ہاں میں اک طوائف ہوں۔ بھرے بازار میں گنڈیریوں کی اک ریڑھی کی طرح۔ مٹھاس بھری۔ رسیلی۔ گاہکی لگے نہ لگے۔ مکھی ضرور بیٹھ جاتی ہے۔ میں اک تن جلی کی جنم جلی ہوں۔ ولدیت کے بے رنگ کتبے پر میری جنم پرچی بے نام نصب ہے۔ مجھے جنم دینے والی من جلی عورت تھی کسی کی بیوی نہ تھی۔
میں اک مال ہوں۔ بے دام۔ بکاؤ ارزاں قیمت کی بار بار وصولی کے باوصف حساب چکتا نہیں ہوتا۔ روزنامچہ کبھی اختتام پذیر نہیں ہوتا۔ کلف لگے بے شکن لباس والے ”شب گزیدہ“ مرد کو میرے بستر پر لپٹی تہہ در تہہ راتوں کی شکنیں دکھائی نہیں دیتی کیونکہ۔ ۔ ۔ وہ ایک مرد ہے اور میں ایک بازاری عورت۔
میرا بازار ساز کون ہے؟
ش۔ ش۔ شش۔ بے پردگی کے مسکن پہ کوئی پردہ دارّیوں کے ساتھ آرہا ہے۔ میری فرض شناسی اور بے شکن لباسی والے مرد کی ”ٹھگی“ اک مک ہوجائے گی۔ اجتناب اور گریز کی کچی سڑک اک ”شاہراہ دستور“ بن چکی۔ خدمت میں حاضری ہی منشور بن چکی۔ اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ مگر تاریکی نہیں۔ میرا جسم ہی میری آنکھیں ہیں۔ جھلس کر دیا جلاتی ہیں۔ روح کے چراغ کنارے کنارے روشنی ٹمٹاتی ہے کہ! ”میں اک طوائف ہوں! “
میرے وجود کی گھڑی کو ”تقدیر“ ”سماجی تدبیر“ سے گانٹھ کر آخری ہچکی تک کے لئے باندھ دیا گیا ہے۔
ہر رات میرا وجود میرے رنگ لباس میں ڈھل جاتا ہے۔ سنہرا۔ سبز۔ ہرا۔ نیلا۔ پیلا اور لال۔ سفید رنگ تو میرا تن من ایک کردیتا ہے۔ چلمنوں تک اُجالا پھیلا دیتا ہے۔ جیسے ویرانیوں میں جھلملاتی کرنوں تلے جگمگاتی ریت ہے۔
میں ایک زیبائش ہوں۔ میں اک نمائش ہوں۔ میں اک آلائش ہوں۔ قربان جاؤں پھر بھی جسم بوسی کی اک گنجائش ہوں۔ نہ گھنگھرو میرے گھنگھرو ہیں نہ پائل میری پائل ہے۔ نہ کجرا میرا سجرا ہے۔ نہ جھومر میرا جھومر ہے۔ سب کچھ ہی تو گھائل ہے۔ پھول، موتی، کجرے، کلیاں پہن کر خوشبو سے شرابور رہتی ہوں۔ ”موا عطرمیری بساند کی مخبری کرکے معطر نہیں ہونے دیتا!
میں سراپا اُدھار ہوں۔ دستی وصولی ہی میرا سنگھار ہے۔ میرے تھڑے پہ ”قدم“ تو کیا مستعار نگاہ بھی بھٹک نہیں سکتی۔ میری انتظار گاہ پہ ہوس کی چابک کا پہرہ ہے۔ میری آنکھ کے آنسوؤں کی رم جھم برستی چھن چھن برستی بارش کو میرے گھنگھرو کی ”چھنن چھن“ کی نافرمانی کی مجال نہیں۔ میں اپنے گھنگھرو کی غلام ہوں۔ ایڑھی کا لمس زمین کو چھو جائے تو دل کی ڈھڑکن کا ارتعاش پاؤس تلے روند دیتی ہوں۔
اوہو۔ میری اک ہمنیش کا اپنے چھیل چھبیلے دلبر کی انگلی پکڑے کھڑکی سے چھلانگ لگاتے ہی بارودی سرنگوں پہ ایسے پاؤں پڑے کہ ریلوے سٹیشن کی دور دراز پٹریوں اور اس کے اطراف بجلی کی تاروں پہ چیتھڑے چیک گئے۔ اب بھلا چیتھڑے کی نماز جنازہ کون پڑھائے۔ میں بھی اک چیتھڑا ہوں۔ مہذب معاشرے کا!
میں دربار سجاتی ہوں۔ درگاہ پہ بھی جاتی ہوں۔ کالی سیاہ لانبی چادر اپنے تن پہ تان کر دُعا کو آنسوؤں میں لپیٹ کر سناتی ہوں۔ یہاں میری دعاؤں کا بسیرا ہے۔ یہ دنیا تن من کی دنیا ہے۔ زندہ لوگوں کی ”گونگی“ دنیا ہے۔ میرے جسم و جاں کی حلاوت چراتی ہے۔ میری فریاد کا ان کی سماعتوں سے کیا واسطہ۔ اک داشتہ کاہنی کو راستہ نہیں۔ کوئی اور راستہ۔
صدقے جاؤں سونڑے رب کے! اک طوائف ”پیر جلال الدین رومی“ کے کلام عشق الٰہی کی چاہ میں بھیس بدل کر مسجد جاپہنچی۔ حضرت شاہ شمس تبریز ؓ نے سنگسار ہونے سے یہ فرما کر بچالیا۔ طوائف کا اور سب کا ایک ”اللہ“ ہے۔ زہے نصیب کہ میں اک طوائف ہوں۔
میرے در پہ جو آتا ہے۔ ”اپنا پن“ اپنے گھر ہی چھوڑ آتا ہے۔ زندگی کی تمازتوں کا انبار بے گھروں کے گھر اُٹھا لاتا ہے۔ تازگی کے بدلے میں تھکان چھوڑ جاتا ہے۔ تہی دامنوں کے خیموں سے مالا مال لوٹ جاتا ہے۔ مردانگی کی دھول جھونک جاتا ہے۔
میں ایک طوائف ہوں۔ برف میں لگی گنڈیریوں کی طرح مہین جالی سے ڈھکی۔ عریاں۔
میں اک طوائف ہوں۔ برف میں لگی گنڈیریوں کی طرح جیسے برف میں لگی لاش۔ میرا مول میری قیمت مجھے ہر روز اک نیا جنم دیتا ہے۔
جی صاحب۔ میں اک طوائف ہوں!
میں اک طوائف ہوں۔ برف میں لگی گنڈیریوں کی طرح جیسے برف میں لگی لاش۔ میرا مول میری قیمت مجھے ہر روز اک نیا جنم دیتا ہے۔
جی صاحب۔ میں اک طوائف ہوں!