مونا لیزا بھی ارتقاع سے گزری ہے۔
’مونا لیز کا جو انفرا ریڈ ٹیسٹ کیا گیا تھا وہ نہایت ہی باریکی کا کام تھا اور اور اس میں یہ بات بالکل صاف نظر آتی ہے کہ یہ اس قسم کی ڈرائینگ ہے جو آپ اس وقت بناتے ہیں جب کسی (چیز) کی نقل بنا رہے ہوتے، خود اپنے (تخیل) سے نہیں پیدا کرتے۔‘
لیکن پروفیسر ایزبوت کو پروفیسر کیمپ کے تجزیے کے کچھ حصوں پر اعتراض ہے وہ کہتے ہیں کہ ’مارٹن نے اس پینٹنگ (پہلی مونا لیزا) کو کبھی دیکھا ہی نہیں ہے، اور ڈیوڈ اور مونا لیزا فاؤنڈیشن سے منسلک یوئل کے درمیان بھی یہی جھگڑا ہے، اور میرا خیال ہے کہ یہ جگھڑا جائز ہے۔‘
اس کے جواب میں پروفیسر کیمپ کہتے ہیں کہ یہ پرانی منطق کہ کوئی چیز کتنی فضول ہو، آپ اسے خود دیکھے بغیر کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر سکتے، آج کل یہ منطق لاگو نہیں ہوتی، خاص طور پر جب آپ کے پاس اتنی اچھی ٹیکنالوجی موجود ہے۔
وہ کہتے ہیں ’اعلیٰ معیار کی ڈجیٹل تصویروں میں آپ اس سے زیادہ تفصیل دیکھ سکتے ہیں جو آپ اپنی آنکھ سے دیکھتے ہیں، چاہے آپ اس کے لیے عدسہ استعمال کر رہے ہوں۔‘

بدلتے ثبوت

ہو سکتا ہے کہ ماہرین ان ثبوتوں پر متفق نہ ہوں جو ’پہلی‘ مونا لیزا کے حق میں پیش کیے جا رہے ہیں، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا تمام ثبوت واضح طور پر پیش کر دیے گئے ہیں؟
بی بی سی نے ’پہلی مونا لیزا‘ کے موضوع پر اس کتاب کے کچھ حصے دیکھے ہیں جو ابھی شائع نہیں ہوئی ہے۔ ’لیونارڈو ڈاونچی کی مونا لیزا، نئے نقطۃ نظر‘ کے عنوان سے یہ کتاب کئی افراد نے لکھی ہے، تاہم اس کے مدیر پروفیسر ایزبوت ہیں۔
یہ کتاب لکھنے والوں میں ایک مصنف کا دعویٰ ہے کہ کتاب کے آخری مسودے میں، ان کے مضمون کے کچھ حصے حذف کر دیے گئے ہیں۔ ان کے اس دعوے کی وجہ سے لگتا ہے کہ یہ کتاب بھی یہ سمجھنے میں مددگار نہیں ہو گی کہ پہلی مونا لیزا لیونارڈو نے بنائی تھی یا نہیں۔
مونا لیزاتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionمونا لیزا آرٹ کی دنیا کے مشہور ترین فن پاروں میں شامل ہے
لیکن کتاب کے مدیر پروفیسر ایزبوت اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ میں نے کچھ حصے کتاب سے نکال دیے ہیں کیونکہ میں اس کتاب کا مدیر ہوں۔
انھوں نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’کچھ پیراگراف ایسے تھے جو میں بحیثیت مدید سمجھتا ہوں کہ ان کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔ میری کوشش تھی کہ جو مقدمہ پیش کیا جا رہا ہے وہ پوری قوت کے ساتھ سامنے آئے، اس لیے میں نے ایسا کوئی حصہ خارج نہیں کیا جس میں کوئی تضاد نظر آتا۔ دو باب تو ایسے تھے جو ضرورت سے زیادہ طویل تھے۔‘

مونا لیزا، لیکن کوئی پیسہ نہیں

جو لوگ اس خیال کے حامی ہیں کہ پہلی مونا لیزا لیونارڈو نے ہی بنائی تھی، انھیں یہ وضاحت کرنا پڑے گی کہ یہ پینٹنگ آئی کہاں سے۔
یہ سنہ 2013 میں اچانک اس وقت پہلی مرتبہ منظر عام پر آئی جب اسے ہیو بلیکر نامی ایک خریدار نے انگلینڈ میں سومرسیٹ کے علاقے میں واقع ایک جاگیر سے خریدا تھا۔
پروفیسر رابرٹ میرِک کہتے ہیں کہ بلیکر کو یقین تھا کہ ان کے ہاتھ کوئی بڑی چیز آ گئی ہے۔
ہیو بیکرتصویر کے کاپی رائٹPUBLIC DOMAIN
Image captionہیو بیکر کیوریٹر کے علاوہ ڈرامہ نگار، آرٹ ڈیلر اور تنقید نگار بھی تھے
تاریخ کے بڑے بڑے مصوّروں کے فن پاروں کو کامیابی سے ڈھونڈ نکالنے کے باوجود، بیکر کا کاروبار زیادہ تر خراب ہی رہا، اور شاید اسی لیے وہ اپنی مونا لیزا کو کبھی فروخت نہ کر پائے۔
پروفیسر میرک کے بقول بیکر کے کاروبار کی کہانی ’بیکر کی تمام کوششوں کے باوجود، ناکامیوں کی ایک داستان ہی رہی ہے۔‘
بیکر کے انتقال کے بعد یہ پینٹنگ ایک اور آرٹ ڈیلر، ہینری پُلٹزر کے ہاتھ آ گئی اور ان کا خیال تھا کہ یہ ’پہلی مونا لیزا‘ اس مونا لیزا سے کہیں زیادہ متاثر کن ہے جو پیرس کے میوزمیم میں پڑی ہوئی ہے۔
ہینری پلٹزرتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionہینری پلٹزر اپنی تصیف ’مونا لیزا کہاں ہے‘ کے ساتھ
لیکن دنیا پر یہ ثابت کرنے کے لیے کہ یہ دونوں مونا لیزا لیونارڈو کی تخلیق ہیں، پلٹزر کو مدد درکار تھی۔

ایک مددگار ہاتھ

اینڈریو گلبرٹ کے بقول ’چونکہ پلٹزر یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ یہ لیونارڈو کی ہی بنائی ہوئی پینٹنگ ہے، اس لیے ان کے پاس یہ مہم چلانے کے لیے پیسے کم پڑتے جا رہے تھے۔‘
اینڈریو گلبرٹ کا خاندان پلٹزر کو جانتا تھا کیونکہ یہ لوگ پلٹزر کو دوسرے فن پارے فروخت کر چکے تھے اور ان سے پینٹنگز خرید بھی چکے تھے۔
اینڈریو اور کیرن گلبرٹ نے بی بی سی کو کئی ایسی دستاویزات دکھائی ہیں جن سے، بقول ان کے، یہ دکھائی دیتا ہے کہ سنہ 1964 میں ان لوگوں نے پہلی مونا لیزا کی کل مالیت کا 25 فیصد حصہ خرید لیا تھا۔
اس کے تقریباً ایک عشرے بعد، پلٹزر نے یہ پینٹنگ سوئٹزرلینڈ کے ایک بینک میں رکھوا دی اور پھر پلٹزر کے انتقال کے بعد سنہ 2008 میں یہ پینٹنگ ایک بین لاقوامی کنسورشیم کے ہاتھ آ گئی۔
گلبرٹ فیملیتصویر کے کاپی رائٹGILBERT FAMILY
Image captionگلبرٹ فیملی کا اصرار ہے کہ 25 فیصد ملکی ان کے پاس ہے
مونا لیزا فاؤنڈیشن بڑے شد و مد سے انکار کرتی ہے کہ اس پینٹنگ پر گلبرٹس کا کوئی حق ہے۔ اِس سال جولائی میں فاؤنڈیشن کے صدر نے کہا تھا کہ گلبرٹس کا دعویٰ ’ غلط ہے اور اور اس میں کوئی وزن نہیں ہے۔‘
لیکن گلبرٹس اپنے دعوے پر قائم رہے اور اس کے لیے انھوں نے آرٹ کی دنیا کے ’شرلاک ہومز‘ کو اپنی مدد کے لیے بلا لیا۔
اس سراغ رساں کا نام کرسٹوفر مارینیلو ہے اور وہ کہتے ہیں انھیں ’شرلک ہومز‘ کہلوائے جانے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
کرسٹوفر مارینیلو قدیم فن پاروں کو تلاش کرنے کا کام کرتے ہیں اور اس کے لیے انھوں نے ’آرٹ ریکوری انٹرنیشنل‘ کے نام سے ایک کمپنی بھی قائم کی ہوئی ہے۔
کرسٹوفر مارلینیلوتصویر کے کاپی رائٹAFP
Image captionکرسٹوفر مارلینیلو مختلف لوگوں کو اب تک کروڑوں ڈالر کی پینٹنگز دریافت کرنے میں مدد دے چکے ہیں
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم نے پچھلے برسوں میں تقریباً 510 کروڑ کی مالیت کے فن پارے دریافت کیے ہیں اور ہم اس وقت بھی آرٹ کی دنیا کے بڑے بڑے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔ ہمیں اس بات پر فخر ہے۔‘
لیکن سوال یہ ہے کہ کرسٹوفر اس دعوے کے بارے میں کیا کہتے ہیں کہ مذکورہ پیٹنگ لیونارڈو کی تخلیق ہو سکتی ہے؟
’سچ پوچھیں تو مجھے اس کی کوئی فکر نہیں ہے۔ جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے تو میرے لیے یہ معاملہ بڑا سادہ ہے کیونکہ ہمارے صارف کے پاس ایک معاہدہ موجودہ ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پینٹنگ صارف نے خریدی تھی۔‘
خود اینڈریو گلبرٹ اور کیرن گلبرٹ کو بھی یقین نہیں کہ پینٹنگ لیونارڈو کی ہی بنائی ہوئی ہے، لیکن کرسٹوفر مارینیلو کی مدد سے وہ اٹلی میں ایک مقدمہ دائر کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جس کی سماعت اس ہفتے ہوئی۔

اس کڑی میں کیربیئن کہاں سے آیا؟

اس ہفتے اٹلی میں عدالتی کارروائی شروع ہونے سے پہلے گلبرٹس کے وکیل جیووانی پروٹی کا کہنا تھا کہ یہ ’میری زندگی کا سب سے دلچسپ اور پیچیدہ مقدمہ ہے۔
’اس کے لیے ہمیں دنیا بھر کے کئی ممالک کے خلاف سمن جاری کروانا پڑے ہیں۔‘
اور لگتا ہے کہ گلبرٹس کے وکیل کی کوششیں بارآور ثابت ہو رہی ہیں۔ منگل کو ہونے والی سمات کے بعد کیرن گلبرٹ کا کہنا تھا کہ ’مونا لیزا فاؤنڈیشن نے جج کے سامنے اقرار کیا ہے کہ اس پینٹنگ کی ملکیت مونا لیزا لمیٹڈ نامی ایک کمپنی کے پاس ہے۔‘
کیریبیئن میں اینگیولا کا ساحلتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionکیریبیئن میں اینگیولا کا ساحل
اس عدالتی بیان میں کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی جو عجیب ہو لیکن مونا لیزا لمیٹڈ نامی کمپنی جس ملک میں رجسٹرڈ ہے وہاں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہاں کمپنیوں کے کوائف وغیرہ خفیہ رہتے ہیں اور یہ مقام جنوبی امریکہ میں کیریبیئن کا علاقہ ہے جو کہ تاج برطانیہ کا حصہ ہے۔
کیرن گلبرٹ کے بقول ’ہم آہستہ آہستہ اس معاملے کی گرھیں کھول رہے ہیں، اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ اب تک ہم نے جو تحقیق کی ہے وہ درست راستے پر کی ہے۔‘
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ گلبرٹ فیملی کا اس پورٹریٹ کی ملکیت میں کوئی حصہ ہے، لیکن یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ مونا لیزا فاؤنڈیشن نے بتایا ہے کہ پینٹنگ کی ملکیت ہے کس کے پاس۔
مونا لیزاتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionفرانس کے لُوو میوزیم میں آیزان مونا لیزا کو ہر سال تقریباً ایک کروڑ لوگ دیکھنے آتے ہیں
منگل کی سماعت کے بعد مونا لیزا فاؤنڈیشن کے وکیل، ماکو پرڈوچی کا کہنا تھا کہ ’جب تک عدالتی حکام ہم سے یہ واضح سوال نہیں کرتے کہ ملکیت کس کی ہے، فاؤنڈیشن نہ تو اس بات کی تائید کر سکتی اور نہ ہی تردید۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ گلبرٹ فیملی کے دعوے سے لگتا ہے کہ ’ان کی خواہش کی وجہ مالی لالچ ہے اور یہ لوگ فاؤنڈیشن کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔‘
اگلے سال مارچ میں جب سماعت دوبارہ شروع ہو گی تو پتہ لگ جائے کہ اس مقدمے میں ’کوئی جان نہیں ہے۔‘

شہرت

معلوم نہیں کہ یہ قانونی لڑائی کب تک چلتی ہے، لیکن یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اگر یورپ کی نشاطِ ثانیہ کے دور کے فلاسفر، لیونارڈو ڈا ونچی زندہ ہوتے تو وہ اپنے انتقال کے پانچ سو برس بعد پیدا ہونے والے ’پہلی مونا لیزا‘ کے اس معمے کے بارے میں کیا کہتے؟
پروفیسر کیمپ کے بقول اگر لیونارڈو زندہ ہوتے تو ’وہ یہ سن کر بہت خوش ہوتے، کیونکہ لیونارڈو کو شہرت اچھی لگتی تھی۔
’وہ کچھ احمقانہ باتوں پر ناک منہ ضرور چڑھاتے، لیکن یہ سن کر بہت خوش ہوتے کہ کلچر کی دنیا میں سب سے زیادہ مشہور ان کا نام ہی ہے۔‘

کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیےبلاگ کا گروپ جوائن کریں۔