”کیوں بھئی، کیا ہوا“
” شادی کے بعد میری ساس نندوں نے ایک دن مجھے سانس نہیں لینے دیا۔ دن رات کام ہے اور طعن و تشنیع۔ شوہر کو صرف ان کی بات سمجھ آتی ہے۔ دن کو میرے لئے وہ اجنبی ہوتا ہے بات بہ بات جھگڑتا ہوا اور اپنی ماں بہنوں کی شکایات پہ میری جواب طلبی کرتا ہوا، اور رات کے اندھیرے میں اپنی خواہشات کی طلب کی، مانگ میں بے قرار۔
لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ صبح کو زخمی کیا گیا من، رات کو محبت کی رم جھم میں ڈوب جائے۔ پھر یہ سب ایک فرض بن جاتا ہے ڈاکٹر، ایک ناگوار فریضہ اور شوہر چڑ کے کہتے ہیں کہ میں پتھر ہوں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم لڑکیاں خوشی خوشی سولی کیوں چڑھ جاتی ہیں ”
ہمارے آج کے کالم کا گہرا ناتا ہے کچھ باتوں سے، کچھ احساسات سے، کچھ کمنٹس سے جو ہم نے پچھلے کالم (جاہلوں کی دعا۔ خدا بیٹی کے نصیب اچھے کرے ) کے بعد پائے۔
ابھی ہم ان سب کی روشنی میں کچھ لکھنے کا سوچ ہی رہے تھے کہ ہفتہ واری کلینک میں دو مریضوں سے ملاقات ہو گئی اور ہماری سوچ میں کچھ اور چراغ جل اٹھے، کچھ اور در وا ہو گئے۔
ڈاکٹر اگر ہمدرد ہو تو مریض بیماری کے ساتھ اپنے اندر کا حال بھی بیان کر دیتا ہے۔ نتیجتاً وہ گتھیاں سلجھانے کے لئے مل جاتی ہیں جن کا تانا بانا ہمارے گھروں کی بدصورت سیاست سے جڑا ہے، طاقت اور اختیار کی سیاست!
پہلی مریض انتہائی مضمحل دکھتی تھی، اداس آنکھیں اور پرکشش چہرہ۔ وہ بہت سی ایسی تکلیفوں کے ساتھ آئی تھی جو ذہنی اعصاب سے جڑی تھیں۔ ہم ماہر نفسیات تو نہیں لیکن دل کی کہانی سننے پہ یقین رکھتے ہیں۔ ہمارے تھوڑاسا کریدنے پہ وہ پھٹ پڑی تھی اور خودکشی کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ اور ہم نے سوچا تھا، اوہ خدایا! پھر وہی پدرسری معاشرے کی ازلی دیمک زدہ کہانی!
”میم، کیا اگلا مریض بھیج دوں“ میری اٹینڈنٹ نے پوچھا تھا؟
اور اگلا جوڑا جو داخل ہوا، یوں محسوس ہوا کہ باد نسیم کے جھونکے سے بیمار کو بے وجہ قرار آ گیا۔ پہلی مریض سے مل کے جو اداسی چھائی تھی، اس کا مداوا ہو گیا۔
نوجوان، بے انتہا پرکشش، فرحان چہرے، ہنستی آنکھیں، کھلکھلاتے لب، کلینک میں شادمانی رقص کر رہی تھی۔ ہم کافی حیران تھے کہ اپنے ملک سے تعلق رکھنے والا ایسا جوڑا کم ہی دیکھنے میں ملتا ہے۔
شادی کو ایک برس گزر چکا تھا اور اب خوشخبری ٹھہر چکی تھی۔ دونوں بات بے بات ہنستے تھے۔ دولہا میاں بہت جملہ باز تھے اور دلہن بہت پرجوش۔ دولہا میاں کو اپنی کہانی کہنے کا شوق تھا اور ہمیں سننے کا سو ہمارے چھیڑنے کی دیر تھی۔
”میں دس سال سے ملک سے باہر ہوں اور اپنے خاندان کو مالی طور پہ سپورٹ کر رہا ہوں۔ گزشتہ پانچ سال سے عقد کی خواہش تھی سوشگھر والوں سے بارہا درخواست کی۔ میری والدہ اور بہنوں نے سینکڑوں لڑکیاں دیکھ ڈالیں۔ میری کوئی خاص پسند نہیں تھی لیکن ان کے معیار پہ کوئی پورا ہی نہیں اترتا تھا۔ ہر لڑکی میں کوئی نہ کوئی نقص نکال دیا جاتا۔ میں تھک چکا تھا، مجھے یوں محسوس ہوتا کہ وہ سب اس سلسلے میں زیادہ پرجوش نہیں ہیں۔
ان کے ہاں جب یہ سلسلہ شروع ہوا تو میں نے کچھ اور ٹھانی۔ میں نے کسی طرح نمبر لے کے ان کے والدین سے خود بات کی، انہیں اپنے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ درخواست کی کہ جو بھی تحقیق کرنا چاہتے ہیں کر لیجئیے اور اگر میں معیار پہ پورا اتروں تو مجھے قبول کر لیجیے۔ ان کے خاندان کو کچھ تامل تھا کہ عموما ایسا ہوتا نہیں۔
میں نے انہیں وڈیو کالز کیں، اپنا گھر دکھایا، اپنی تنخواہ کی تفصیل بھیجی، اپنی جاب کے متعلق بتائی، اپنی عادتیں بتائیں۔ اپنی خواہشات کا اظہار کیا، میں ان کی بیٹی کے تحفظ کے لئے کیا کر سکتا ہوں بتایا اور یہ بھی کہا کہ ان باتوں کا میرے والدین کو علم نہ ہو تو بہتر ہے۔
ان کے والدین کو میری صاف گوئی بے حد بھائی لیکن پھر بھی وہ تذبذب کا شکار تھے۔ میں نے گھر کے ایک ایک فرد سے بات کی اور بالآخر انہیں میری سچائی پہ اعتبار آ ہی گیا۔ ایک درخواست اور کی کہ میں والدین کو رشتہ لینے بھیجوں گا اور آپ لوگ فوراً قبول کر لیجیے گا۔ مزید یہ کہ مجھے عقد بھی جلد کرنا ہے تاکہ کوئی رخنہ اندازی نہ ہو سکے۔
اب دلہن کی باری تھی ”ہمیں ان کی باتیں بہت عجیب محسوس ہوئیں، لیکن لفظوں میں صداقت بولتی تھی۔ سو ہم سب نے ان پہ اعتبار کا فیصلہ کیا اور وقت نے ثابت کیا کہ ہمارے دل نے غلط نہیں سوچا تھا۔ ڈاکٹر میں آپ کو بتاؤں، میں پہلی دفعہ ان سے شب زفاف پہ ملی اور ملتے ان کی محبت میں گرفتار ہو گئی۔
انہوں نے یہ کہہ کے میرا دل موہ لیا کہ تم اب میرا حصہ ہو، میرا مستقبل ہو، تم میرے لئے آئی ہو، میرا گھر بنانے سو اب تمہارا تحفظ میری ذمہ داری ہے۔ میں تمہیں کچھ باتوں سے پہلے ہی محتاط کرنا چاہتا ہوں تاکہ تمہاری طبیعت بوجھل نہ ہو۔ مجھے اپنی ماں اور بہنوں سے محبت ہے کہ ہم ایک ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں لیکن میں تم سے بھی محبت کا رشتہ باندھ چکا ہوں سو کچھ باتیں بتانا میری ذمہ داری ہیں۔ بڑی آپا مزاج کی بہت تیکھی ہیں، طنز کرنے کا بہت شوق ہے، سو کوئی موقع جانے نہیں دیں گی۔ منجھلی باجی بھی ہر وقت تمہاری ٹوہ میں رہیں گی اور چھوٹی سے تو بہت ہی ہوشیار رہنا، تمہاری ہر بات اماں کو جڑے گی۔ رہیں اماں تو تمہارے ساتھ اب ان کا شراکت کا رشتہ ہے۔ سو تھوڑا مشکل ان کے لئے بھی ہو گا، بیٹے کی محبت بانٹنا۔ لیکن تم صرف میرا یقین رکھنا اور دوبدو مقابلے پہ مت اترنا۔ ان کی بھی سنوں گا اور تمہاری بھی لیکن میں تمہارا مقام کبھی متاثر نہیں ہونے دوں گا اور ان کو بھی تمہیں اذیت نہیں دینے دوں گا ”
وہ مسکرائی ”اور اب میں ایک لحظہ بھی ان کے بنا نہیں رہ سکتی“
ہمارے الفاظ گم ہو چکے تھے، آواز حلق میں پھنس چکی تھی۔ بڑی مشکل سے سوال کیا، ”بیٹا! اس عمر میں ازداجی زندگی کی غلام گردشوں کے تاریک راز تم نے کیسے سمجھے“
وہ مسکرایا ”میرا بچپن مشترکہ خاندانی نظام میں گزرا۔ گھر میں پھوپھیاں بھی تھیں اور دادی بھی اور میں نے اپنی ماں کو ان کے ہاتھوں زچ ہوتے دیکھا۔ ابا دفتر سے آتے اور جھوٹی شکایات کا دفتر کھل جاتا۔ ابا دفتر کی تھکاوٹ اور ماں بہنوں کی شکایات کا ملبہ اماں پہ گراتے اور اماں کی بات بے مول ٹھہرتی۔ اماں خون کے آنسو روتیں اور ہم بہن بھائی خاموش تماشائی بنتے۔ وہی شیر بن کے گرجنے والے ابا رات کے اندھیرے میں اماں سے معافی کے خواستگار ہوتے کہ نفسانی خواہشات کا غلبہ ہوتا لیکن کب تک؟ آہستہ آہستہ اماں ابا سے دور اور خاموش ہوتی گئیں۔ سر جھکا کے زندگی گزارتی رہیں۔ وقت گزرا، دادی عالم بالا کو سدھار گئیں۔ مگر پھوپھیوں نے اپنے گھروں میں جا کے بھی میکے میں طاقت کی سیاست نہیں چھوڑی۔
ابا اور اماں میں برسوں کی دوری تھی اور ان تمام برسوں کی تلخیوں نے اماں کا مزاج کڑوا کر دیا تھا۔ اماں نے بچوں میں دل لگا لیا تھا اور ابا اب تنہائی کا شکار تھے۔ اب ابا کی زندگی کا ساتھی ابا سے صدیوں کی دوری پہ کھڑا تھا۔ وہ سب برس جب محبت کا بیج بویا جانا تھا اور بڑھاپے میں جس کی چھاؤں نے دونوں ساتھیوں کو پناہ دینی تھی، کیکٹس میں بدل چکا تھا۔
پھر میں ملک سے باہر آ گیا اور بدلتے برسوں میں محسوس کیا کیا میری ماں نادانستگی میں دادی کا رستہ اپنا چکی ہیں۔ بیٹے سے وابستہ معاشیات بھی اس کھیل میں بھرپور کردار ادا کرتی ہے۔ بیٹا تو اپنا ہی رہتا ہے لیکن اس کے بیوی بچوں سے شراکت مشکل۔ اور اس سب میں بنیادی نقصان مرد کا ہوتا ہے۔ شباب عمری میں خونی رشتوں کی محبت وہ فیصلے کروا دیتی ہے جس کا خمیازہ آ خر عمر میں بھگتنا پڑتا ہے۔ پدرسری معاشرے میں بیوی جو ساری عمر تاوان دیتی ہے، آخر عمرمیں بچوں کے ذریعے طاقت چھین کے شوہر کو ایڑیاں رگڑنے پہ مجبور کر دیتی ہے۔ اور یہ وہ آتش فشاں ہے جس سسرال اور شوہر مل کے برسوں سلگاتے ہیں ”
وہ پھر گویا ہوا،
” میں نے بہت پہلے سوچ لیا تھا مجھے اپنی زندگی کے ساتھی کو ناراض نہیں کرنا۔ میں والدین کے حقوق بھی پورے کروں گا لیکن اپنے من کی ساتھی کے ساتھ بھی مرضی کی زندگی گزاروں گا۔ مجھے ازدواجی زندگی کی لذت کشید کرنی ہے۔ مجھے دن میں اپنے ساتھی کو بے عزت کرنا اور رات کے اندھیروں میں اس سے معافی نہیں مانگنی۔ میں اپنی ماں کے ساتھ اپنے بچوں کی ماں کو بھی عزت دینا چاہتا ہوں“
ہم ہک دک چہرہ لئے اس نوجوان کو دیکھ رہے تھے جس نے صرف بتیس برس میں وہ گیان وعرفان پا لیا تھا جو کچھ لوگ اک نا آسودہ عمر بسر کرنے کے بعد بھی نہیں پا سکتے اور یونہی دنیا کو خیر باد کہہ دیتے ہیں۔ پہلی کہانی معاشرے کی نوے فیصد عورتوں کی کہانی ہے اور دوسری شاید پانچ فیصد کہ توازن قائم رکھنا کوہ طور کو سر کرنے کے مترادف ہے۔
ایک دلچسپ بات سناتے چلیں جو ہمارے کزن طیب کاظمی نے ہمیں کبھی سنائی تھی
” اگر آپ چاہتے ہیں کہ بڑھاپے میں شوہر کی چارپائی ڈیوڑھی میں نہ بچھے تو جوانی میں اپنی بیگم کو اپنا بنا لیجیے“
بازی گر کی طرح تنے ہوئے رسے پہ توازن قائم رکھنے میں ہی زندگی ہے!