میں ابھی اتنی عمر میں ہی جب کبھی خود کو غور سے دیکھتا ہوں تو مجھ میں ایک بوڑھا، تنک مزاج اور مغرور شخص غوطے لگاتا محسوس ہوتا ہے۔ لوگوں کی بے تکی باتوں پر مجھے جلد غصہ آجاتا ہے، میں انہیں جہالت کے فتوے بانٹتا ہوں اور اپنی تنہائی پسندی پر اتنا مسرور اور مصر رہتا ہوں کہ اس ہالے میں اکثر خود کو خدا سمجھنے سے بھی نہیں چوکتا، وہی خدا جس کا انکار کرتے میری زبان نہیں تھکتی۔ مذہب، سماج اور زندگی کوئی بھی میری تنقیدی نگاہ سے بچ نہیں سکتا۔
دوست روٹھ جائیں، لوگ چھوٹ جائیں مگر انا کی باگیں ڈھیلی نہ ہونے پائیں۔ ان تمام باتوں کے باوجود میں خود کو پسند کرتا ہوں اور شاید آگے بھی ایسا ہی رہوں۔ مگر جس انسان کا آج میں ذکر کرنے جارہا ہوں، وہ ایسا ہرگز نہیں تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ اچھائی اور برائی کیا چیز ہے، زندگی اور اس کے بعد کون سے مراحل ہیں، سناٹے اور دھوپ کی جنگ کیا ہے، مستقبل اور ماضی کے عذاب کیسے ہیں۔ مجھے بس اتنا پتہ ہے کہ جب دنیا پیسوں کے پیچھے بھاگ رہی ہے، لوگ ترقی کی ہوڑ میں ایک دوسرے کو پھلانگ رہے ہیں، رشتے اور تعلقات نفع و نقصان کا سودا بن کر رہ گئے ہیں، لوگ ایک دوسرے سے جلد بیزار ہوتے ہیں، زندگی بھر کے وعدوں پر تھوکتے ہوئے، دوستیوں اور یقینوں کے دامن کو چاک کرتے ہوئے ہم سب کچھ ایسی چیز بن چکے ہیں، جہاں قبر کی مٹی ہو یا چتاکی لکڑی، سب کی ایک قیمت طے ہے۔ زندگی سہولت کی تنگ گلیوں سے آگے نکل کر شاندار بازاروں کی چمکتی ہوئی ’ضروری اشیا‘ کو اٹھائے بے مقصد روشنی کی طرف بھاگی چلی جارہی ہے۔ ایسے میں کچھ لوگ ہوتے ہیں، جو ٹھہرے ہوئے نظر آتے ہیں، جن کے چہروں پر اطمینان ہوتا ہے، جن کی آنکھوں میں خوشی ہوتی ہے، جن کے ہونٹوں پر سچی مسکراہٹ ہوتی ہے۔
حسیب احمد ایسے ہی آدمی تھے۔ ابھی تیس ستمبر کی صبح جب ان کی آنکھ کھلی تو وہ اپنی طبیعت کی وجہ سے کچھ بے چین تھے۔ شوگر کے مریض تو تھے ہی، پچھلے چند روز سے ڈینگو کا اثر بھی تھا، چنانچہ سینے میں پچھلے کچھ دنوں سے ہلکا ہلکا درد محسوس کررہے تھے۔ ان کے گھر کی ملازمہ نے چائے کے لیے پوچھا تو پہلے انکار کردیا، پھر کچھ دیر ٹھہر کر کہا۔ ’اچھا لے آؤ! ‘ بیوی نے بگڑتی ہوئی طبیعت دیکھ کر پوچھا کہ کیا کسی کو بلالیا جائے تو کہنے لگے۔
’نہیں، کسی کو پریشان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ‘ کچھ دیر بعد جب لیٹے تو آنکھیں بند ہوئیں، اور ایسی بند ہوئیں کہ پھر نہ کھلیں۔ مجھے خبر ملی تو پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی، ابھی کچھ دنوں پہلے تو ہشاش بشاش، اسی مسکراہٹ کے ساتھ راستے میں ملے تھے۔ گھر پہنچا تو ایک چادر سے ڈھکا ان کا بدن دیکھا، چہرے پر کرب کے آثار دور دور تک نہیں تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا، جیسے ابھی آنکھ کھول کر اسی مسکراہٹ کے ساتھ اٹھ بیٹھیں گے اور پوچھیں گے۔
’اور بھئی تصنیف! سب خیریت ہے؟ ابن صفی کا ناول کب اپلوڈ کررہے ہو؟ ‘ لیکن زندگی کا ناول ختم ہوچکا تھا۔ ایک کہانی، جو پچھلے سولہ برسوں سے میں اپنی آنکھوں میں سمیٹے ہوئے چل رہا تھا، بڑے بھائی کی محبت کا ایک ایسا احساس، جس کے ہٹتے ہی لگا کہ آسمان پر دھوپ بڑھ گئی ہے، اور ساتھ ہی ساتھ میری عمر بھی۔ مجھے آس پاس کے روتے بلکتے لوگوں میں اپنی اس کھلندڑی عمر کے انتقال کا بہت افسوس ہورہا تھا۔ میں اچانک جوان سے ایک ادھیڑ آدمی میں بدل گیا، جس پر ذمہ داریوں کا بوجھ تھا، جس کو کرایہ دینا تھا، گھر چلانا تھا، لکھنا پڑھنا تھا۔ ایک آدمی جس نے ساری زندگی مجھے کبھی میری بداعمالیوں پر نصیحت نہ کی، آج اچانک کیسے میرے عشق کرنے کی عمر تک کو اپنے کیسے میں ڈال کر خاموشی سے چل بسا تھا۔
تیئس اکتوبر 2005 کی صبح میں نے انہیں پہلی بار دیکھا تھا۔ میرے والد نے بتایا کہ وہ ہمارے بڑے بھائی ہیں، یعنی میرے والد کی کزن کے بیٹے۔ جب وہ ہمیں ملے تو شادی شدہ نہیں تھے۔ خوبصورت لباس میں ملبوس اس وقت غالبا پینتالیس کے پینٹے میں وہ پینتیس چھتیس کے نظر آتے تھے۔ اس کے بھی کچھ برس بعد ان کی شادی ہوئی۔ ان کی بیوی جب میری شادی کرانے پراصرار کرتیں تو میں اکثر مذاقا کہتا کہ ہمارے خاندان میں سارے چوہے کھاکر حج کرنے کا رواج ہے۔
میرے والد اور حسیب بھائی دونوں اس کی زندہ مثال ہیں۔ میں بھی اسی روایت پر عمل کروں گا، پہلے خوب عشق لڑاؤں گا، گناہ کی لذت سے فیض یاب ہوؤں گا اور پھر شادی جیسی فالتو چیز آخر زمانے کے لیے رکھ چھوڑوں گا۔ وہ میری بات سن کر ہنسا کرتے۔ ہنستے وقت ان کے باریک دانتوں کی قطار، لال رنگ کی زبان سمیت نظر آتی۔ ماتھا کشادہ تھا، گال بھرے ہوئے، پھر بھی گالوں کی دونوں ہڈیاں ذرا سی ابھری ہوئی تھیں، پتلے پتلے ہونٹ، خوبصورت تھوڑی اور بدن بالکل متناسب۔ ایسا معلوم ہوتا جیسے وہ برابر کثرت کرتے ہوں۔ پتہ نہیں کس نے ان کا نام حسیب رکھ دیا تھا، کیونکہ میں نے تو سولہ برسوں کے اپنے مشاہدے میں انہیں کسی بھی قسم کا حساب کرتے نہ پایا۔ نہ دنوں کا نہ روپوں کا، نہ ان احسانوں کا، جو انہوں نے دوسروں پر کیے تھے۔
مذہبی اتنے تھے کہ اپنی نماز پڑھتے، روزے رکھتے۔ مگر کبھی کسی کو کوئی تلقین نہ کی۔ کبھی کبھار تو انسان کے اندر ایسی بزرگی پیدا ہوہی جاتی ہے، جب وہ کسی چھوٹے کو سڑک کنارے یا پھر کمرے میں بیٹھ کر اپنی تجربہ کاری اور دنیا کو دیکھنے، جاننے کے غرور کا بکھیڑا ضرور سناتا ہے۔ ہم نے تو اچھے سے اچھے بے نیازوں کو اچانک بزرگ بنتے دیکھا ہے، مگر ان میں کبھی ایسی کوئی بات نظر نہ آئی۔ ملتے تو ہماری ہر بات کو انجوائے کرتے۔
ان کے سامنے ان کے عقیدوں، سماج کی رسموں، خداؤں یا پیروں پیغمبروں تک کا مذاق اڑالو، مجال ہے جو ان کے ماتھے پر بل بھی آجائے۔ اتنا یقین تو شاید مجھے اپنے کفر پر بھی نہیں، جتنا انہیں اپنے ایمان پر ہوگا کہ اسے کوئی مذاق ڈگمگا نہ سکا، کوئی جملہ بھڑکا نہ سکا۔ آج جب وہ نہیں رہے ہیں تو سوچتا ہوں کہ میں نے کس چیز سے بغاوت کی ہے، اس یقین سے یا نعروں، جلوسوں کے شور سے، ملاؤں کے پیٹ سے، مسجدوں کی کمیٹیوں سے، مذہب کے نام پر ہونے والے جھگڑوں سے یا پھر چندوں، خیراتوں سے۔
میرا جھگڑا ان کے ضبط سے نہیں ہوسکتا۔ ان کے خلوص کے آگے مجھے ہر بار ہتھیار ڈالنے ہی پڑے تھے۔ ان کے یقین کو ہر بار مجھ سے جیتنا ہی تھا، کیونکہ اس میں ایک سچائی تھی، اس میں ملنساری اور محبت شامل تھی، اور سب سے بڑھ کر انسانیت تھی۔ ان کی طبیعت ہی شاید ایسی تھی۔ انہوں نے لوگوں پر جتنے احسان کیے، اتنی تو میں ذمہ داریاں بھی نہیں نبھا سکتا۔ میں اگر ان کی جگہ ہوتا بھی تو ان احسانات کے بدلے کئی دفعہ زمین پر دھمک کر چلتا، یایہ بھی ممکن تھا کہ مجھے پر ہی لگ جاتے۔
حسیب بھائی کو ابن صفی پسند تھے۔ انہوں نے شاید ساری ناولیں پڑھ رکھی تھیں۔ عمران اور فریدی کا ذکر ان کے سامنے کرو تو چہرے پر الگ ہی رونق اتر آتی۔ طب کے شعبے سے تعلق رکھتے تھے، مگر جاسوسی ناولوں کی لت انہیں کیسے لگی، پتہ نہیں۔ سیلف میڈ آدمی تھے، چھوٹی عمر میں دہلی آئے۔ اپنی تعلیم بھی مکمل کی۔ ملازمت بھی حاصل کی، کام بھی سیکھا اور دھیرے دھیرے ہندوستان کے ایک بڑے سرکاری طبی ادارے میں عزت دار عہدے تک پہنچے۔
گھر میں جب ابا کو بخار آتا، کھانسی بڑھ جاتی، امی کو سردرد ہوتا، بھائی کی پسلیاں بولتیں اور کچھ بھی ہوتا تو سب سے پہلے حسیب بھائی سے مشورہ کیا جاتا۔ وہ وہاں سے ایک ’ٹیبلٹ‘ کا نام بتاتے۔ یہاں ہم اسے کھاکر نفسیاتی طور پر فٹ فاٹ ہوکر اپنے کاموں میں لگ جاتے۔ ہمارا ان پر یقین ان کے اعلیٰ کردار کی وجہ سے بھی تھا۔ خاموش طبع انسان تھے۔ اس لیے جو بات بھی کرتے، وہ کام کی ہی ہوتی۔
ایک آہستہ روی ان کے کردار کا حصہ تھی۔ عمر کے جس پڑاؤ پر ان کی شادی ہوئی، اس کے بعد کی تمام ذمہ داریاں بھی اسی طرح ہنستے ہوئے انہوں نے ادا کیں۔ ہم نے شاعروں میں ایک پینٹ شرٹ والے صوفی شاعر ابن انشا کا بڑا نام سنا۔ اس کی شاعری بھی پڑھی۔ حسیب بھائی کو ابن انشا کی شاعری جیسا خوبصورت، خاموش اوراپنی زمین سے جڑا ہوا انسان کہا جاسکتا ہے۔ شاید اسلام و عیسائیت کا صوفی وہی کچھ ہو جو گیتا کا یوگی ہے۔ مگر ان خطابات سے آگے بھی عملی سطح پر کچھ ہے، جس کو ان خطابات سے بھی کچھ مطلب نہیں۔
اور وہ ہے کردار۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر لوگ ان کی طرح مذہبی ہوں تو نیتاؤں کی دکانیں بیٹھ جائیں، مگر اس کے نام پر جھگڑے نہ ہوں۔ اتنا ہونے پر بھی ایسا نہیں کہ تنہائی پسند ہی ہوں، دعوتوں اور محفلوں میں بھی جاتے، دیر تک یونہی لوگوں کے بیچ بیٹھے ان کی باتیں سنتے، ہنستے مسکراتے، شریک رہتے۔ یہ بات لاکھ ناقابل یقین سہی، مگر میں نے انہیں کبھی کسی بات پر بھنویں تانتے ہوئے دیکھا ہی نہیں۔ اور پھر یہ سوچ کر اس تحریر پر بھی غصہ آرہا ہے کہ آخر ایسے انسان کے بارے میں میری محبت اور خلوص بھی کتنی دیر تک صفحات سیاہ کرسکتے ہیں، جسے غصہ ہی نہ آتا ہو۔
آخر تو کوئی برائی ہو، کہیں تو کردار میں کوئی جھول ہو، کوئی تو سوراخ ہو، ایک دھبہ، ایک داغ۔ مگر نہیں، اس تحریر کے مقدر میں رنگین ہونا لکھا ہی نہیں ہے۔ یہ نہایت سادہ ہے، اتنی سادہ کہ سوچتا ہوں کہ اگر دنیا میں لوگ صرف انہی کی طرح ہوں تو یہ دنیا کہیں اپنی اچھائی کی بنیاد پر ثابت دانے کی کچھڑی بن کر نہ رہ جائے۔ اس لیے میں ان کی تمام عظمتوں کو قبول کرتے ہوئے بھی ان کی اچھائیوں کی پچھ نہیں لے سکتا۔ اگر میں ایسا کروں تو پھر مجھ جیسوں کا کیا ہوگا، جن کی تحریر کا سارا کاروبار چلتا ہی انسانی مکاریوں کے زور پر ہے۔ بالکل نہیں، میں ایسی سفید دنیا کا تصور نہیں کرنا چاہتا۔ میرے لیے میری زندگی میں صرف ایک ایسا آدمی کافی ہے، جس کی زندگی میں برائی کا کوئی خانہ ہی نہیں ہے۔
ہمارے گھر میں یہ بات مسلمہ طور پر مشہور تھی کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے۔ جھوٹ بولنے کے لیے بولنا پڑتا ہے، وہ بولتے ہی کم تھے، کام سے کام رکھتے تھے۔ ایسے انسان کو سچ کے سوا کسی اور چیز کی ضرورت ہی کیا تھی۔ چٹخارے کے لیے جھوٹ تو وہ بولتا ہے، جسے سچ سے اکتاہٹ ہو۔ ان کو میں نے کبھی اپنی سچائی سے اکتاتے دیکھا ہی نہیں۔ اگراکتاتے تو ذرا اپنے کردار کی سوئی گھماتے، ہم لوگوں کی طرح کبھی کبھار کچھ تو ایسا کرتے، جس سے زندگی میں نمک جیسی کوئی کڑواہٹ پیدا ہو۔
مگر وہ تو جب بھی کوئی بات بتاتے تو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سنجیدگی سے بات کرتے، خواہ اس بات کا موضوع یا مقصد کتنا ہی مزاحیہ کیوں نہ ہو۔ ایک دفعہ بھوت پریت کا ذکرنکلا، میں نے حسب عادت انکار کیا اور اپنے گھر والوں کو قائل کرنا چاہا کہ یہ سب توہمات کا کارخانہ ہے۔ ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’مجھے بھوت ووت کا تو کچھ علم نہیں، کبھی ڈر بھی نہیں لگا۔ البتہ ایک دفعہ ایک کرایے کے مکان کی چھت پر میرا پلنگ سوتے میں نہ جانے کیسے کھڑا ہوگیا تھا۔
میں نے دوبارہ اسے بینڈا کیا، اس پر لیٹ کر سوگیا مگر وہ دوبارہ کھڑا ہوگیا۔ اس کے بعد میں نے وہ مکان چھوڑ دیا۔ ’اور یہ بات بتاتے ہوئے وہ بھی وہ یوں مسکرارہے تھے، جیسے یہ کوئی خوفناک واقعہ نہ ہو، بلکہ اک عام سی روداد ہو۔ میں عجائبات، روحانیات، بھوت، پریت، آسیب، جن وغیرہ پر جتنا یقین نہیں کرتا، اتنا ہی یقین اس بات پر بھی کرتا ہوں کہ حسیب بھائی جھوٹ نہیں بولتے تھے۔
انسان چلا جاتا ہے، دفن ہوجاتا ہے۔ مگر ہماری وابستگی کسی بھی قبرستان میں دفن نہیں ہوسکتی۔ یہ تو سینے میں اس وقت تک دھڑکتی رہے گی، جب تک ہماری پسلیوں میں ہوا کا گزر رہے گا۔ مرنا تو ویسے بھی ایک یقینی امر ہے۔ اس کی پراسراریت میں ایک لذت ہے، مگر زندگی کے ہاتھ پاؤں بھی کم لمبے چوڑے نہیں۔ جو ہمارے درمیان نہیں ہے، وہ ہماری نسلوں کے درمیان رہے گا۔ کبھی کوئی یاد بن کر، کبھی کوئی احسان بن کر، کبھی کوئی خواہش بن کر اور کبھی تحریر بن کر۔