شاہدہ علی
چھوٹا بچہ بیمار تھا۔ رات بھر سو نہ سکی۔
صبح سویرے مچنے والی ہڑبونگ میں بچوں کو اسکول کے لیے روانہ کیا۔
بیمار بچے کو سینے سے لگائے شوہر کے پیچھے بائیک پر سوار ہو گئی۔ دل بچے کی وجہ سے مضطرب تھا۔
زن سے ایک بائیک قریب آئی۔ ایک ساٹھا باٹھا مرد بڑی فرصت سے تیل کنگھی کر کے گھر سے نکلا تھا۔
جوان بیٹوں کا باپ تھا۔ فکر معاش سے آزاد تھا۔ چناچہ فرصت ہی فرصت تھی
اپنی پوتی کو گھمانے نکلا تھا شاید-
بیمار بچے کو اٹھائے افتاں و خیزاں گھر سے نکلنے والی نے برقع سمیٹ کر بیٹھنا چاہا تو ایک پنڈلی ننگی ہو گئی۔
بڈھے کے ہاتھ نیا ایڈونچر لگا۔ پاس ہی ایک نوعمر بائیک والے لڑکے کو آنکھوں سے اشارہ کیا، قہقہ لگا کے ہنس پڑا۔
وہ ڈر کے مارے اور سمٹ گئی۔ بوڑھا خباثت سے مسکرایا۔ آج تو سویرے ہی مزہ آ گیا۔
اپنے کارنامے پر شاداں فرحاداں گھر کو لوٹا۔
خیال آیا گلی کی نکڑ والی دکان سے پوتی کو بسکٹ لے دے۔
دکان دار نے بسکٹ تھماتے ہوے بچی کے گال کو چھوا اور للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہوے بولا۔ بابا جی بچی تو بہت خوبصورت ہے۔
بڈھے کی غیرت جاگی۔ دکان دار کو گریبان سے پکڑا۔ جھٹکا دے کے غصے سے گھورا اور پوتی کو کلیجے سے لگا کے باہر نکلتے ہوئے ہولے سے بڑبڑایا۔۔۔۔
خبیث کہیں کا!