خدا پرستی سے انسان دوستی کا سفر

ڈاکٹر خالد سہیل

محترمی زید قریشی صاحب !

مجھے یہ جان کر بہت مسرت ہوئی کہ آپ میرے کالم بڑی سنجیدگی سے پڑھتے ہیں۔ مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ آپ نے ‘ہم سب، پر میرا کالم “کیا آپ کسی دہریہ پادری کو جانتے ہیں؟ پڑھ کر مجھ سے خدا، مذہب، حیات بعد الموت، جنت دوزخ کے علاوہ میرے خدا پرستی سے انسان دوستی کے سفر کے بارے میں کئی اہم سوال پوچھے۔ سوال پوچھنا اپنے سچ کی تلاش کے سفر کا پہلا قدم ہے۔ مجھے امید ہے کہ ایک دن آپ اپنا سچ پا لیں گے اور ایک صاحب الرائے انسان بن جائیں گے۔ میں اس کالم میں آپ کے سوالوں کا مختصر جواب دینے کی کوشش کروں گا۔

کئی دہائیاں پیشتر میں بھی اس دنیا میں ہزاروں لاکھوں بچوں کی طرح پاکستان کے ایک روایتی اور مذہبی معاشرے میں پلا بڑھا۔ مجھے بھی یہ سکھایا گیا کہ اس دنیا میں ایک ہی سچ ہے اور وہ سچ ازلی، ابدی و حتمی سچ ہے وہ مذہبی سچ ہے جو پورا سچ ہے۔ اس کے علاوہ باقی تمام مذاہب اور روایتیں یا جھوٹ ہیں یا ادھورے سچ ہیں۔ میں بھی باقی معصوم و سادہ لوح بچوں کی طرح اس سچ پر اندھا ایمان لے آیا۔

میرے اس ازلی و ابدی حتمی و مکمل سچ میں پہلی دراڑ اس وقت پڑی جب میں بارہ برس کا تھا۔ ان دنوں ہم پشاور میں عید گاہ کے قریب رہتے تھے۔ سال میں دو دفعہ تو عید گاہ میں عید کی نمازیں ہوتی تھیں باقی سارا سال ہم اس عید گاہ کے باغ میں فٹ بال کھیلتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے گرمیوں کے موسم میں چند سو لوگوں کو نماز پڑھتے دیکھا تو ایک بزرگ سے پوچھا ،بابا جی یہ لوگ نماز کیوں پڑھ رہے ہیں؟۔ یہ تو عید کا دن نہیں ہےَ، بابا جی نے کہا ،یہ نمازِ استسقا پڑھ رہے ہیں۔ یہ لوگ بارش کی دعا کر رہے ہیں۔ گرمی کی شدت سے لوگ مر رہے ہیں، بابا جی کی بات دل کو نہ لگی۔ میں نے اگلے دن اپنے سائنس کے ٹیچر سے پوچھا تو وہ زور زور سے ہنسے اور کہنے لگے ، دھوپ بارش طوفان سب قوانینِ فطرت کی وجہ سے ہوتے ہیں دعائوں سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ ،

میں بارش کا شدت سے انتظار کرتا رہا۔ جب دو ہفتوں میں بارش نہ ہوئی تو میں نے بابا جی سے بارش نہ ہونے کی وجہ پوچھی۔ کہنے لگے ، نماز پڑھنے والے گنہگار تھے۔ خدا گنہگاروں کی دعا قبول نہیں کرتا، ۔

میں نے سوچا اگر خدا ماں کی طرح مہربان ہے تو اسے اپنے بچوں کے لیے بارش بھیجنی چاہیے نیک بچوں کے لیے بھی اور گنہگار بچوں کے لیے بھی۔ اس واقعہ نے میرے دل میں بہت سے سوال ابھارے۔

جب میں پندرہ سال کا تھا تو میری روایتی ماں نے مجھے قرآن دیتے ہوئے کہا کہ ایک اچھا مسلمان بننے کے لیے مجھے اس کی پیروی کرنی چاہیے۔ میں چونکہ عربی سے نابلد تھا اس لیے میں نے پشاور شہر کی بہت سی لائبریریوں سے جو قرآن کے تراجم اور تفاسیر جمع کیں ان میں ابوالاعلیٰ مودودی، غلام احمد پرویز، مرزا غلام احمد، ابوالکلام آزاد اور پکتھال کے انگریزی ترجمے کے ساتھ ساتھ علامہ اقبال کے چھ لیکچر بھی تھے۔ مجھے اندازہ ہوا کہ ان مسلم سکالرز اور فلاسفرز میں سے کسی نے قرآن کا ترجمہ کیا کسی نے تفسیر اور کسی نے مفہوم بیان کیا۔ میں نے اگلے چھ سال تک قرآن کی پہلی آیت سے آخری آیت تک سنجدگی سے سب تراجم اور تفاسیر کا مطالعہ کیا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ مختلف مکاتبِ فکر کا قرآن کے بارے میں رویہ مختلف ہے۔ اپنے موقف کی وضاحت کے لیے دو مثالیں پیش کرتا ہوں۔

کسی نے قرآنی آیات کا لغوی ترجمہ کیا کسی نے استعاراتی ترجمہ اور کسی نے کہا ان کا ترجمہ ہی نہیں ہو سکتا آپ صرف مفہوم جان سکتے ہیں۔

کسی نے ملائکہ کا ترجمہ فرشتے کیا کسی نے قوانینِ فطرت۔

کسی نے ڈارون کی تھیوری کی مخالفت کی اور قرآنی الفاظ ۔۔۔ نفس الواحدہ۔۔۔ ۔ کا ترجمہ آدم کیا اور کسی نے کہا کہ ڈارون کی تھیوری قرآن کا عین مطابق ہے اور نفس الواحدہ کا ترجمہ۔۔۔ UNI-CELLULAR ORGANISM AMOEBA کیا۔

آہستہ آہستہ مجھے اندازہ ہو گیا کہ پچھلے چودہ سو سالوں میں مسلمانوں کے اتنے فرقے اور مسالک بن چکے ہیں کہ ہر فرقہ اور مسلک اپنے ترجمے اور تفسیر کو صحیح سمجھتا ہے۔ اب کسی انسان کے پاس کوئی طریقہ نہیں کہ یہ جانے کہ کونسا ترجمہ کون سا مفہوم کون سی تفسیر درست ہے۔

پھر مجھے یہ بھی اندازہ ہوا کہ باقی الہامی کتابوں کا بھی یہی حال ہے۔

اب میں الہامی کتابوں کو لوک ورثہ سمجھ کران کا احترام کرتا ہوں۔

آہستہ آہستہ میں کئی برسوں کے غور و تدبر کے بعد مذہب سے دور ہوتا گیا اور ایک رات میں نے خدا کو خدا حافظ کہہ دیا۔

میں نے خدا پرستی کو الوداع کہہ کر انسان دوستی کو گلے لگا لیا اور ایک ماہرِ نفسیات اور ایک انسان دوست لکھاری ہونے کے ناطے انسانیت کی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا۔ ،ہم سب ، پر کالم لکھنا اور ڈاکٹر بلند اقبال کے ساتھ یوٹیوب پر IN SEARCH OF WISDOM  کے 35 پروگرام اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔

اس پروگرام کی تحقیق کے دوران میں نے سیکھا کہ پچھلے چار ہزار برس میں دنیا کے مختلف گوشوں میں چار روایتیں مقبول ہوئیں۔

پہلی روایت مذہبی روایت ہے جس کا آغاز ایران میں زرتشت نے کیا۔ انہوں نے ایک خدا۔۔۔ اہورا مذدا۔۔۔ نیکی بدی۔۔۔ حیات بعدالموت۔۔۔ جنت دوزخ۔۔۔ کے تصورات پیش کیے جو مشرقِ وسطیٰ میں مقبول ہوئے۔ اسی روایت کی کوکھ سے یہودیت۔۔۔ عیسائیت اور اسلام نے جنم لیا۔

دوسری روایت ہندوستان کی روحانی روایت ہے جس کا آغاز بدھا اور مہاویرا کی تعلیمات سے ہوا۔ روحانیت کی روایت نے انسانوں کو دنیاوی چیزوں سے دل نہ لگانے کا اور رہبانیت کا مشورہ دیا۔

تیسری روایت یونان کی فلسفےکی روایت ہے۔ اس روایت کے بانی سقراط، بقراط ، افلاطون اور ارسطو ہیں جنہوں نے منطقی سوچ کو فروغ دیا۔ ایک دور میں مسلم فلسفروں نے یونانی فلسفروں کی تعلیمات کا ترجمہ کیا اور ان کا یورپ کے سائنسدانوں سے تعارف کروایا۔ لیکن پھر ابو حمید غزالی نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ اگر قرآن اور سائنس۔۔۔ مذہب اور فلسفے میں تضاد آئے تو مسلمانوں کو مذہب اور قرآن کو دل سے لگانا چاہیے اور سائنس اور فلسفے کو خیر باد کہہ دینا چاہیے۔

 چوتھی روایت انسان دوستی کی روایت ہے جس کا آغاز چین کے فلسفیوں کنفیوشس اور لائوزو سے ہوا۔ کنفیوشس نے انسانیت کو سنہری اصول کا تحفہ دیا کہ دوسرے انسانوں سے ویسا ہی سلوک کرو جیسا کہ تم چاہتے ہو وہ تم سے کریں۔ لائوزو نے کہا ہم جتنا فطرت کے قریب۔۔۔ ۔ ۔ TAO ۔۔۔ کے قریب رہیں گے سکھی رہیں گے۔

اکیسویں صدی میں سات ارب انسانوں میں سے چار ارب مذہبی روایت سے دو ارب روحانی روایت سے اور ایک ارب سائنسی اور انسان دوستی کی روایت سے جڑے ہوئے ہیں۔ میں بھی ان ایک ارب لوگوں میں سے ایک ہوں۔

میرا موقف ہے کہ ہمارے مسائل کا حل جدید سائنس طب نفسیات اور سماجیات میں ہے۔

پچھلے دو سو سالوں میں سیکولر انسان دوستی کے ماننے والوں میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔ 1900 میں ان کی تعداد ایک فیصد تھی 2000 میں ان کی تعداد ساری دنیا میں پندرہ فیصد ہے۔ کینیڈا میں بیس فیصد اور سکنڈینیوین ممالک میں پچاس فیصد سے زیادہ ہے۔

انسانیت کے اس نظریاتی ارتقا میں

چارلز ڈارون جیسے ماہرینِ حیاتیات

سگمنڈ فرائڈ جیسے ماہرینِ نفسیات

کارل مارکس جیسے ماہرینِ سماجیات

سٹیون ہاکنگ جیسے ماہرینِ فلکیات

برٹنڈرسل جیسے ماہریں ریاضیات

اور

ژاں پال سارتر جیسے فلسفیوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔

انہوں نے انسان اور اس کے گرد کائنات کو الہام کی بجائے عقل فہم شعور سے سمجھنے کو کوشش کی۔ عارف عبدالمتین نے انسانی ارتقا کا ہزاروں سالوں کا سفر ایک شعر میں بیان کیا ہے۔

اپنی پہچان کرنے نکلا تھا

ایک عالم سے روشناس ہوا

ایک وہ زمانہ تھا کہ میرا اندھا ایمان تھا کہ دنیا میں ایک ہی ازلی و ابدی حتمی و مکمل سچ ہے۔

ایک یہ زمانہ ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں اتنے ہی سچ ہیں جتنے انسان۔

اب میں ایک انسان دوست ہونے کے ناطے ایسے معاشرے کا خواب دیکھتا ہوں جہاں سب انسان برابر ہوں گے اور عورتوں اور اقلیتیوں کو بھی وہی حقوق و مراعات ملیں گے جو مردوں کو ملتے ہیں۔

محترمی زید قریشی صاحب ! یہ میری اور ساری دنیا کے ایک ارب انسانوں کی خدا پرستی سے انسان دوستی کے سفر کی مختصر روداد ہے۔ جہاں تک حیات بعد الموت اور جنت دوزخ کے تصور کا تعلق ہے شاید آپ نہ جانتے ہیں کہ لفظ PSYCHE کا مذہبی لوگ ترجمہ روحSOUL  کرتے ہیں اور سیکولر انسان دوست اس کا ترجمہ ذہنMIND  کرتے ہیں۔

ہندوستان میں روح کو ماننے والے ہندوازم اور بدھ ازم کے پیروکار ایمان رکھتے ہیں کہ روح بار بار دنیا میں آتی ہے اور جب نروان حاصل کر لیتی ہے تو روحِ کل میں شامل ہو جاتی ہے اور پھر لوٹ کر نہیں آتی۔

مشرقَ ِ وسطیٰ کے روح کو ماننے والے یہودی عیسائی اور مسلمان ایمان رکھتے ہیں کہ روح دنیا میں بار بار نہیں آتی وہ قیامت کا انتظار کرتی ہے اور پھر اپنے اعمال کے حوالے سے پرکھی جاتی ہے اور جنت یا دوزخ میں بھیجی جاتی ہے۔

مجھ جیسے سیکولر انسان دوست نہ حیات بعد الموت پر ایمان رکھتے ہیں نہ جنت دوزخ پر۔ علامہ اقبال نے بھی اپنے چھ لیکچر میں لکھا ہے

HEAVEN AND HELL ARE STATES OF MIND, NOT PLACES

جنت اور دوزخ ذہنی کیفیتوں کے نام ہیں جگہوں کے نام نہیں۔

اب میرا موقف ہے کہ ہماری ایک ہی زندگی ہے اور ہمیں اپنی وہ زندگی اپنے سچ کو تلاش کرنے اور دوسرے انسانوں کی خدمت کرنے میں گزارنی چاہیے۔

یہ میرا سچ ہے۔ اور میں سب انسانوں کے سچ کا احترام کرتا ہوں چاہے وہ سچ مذہبی ہو روحانی ہو یا سائنسی ۔ مذہبی جنگیں لڑنے اور فتوے لگانے کی بجائے ایک پرامن زندگی گزارنے کے لیے ہمیں ایک دوسرے کے سچ کا احترام سیکھنا ہے چاہے ہم اس سے متفق ہوں یا نہ ہوں۔

ہم پر دھیرے دھیرے یہ منکشف ہو رہا ہے کہ ہم سب انسان ایک ہی خاندان کے افراد ہیں۔ ہمارے دشمن بھی ہمارے دور کے رشتہ دار ہیں کیونکہ ہم سب دھرتی ماں کے بچے ہیں۔

زید قریشی صاحب !

میرے کالم پڑھنے ، مجھ سے سوال کرنے اور مجھے ایک نیا کالم لکھنے کی تحریک دینے کا شکریہ۔

آپ کا انسان دوست لکھاری

خالد سہیل