”آپ کا نام؟ شادی شدہ“ مردوں کے بنائے ادھورے معاشرے پر طنزیہ تحریر

ناہید  وحید

پہلی عورت : آپ کا نام؟

دوسری عورت : شادی شدہ

پہلی عورت : میں نے آپ کا نام پوچھا ہے مس۔

دوسری عورت : ارے مس وس نہیں۔ ہم تو مسز ہیں۔ مسز۔ شادی شدہ

پہلی عورت : جی مسز۔ آپ کا نام ہی تو پوچھا تھا تاکہ میں آپ کو۔

دوسری عورت : ارے ارے بس بس۔ تم شادی شدہ ہو؟

پہلی عورت : جی۔ نہیں۔ تعارف پوچھ رہی ہوں آپ کا۔

دوسری عورت : اوہو مجھے پتہ ہے۔ دراصل لڑکی شادی شدہ نا ہو تو شادی شدہ کے بارے میں سمجھتی ہے جیسے ان کا کوئی اسٹیٹس ہے نا معیار۔ وہ کچھ جانتی ہی نہیں۔ بس اپنے شوہر کی پسند ناپسند پر چلی جاریی ہوگی۔ وہ بھی آنکھ بند کر کے۔ اصل میں ظاہر پھی بس اتنا ہی کرنا ہوتا ہے۔ (قہقہہ) تم سے محتاط ہو کر بات کرنی پڑے گی۔

پہلی عورت : لیکن میں نے تو ایسا کچھ کہا نہ پوچھا۔ خیر آپ اپنا نام تو بتائیں؟

دوسری عورت : ہوں۔ ہمم۔

پہلی عورت : اللہ۔ آپ اپنا نام سوچ رہی ہیں۔

دوسری عورت : مسز احد۔

پہلی عورت : اتنا سوچ کر !

دوسری عورت : ہاں سوچ رہی تھی میاں کا پورا نام بتاؤں یا بس اتنا۔

پہلی عورت : اتنا! کتنا؟

دوسری عورت : ارے۔ اتنا، جتنا بتایا ہے۔

پہلی عورت : یہ آپ کا تو نام نہیں ہے؟

دوسری عورت : میرا نہیں تو کس کا ہے۔

پہلی عورت : میرا مطلب آپ کا وہ نام جو امی ابا۔ اچھا خیر چھوڑیں۔

دوسری عورت : میکے والا۔ یہ بولو نا۔ میکہ ہے وہ اب میرا۔ میکہ۔ یہی تو قربانی ہے جو ہر عورت کو دینی پڑتی ہے۔

پہلی عورت : افف۔ رہنے دیں۔

دوسری عورت : نہیں۔ بتاؤ نا۔ کیوں رہنے دوں۔ میکے والا نام نا؟ بھئی اب تو شادی شدہ ہوں نا۔ وہی نام بتاؤں گی نا جو مجھے پسند ہے۔ دنیا اسی نام سے پکارتی ہے۔ سچ بتاؤں تو۔ (قہقہہ) کبھی کبھی مجھے اپنانام ہی بھول جاتا ہے۔

پہلی عورت : اوہ۔ یہ تو بڑی عجیب سی بات ہے۔

دوسری عورت : ہمم۔ لیکن اب عادت ہوگئی ہے۔ سچ پوچھو تو اپنے نام کی ایسی کوئی خاص ضرورت بھی نہیں پڑتی خاص کر شادی کے بعد۔ اب۔ جب انٹر میں داخلہ لے رہی تھی تب پڑی تھی اور۔

پہلی عورت : اور؟

دوسری عورت : پھر نکاح کے وقت۔ ہی ضرورت پڑی ہوگی۔ لیکن نکاح نامہ پڑھا کس نے تھا!

(قہقہہ)

پہلی عورت : اچھا تو نام بتانے سے پہلے یہ بتائیں کہ نکاح نامہ کیوں نہیں پڑھا آپ نے؟

دوسری عورت : بھئی مردوں میں سے کسی نے پڑھ ہی لیا ہوگا۔ آخر وہاں والد، بھائی ماموں چچا، رشتہ دار احباب سب ہی تو موجود ہوتے ہیں۔ اپنی ذمہ داری پوری کی ہوگی!

پہلی عورت : کمال ہے! شادی شدہ زندگی آپ کو گزارنی تھی۔ شادی آپ کی تھی۔ اتنی غیر ذمہ داری۔

دوسری عورت : تو! والد کی ذمہ داری وہ جانیں اور شوہر نے ذمہ داری لی ہے تو وہ سنبھالیں۔ ہم خواہمخواہ کی بدگمانی میں پہلے ہی پڑ جائیں۔

پہلی عورت : لیکن یہ بدگمانی، قانون کی صورت ہونے والا شوہر اپنے حق میں محفوظ کر رہا ہوتا ہے تب تو قانون ہی کہلاتا ہے۔ پھر جو آپ پڑھتی تو بدگمانی کیسے ہوتی بھلا۔

دوسری عورت : اف فو۔ ایویں۔ شادی ہونے سے پہلے خرافات سوچیں۔ ہونے والے شوہر کے دل میں برائی آ جاتی تو! لیکن تم کو کیا پتہ مرد ذات۔

پہلی عورت : ہیں۔ سوچنا کہاں! برائی کیسی۔ یہ قانون ہے۔ نکاح کی صورت سہی۔ اپنی ذمہ داری تو آپ کو بھی پوری کرنی چاہیے۔ بغیر کسی لگی بندھی سوچ اور تواہمات سے آزاد ہو کر۔ یعنی بدگمانی، خرافات، برائی اور بدشگونی جیسے تواہمات سے نکل کر مثبت پہلو دیکھنا چاہیے تھا۔

دوسری عورت : بھئی اب تو ہوگئی شادی۔ ہم شادی شدہ ہیں۔ ایویں مرد عورت کے تنازعات میں پڑیں جو آج کل پھیلے ہوئے ہیں۔ دنیا میں جو ہوتا رہے ہمیں کیا۔ زندگی پرسکون ہے بہت ہے۔ تمھیں بتاؤں کہ آج کل خواتین کے دماغ لبرل آنٹییوں نے بڑے خراب کر دیے ہیں تم بھی ان کا شکار لگتی ہو۔ ویسے یہ سروے ہے کس چیز کا؟

پہلی عورت : ذمہ داری کا احساس دلانا اور دماغ خراب کر دینا دونوں میں فرق ہے وہ بھی زمین اور آسمان جیسا۔ آپ کو زیادہ خرابی غیر ذمہ دار دقیانوسی انکلز کی پھیلائی ہوئی نہیں لگتی جن کی دقیانوسی سوچ سے مثبت سوچ کا حامل مرد بھی بھاگتا ہے؟ اس طرح متفرق سوچ کو متنازع بنا کر بڑھاوا دینے میں خود ان کی غیر ذمہ داری، کاہلی، کام چوری پر پردہ پڑا رہ جاتا ہے۔ مخالفت در مخالفت میں اصل یہی رویے زیر بحث ہی نہیں آتے۔

آپ جن پر اندھا اعتماد کرتی ہیں اگر ان میں سے کوئی فرد اپنے فرائض نہ نبھائے تو۔ بھگتے گا کون؟ کیا آپ کسی غیرذمہ دار شخص سے اپنے ذمہ دار بھائی یا شوہر کا موازنہ کرسکتی ہیں۔ سوچیں تو آپ کی غیر ذمہ داری نے ان کو غیر ضروری پابند کیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ ذمہ داری سے نکاح نامہ پڑھتیں مطمئین ہو کر ہاں یا نا کرتیں۔

دوسری عورت : میں تو لڑکیوں کے زیادہ شعور رکھنے کے خلاف ہوں۔ زبان چلانی آجاتی ہے۔ سروے تو کرنے آگئی ہو خود پہ بھی نظر ڈال لیتیں۔ زبان چلانے میں لگی ہو بس۔

پہلی عورت: محترمہ۔

دوسری عورت : اوں ہوں۔ مسز احد۔

پہلی عورت: مسز احد۔ زبان چلانے اور شعور رکھنے میں فرق ہے۔

دوسری عورت : ہو گا بھئی۔ لیکن۔ لیکن مجھے تو سب ایک جیسا لگتا ہے۔ آخر تالاب میں رہ کر مگر مچھ سے بیر کیوں۔ کم از کم میں تو ان میں ہر گز نہیں!

پہلی عورت: لیکن تالاب میں مگر مچھ بنا کیسے؟ مگر مچھوں کے جوہڑ میں صرف مچھ ہی زندہ بچے رہ سکتے ہیں۔ پھر مگر مچھ تو آپ بھی ہوئی۔

دوسری عورت : مچھلی یا جل پری ہو سکتی ہوں۔ میں خود کو مگر مچھ تو ہر گز نہیں کہہ سکتی۔ بھئی مردوں کا معاشرہ ہے یہ۔ یہ سچائی تو میں بھی جانتی ہوں۔ میں اس میں بہترین طریقہ سے جینے کی حامی ہوں بس۔

پہلی عورت : بیوقوف انجان بن کر۔

دوسری عورت : افف۔ میرا دماغ نہ چاٹو۔ سروے ختم کرو۔ بتا بھی نہیں رہی کہ سروے کس چیز کا ہے تو میں سوال کا جواب کیوں دوں۔ کس این جی او کے لئے کر رہی ہو؟ سروے ہے یا انٹرویو۔

پہلی عورت: آپ نے سب کچھ خود ہی اخذ کر لیا ہے تو یہ میں بعد میں بتاؤں گی۔ پہلے اپنا پورا نام تو بتا دیں۔

دوسری عورت : نام کا اچار ڈالو گی۔ شادی کے بعد سب بھابھی بھابھی بلاتے ہیں۔ میرا نام تو کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ سچ پوچھو تو ان کے ہوتے میرے نام کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ نام لکھنا بہت ضروری ہے تو تم ایسا کرو ان ہی کا نام لکھ دو۔ مسٹر احد

پہلی عورت: آگے جنس کا خانہ بھی ہے۔ قصہ مختصر۔ میں تو بڑی دیر سے آپ کا نام ہی پوچھ رہی ہوں خیر۔ میں مسز احد ہی لکھ لیتی ہوں۔

کیا عورت کو نام صرف پکارنے کی صورت دیا جاتا ہے۔ آپ تو اپنے نام سے بھی انکاری ہیں ایسا بھی کیا شادی شدہ ہونا کہ نام بھی تیاگ دیا۔ یہ کیا جینا ہوا۔ آپ انفرادی شخصیت کی مالک بھی تو ہیں۔ مکمل انسان ہیں وہ؟

دوسری عورت : یہ کیا بات ہوئی۔ ۔ سب کچھ گھربار کے لئے تو کرنا پڑ رہا ہے۔ ارے تم لبرل قسم کی ذہنیت رکھنے والیوں کو پتہ نہیں ہم شادی شدہ زمانے بھر کی مظلوم دکھی کیوں نظر آتے ہیں۔ کہیں نہ کہیں سے مظلومیت ڈھونڈ لاؤ گی۔ ارے مردوں کو ہم سے زیادہ کون جان سکتا ہے۔ ۔ ۔ اس کے لئے لبرل وبلر سوچ وچ کی ضرورت نہیں ہے شادی کی ضرورت ہے۔ پھر سمجھو گی ان کو۔ اور وہی کرو گی جو میں کر رہی ہوں۔ اور تم اوپر سے۔

پہلی عورت: اوپر سے کیا؟

دوسری عورت : ارے ایسی سوچ کو مردوں پر ظاہر کر کے بلا وجہ کی خجالت مول لینا کہاں کی علقمندی ہے۔ اوپر سے ان کی مخالفت اور آزاد سوچ کو ان مردوں پر ظاہر بھی کردیتی ہو۔ پگلی ہو پگلی۔

پہلی عورت : تو؟

دوسری عورت : تو کیا! پھر ہوگئی ہوتی شادی۔ ارے تمھیں کیا لگتا ہے ہم شادی شدہ عورتوں کو مردوں کے بارے میں یا معاشرے کے بارے میں کچھ معلوم نہیں! یہ معاشرہ مردوں کا ہے۔ مرد اپنے خلاف کچھ سن نہیں سکتے۔ خاص کر کسی عورت یا اپنی بیوی سے۔ ایک ذرا سا انجان ہی تو ثابت کرنا ہے یا بیوقوف بننا کہہ لو۔ پھر سب ہی کچھ یوں یوں حاصل ہوتا ہے۔ اور وہ بھی بغیر خجل خواری کے۔

پہلی عورت : مثلا؟ کیا حاصل ہوتا ہے؟

دوسری عورت : مثلا۔ گھربار، شوہر، بچے۔ پوری گرہستی اور

پہلی عورت: اور؟

دوسری عورت : اور سب کچھ۔ بس سمجھو پوری دنیا کی نعمتیں۔ اور وہ بھی بغیر بک بک جھک جھک کیے، محاورہ ذرا سابدل لو۔ ہلدی لگی، پھٹکری لگی لیکن رنگ تو چوکھا آیا نا۔ ! مزے ہی مزے۔

پہلی عورت: تو آپ انجان بنی، مزے میں ہیں خوش ہیں؟

دوسری عورت : بالکل

پہلی عورت: جو آپ کی طرح اپنی سسرال میں خوش نہیں ہیں وہ شادی شدہ ناخوش خواتین اور ان کے غیر ذمہ دار شوہر۔ ان کے بارے میں آپ کیا کہیں گی۔ کیا آپ کی طرح انجان بنے رہنے سے خوشی حاصل ہوسکے گی؟ کیا بے وقوفی خوشی دلا سکے گی۔ غیر فطری سوچ پر پروان چڑھا یک طرفہ مردوں کا معاشرہ واقعی بہترین ہے یا غیر ذمہ دار، نکما اور کام چور۔ کیا ایسے تالاب میں صرف مگرمچھ نہیں پل رہے۔

دوسری عورت : تمھیں اس بیکار کی سوچ، سروے یا سوشل ورک سے کیا حاصل؟ بتاؤ کیا حاصل؟ بتاؤ کیا ملے گا؟ اس طرح کیا ہے تمھارے پاس۔

پہلی عورت: اول تو حقوق کو لبرل یا مخالفت کآ نام دینا غلط ہے اور دوسرا۔ گھر تو گھر ہوتا ہے۔ سسرال جانے کے بعد گھر کو میکہ بنا کر بھول جانا غیر فطری ہے۔ بھلا کوئی اپنا گھر بھول سکتا ہے۔ ایسی غیر فطری عمل کو قربانی سمجھنے والی غیر فطری مردانہ معاشرے کی سوچ آپ ہی رکھیں۔ اس معاشرے میں دقیانوسی سوچ پر پروان چڑھے معاشرے اور مرد کی مثال۔ کریلہ وہ بھی نیم چڑھے کی ہے۔ کڑوہ کب تک نگلا جا سکتا ہے۔ اور آخر میں آپ کے لئے اتنا جواب ہی بہت ہے کہ میرے پاس اپنا نام ہے۔ جو مجھے یاد بھی ہے مس۔ اوہ معافی۔ مسز۔ آپ ہی جیسوں کے رویے تالاب میں مگر مچھ نہ صرف بڑھا رہے ہیں بلکہ پیدا بھی کر رہے ہیں۔

دوسری عورت : ارے ارے۔ اول فول بکے چلی جارہی ہو۔ میں لحاظ کر رہی ہوں۔ سروے ہے کس چیز کا؟

پہلی عورت : ڈیٹرجینٹ، ہوم کلیننگ کا ہی سمجھ لیں۔ بتانے کا فائدہ بھی کیا۔ بیکار۔ آپ بے بسی، بے حسی اور کمتری کو جینا کہتی ہیں۔ شادی شدہ ہونا یاں آپ کا نام بھی آدھا کر گیا حقوق ملنا تو بڑی دور کی بات ہے۔

پہلی عورت کا دوسری عورت سے انٹرویو یا سروے جو بھی تھا غیر متوقع اختتام پزیر ہوا۔

لیکن چند سوالات چھوڑ گیا۔

عورت بطور انسان کہاں کھڑی ہے؟ اس کے حقوق کیا ہیں؟ اس نے توہم پرستی پر جینا کیوں سیکھا۔ کیوں کم سے کم تر پر سمجھوتہ کیا؟ عورت کیوں عورت کے شعور رکھنے سے خائف ہے؟ وہ خود سے بے اعتباری مرد پر اندھا اعتبار رکھتی ہے؟

کیا وہ سماج سے مردوں کا معاشرہ ہونے پر ناراض ہے جو اپنا نام بتانا ضروری نہیں سمجھتی؟ مردوں کا معاشرہ عورت کی کمتری پر خوش ہے تو اعتدال پسند مرد عورت کی کمتری پر کیوں خاموش ہیں؟

ان سوالات کے جوابات آپ ڈھونڈیں یا مگر مچھ بن کے سوالات نگل جائیں، اپنا فیصلہ آپ کریں۔ آپ کو آپ سے بہتر کون جانتا ہے کیوں کہ معاشرہ آپ نے بنایا ہے جہاں ادھوری معاشرت کی پنپ آپ نے بھرپور کی ہے۔

تحریر: ناہید وحید

تعارف:

ناہید وحید قریشی

نیشنل اکیڈمی پرفارمنگ آرٹ سے ہدایتکاری اور اسکرپٹ کی سند حاصل کر چکی ہیں۔ تھیٹر اکیڈمی میں بطور ہدایتکارہ کئی سال کام کیا اور تھیٹر پڑھایا۔ بعد ازاں نوجوانوں کے لئے یوتھ فیسٹول میں تھیٹر متعارف کرایا۔ اس پروگرام کو کئی سال منفرد انداز سے چلایا۔

بطور کانٹینٹ مینیجر ڈرامہ چینل کے لئے کام کیا۔ ٹیلی وژن و تھیٹر کے لئے ڈرامے لکھتی ہیں۔ ان کے لکھے دو ناولٹ ”مقدمہ“ اور ”سرپرست“ آن لائین پڑھے جاسکتے ہیں۔ تحریر لکھنے کا منفرد انداز ہے۔ آزاد نظم کہنا اور فوٹوگرافی ان کا مشغلہ ہے۔