دنیا میں مدر سری Matriarchal نظام کبھی موجود تھا یا نہیں؟ اگر تھا تو کیا وہ موجودہ معاشرتی نظام کی ابتدائی شکل کہلایا جا سکتا ہے؟ کیا مدر سری نظام ہر جگہ موجود تھا یا کچھ مخصوص علاقوں تک محدود تھا؟ صنفی کرداروں کے حوالے سے ژنگ Jung کے بیان کردہ Anima اور Animus جیسے تصورات کی کوئی حقیقت ہے یا نہیں؟ ذرا ان سوالوں کو کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھیے اور مردوں کی جانب سے عورتوں پر روا رکھے جانے والے تشدد کی وجوہات پر غور کریں۔ اس طالب علم کے نزدیک اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مرد عورتوں سے خوف زدہ ہیں ۔ بظاھر معاملہ اس کے برعکس نظر آتا ہے۔ ہر جگہ عورت مردوں سے چھپتی اور ان کے شر سے محفوظ رہنے کی کوشش کرتی نظر آتی ہے۔ خوف زدہ عورت ہے یا مرد؟
تصوراتی ہی سہی، مدر سری نظام کے بارے میں اس کے حامیوں نے چند اھم پہلوؤں کی نشاندہی کی ہے۔ یہ معاشرے Wise (عقل مند) عورتوں کی قیادت میں اپنے امور طے کرتے تھے۔ خاندانی امورباپ کی جگہ ماں کے حسب منشا طے ہوتے تھے۔ اولاد ماں کے نام اور نسب سے شناخت پاتی تھی۔ شادی پر لڑکی کے بجاے لڑکوں کی رخصتی ہوتی تھی۔ حالیہ وقتوں تک یہ یقین کیا جاتا تھا کہ یہ معاشرے تشدد اور خوف جنسی علتوں سے محفوظ تھے۔ ذاتی ملکیت اور اس سے پیدا ہونے والی دیگر بیماریاں بھی ان معاشروں میں موجود نہیں تھیں۔ اب آپ کا جو دل چاہے اسے اس تبدیلی کی وجہ قرار دیں جس سے معاشرتی نظام مدر سری سے پدر سری Patriarchy میں منتقل ہو گیا۔ ایسا ظاہر ہے اچانک نہیں ہوا ہوگا اس عمل نے مکمل ہونے میں وقت لیا ہوگا۔ لیکن اس عمل کو عورتوں کے خلاف بغاوت ضرور کہا جا سکتا ہے۔ یعنی مردوں نے عورتوں کا تختہ الٹ کر معاشرے میں موجودہ مرتبہ اور مقام حاصل کیا۔ ایک خیال کے مطابق سامی مذاھب اور پدر سری نظام کا آغاز زمانی اعتبار سے ایک ہی وقت ہوا۔
جب حکومت زبردستی چھینی جائے تو نۓ حکمرانوں کو بغاوت کا خطرہ لاحق ہونا لازمی اور فطری امر ہے۔ اپنی حالیہ تاریخ میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ طاقت کے زور پر حکمرانی چھیننے اور کرنے والے نہ صرف زیادہ خوف زدہ ہوتے ہیں بلکہ زیادہ پر تشدد بھی۔ ایسے حکمرانوں کو معاشرے کے جن طبقات سے بغاوت کا خوف ہوتا ہے ان کی بیخ کنی کے لئے نۓ نۓ قوانین کا بننا بھی ھم نے دیکھا ہے۔
سماجی نظام کی تبدیلی کا آغاز جس خوف کی بنیاد پر ہوا تھا پدر سری نظام اور مذھب کے اشتراک نے اس کو ایک مقدس صورت دینے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اس اشتراک کا اثر اتنا ہمہ گیر اور ہمہ جہت تھا کہ سخت گیر مذہبی قوانین تو ایک طرف دنیا سے بے زار اور بے نیاز تصوف بھی عورت کے خوف سے اپنے کو نہ بچا سکا۔ مردوں کو یہ خوف دامن گیر ہے کہ یہ چڑیل (مدر سری نظام کی Wise women کو پدر سری میں اسی نام سے یاد کیا گیا ہے) کسی دن اس کا تختہ نہ الٹ دے۔ یہ خوف مرد کی شہوت کے ساتھ مل کر ایک انتہائی پیچیدہ صورت اختیار کر لیتا ہے۔ خوف کی اپنی ضروریات ہیں اور شہوت کی اپنی۔۔۔۔ عورتوں کے بارے میں سارے قوانین اور رویے ان دونوں ضروریات کی تکمیل کے لئے تشکیل دیے گئے ہیں۔ اگر گنجائش ہوتی تو چند کلینکل مثالیں بھی پیش کرتا۔
خاندان میں نمایاں حیثیت، عورت کی حکمرانی، روزی روٹی کے دھندوں میں اس کی شمولیت، سیاسی امور میں شرکت اور اسکی تعلیمی ترقی یہ تمام عورت کی واپسی کے راستے ہیں۔ مغرب نے عورتوں کی واپسی کو روکنے کے نسبتا مہذب طریقے اختیار کیے اور ان کو مذھب سے الگ کرکے برتا اور بیان کیا ہے۔ ہماری صورتحال آپ کے سامنے ہے عورت کا راستہ روکنے کے لئے مذہبی ادارے پوری قوت سے سرگرم ہیں۔ ان کی سرگرمی رکنے اور روکنے کی کوئی صورت مستقبل قریب میں دکھائی نہیں دیتی۔ نفسیات کے ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے کہتا ہوں کہ آنے والے دنوں میں عورتوں پر اقتصادی دباؤ بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان پر تشدد میں مزید اضافہ ہو گا۔
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیےبلاگ کا گروپ جوائن کریں۔
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیےبلاگ کا گروپ جوائن کریں۔